گرتی ہوئی دیوار کو ، ایک دھکا اور دو

ہفتہ 29 مارچ 2014

Abdul Raheem Anjaan

عبدالرحیم انجان

کسی بھی کھیل میں جب دو ٹیمیں میدان میں اترتی ہیں ، تو تماشائیوں کی اکثریت دونوں ٹیموں میں سے معیاری کھیل کا مظاہرہ کرنے والی ٹیم کے کھیل سے نہ صرف لطف اندوز ہوتی ہے، اس کے لئے حمائتی نعرے بھی لگاتی ہے ۔تنگ دلی کے حوالے سے کلکتہ( انڈیا) کا کراوٴڈ سر فہرست ہے کہ جس کو مخالف ٹیم کی اچھی کار گزاری پر نہ صرف سانپ سونگھ جاتا ہے، وہ مخالف ٹیم پر خالی ڈبے وغیرہ بھی پھینکنے لگتے ہیں،یہاں تک کہ ایک بار ایسے بھی ہو چکا ہے کہ سارے کراوٴڈ کو اسٹیڈیم سے باہر نکال کر جاری کھیل ختم کرایا گیا ہے۔

تندلی کی اِس افسوسناک شہرت میں اب بنگلہ دیشی وزیر اعظم محترمہ حسینہ واجد بھی شریک ہو گئی ہیں۔جنہوں نے دوسری بار جس تنگ دلی کا مظاہرہ کیا ہے،اُس نے انہیں رسوائی کی اتھاہ پستیوں میں د ھکیل دیا ہے ۔

(جاری ہے)

میزبانی کے فرائض میں فراخدلی کا دمن بہت وسیع ہونا چاہئے۔ اس سے پہلے بھی ایک موقعہ پر بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان میچ میں جیتنے والی ٹیم کے کھلاڑیوں کو ،وزیر اعظم بنگلہ دیش نے پروگرام کے مطابق انعامات سے نوازنا تھا ، لیکن پاکستان کی جیت کو برداشت نہ کرتے ہوئے محترمہ رنج و غم سے لال بھُبوکا بنی انعام تقسیم کئے بغیر ہی اٹھ کر چلی گئی تھیں۔

اب T 20 ورلڈ کپ کے کھیلوں کے دوران ایک عام دستور کے مطابق بنگلہ دیشی کراوٴڈپاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان میں کھیل کے دوران بنگلہ دیش ہی کو سپورٹ کرتا رہا ہے، لیکن جب جب پاکستان کسی دوسری ٹیم کے ساتھ کھیل رہا ہوتا تھا تو بنگلہ دیشی کراوٴڈ پاکستانی ٹیم کوا سپورٹ کرتا رہا ہے۔ جس کے لئے ہم سبھی پاکستانی ان کے شکر گزار ہیں۔لیکن محترمہ سے یہ بھی برداشت نہیں ہوا اور انہوں نے بنگلہ دیشی میزبانی کے دامن پر شرمناک داغ لگاتے ہوئے ،بنگلہ دیشی کراوٴڈ پر کسی دوسری ٹیم کی حمایت اور بنگلہ دیش میں کسی غیر ملکی پرچم کو لہرانے پر بندش لگا دی ہے ۔

پاکستانی پرچم تو کھیل کے دوران پاکستان کے بد ترین دشمن بھارت کی سر زمین پر بھی لہرائے جاتے ہیں اور سبھی ممالک میں اپنی اپنی ٹیموں کو اسپورٹ کرنے کے لئے آنے والا کراوٴڈ اپنے ساتھ اپنے قومی پرچم بھی لے کر آتا ہے اور کھیل کے دوران اپنے قومی پرچم خوب لہراتاہے۔لیکن آج تک کسی بھی ملک نے اپنی شکست کی خفت ایسی شرمناک بندشیں لگا کر ختم نہیں کی۔

بہر کیف، بنگلہ دیشی کرکٹ بورڈ کی لگائی ہوئی اس بندش کا آئی۔ سی ۔ سی نے نوٹس تو لے لیا ہے اورانصاف کا تقاضہ تو یہ ہے کہ ایسی تنگ دل وزیر اعظم کی وزارت ِ عظمیٰ کے دور میں آئندہ کبھی بھی بنگلہ دیش کو کرکٹ کی میزبانی کے فرائض نہ سونپے جائیں ۔ لیکن یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ آئی۔سی۔سی کے تین بڑوں میں انڈیا بھی تو شامل ہے۔ بھلا وہ اپنے چیلے بنگلہ دیش پر کوئی ایسی بندش کیوں لگنے دے گا ؟ توقع کے عین مطابق آئی۔

سی۔سی کے نوٹس لینے کے نتیجے میں بنگلہ دیشی کرکٹ بورڈ نے اپنی بندش واپس لے کر آئی۔سی۔سی کے نوٹس کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔
بنگلہ دیش کے کسی بھی اسٹیڈیم میں کوئی غیر ملکی پرچم لہرائے جانے اور کسی دوسری ٹیم کے لئے حمائتی نعرے لگائے جانے پر بند ش نہ صرف تنگ دلی کی حیران کن مثال ہے، اس حقیقت کی دلیل بھی ہے کہ بنگلہ دیشی قیادت نہ صرف اپنی ٹیم کی کار گزاری سے شدید قسم کی مایوسی کا شکار ہو چکی ہے،بنگلہ دیشی ٹیم کی جیت کی دیوار کو گرتا ہوا بھی محسوس کر رہی ہے ،بس اِس گرتی ہوئی دیوار کو ایک دہک اور لگانے کی ضرورت ہے۔


امریکہ اور کینیڈا میں سبھی کھیلوں میں ٹیموں کے ساتھ موڈیوشنل اسپیکرز ہوتے ہیں۔جو اپنی ٹیم کو کھیل کے میدان میں اتارنے سے پہلے اپنے پُر جوش خطابات سے کھلاڑیوں میں یہ روح پھونکنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس وقت تمہاری قوم کے کیا بوڑھے ، کیا جوان اور کیا بچے سب کی نظریں تم پر لگی ہوئی ہیں۔تم قوم کے ہیرو ہو اور تم نے قوم پر ثابت کرنا ہے کہ وہ تمہیں اپنا ہیرو سمجھ کر کوئی غلطی نہیں کر رہے۔


میں یہاں انشورنس ایجنٹ کی حیثیت سے کام کرتا رہا ہوں۔ یہاں کی انشورنس کمپنیاں اپنی فیلڈ فورس کے لئے بڑے بڑے سیمنار،جن میں معروف موڈویشنل اسپیکرز شرکت کرتے ہیں، کا اہتمام کرتی رہتی تھیں۔مجھے موڈیویشنل اسپیکر باب پراکٹر کا کسی کی انا کو مجروح کئے بغیر اس کی خامیوں کو اس پر عیاں کرنے کا ایک نسخہ بہت اچھا لگا تھا تھا۔ انہوں نے ہم سے کہا تھا۔

”ہر صبح غسل خانے میںآ ئینے کے سامنے کھڑے ہو کر پانچ مرتبہ کہیں،” میں ایک کامیاب انشورنس سیل مین ہوں “ میں نے جب یہ تجربہ کیا تو آئینے میں ابھرے ہوئے میرے عکس نے مجھے میری کئی کمزوریوں کے طمانچے مارنے شروع کر دئے۔جب کوئی دوسرا آپ کی کمزور یوں کا ذکر کرتا ہے ، تو آپ اپنے دفاع پر اتر آتے ہیں۔لیکن جب تنہائی میں آپ کا آئینہ آپ سے آپ کی کمزوریوں کا ذکر کرے گا توآپ اپنی کمزوریوں کے بارے میں نہ صرف سوچنے لگتے ہیں اُن پر قابو پانے کی کو شش بھی شروع دیتے ہیں۔


اٹھارہ کروڑ پاکستانی عوام،جن کے پاس کرکٹ کی جیت کے سوا کوئی خوشی نہیں رہی، کے شاہین اس تجر بے سے فائدہ اٹھا کر اپنے پرستار عوام میں خوشیاں بانٹ سکتے ہیں،ہماری ٹیم کے پاس بے شمار ٹیلنٹ ہے،فقط اُن کے ٹیلنٹ کو ابھارنے کی ضرورت ہے۔ کھلاڑیوں میں، اُن کی انا کو مجروح کئے بغیر، یہ روح پھونکنے کی ضرورت ہے کہ وہ پاکستانی عوام کے ہیرو ہیں ۔

جب وہ کھیلتے ہیں توسارا پاکستان انہیں دیکھ رہا ہوتا ہے۔مسئلہ ہار جیت کا نہیں ، دو ٹیموں سے ایک نے ہارنا ہی ہوتا ہے،مسئلہ لا پرواہی یا خوف کے دباوٴ میں کھیل کر ہارنے کا ہے۔ کرکٹ کے کھیل میں فتح کی بنیاد چار خوبیوں پر رکھی جاتی ہے۔آپ صبح اٹھ کر غسل خا نے میں آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر پانچ پانچ مرتبہ کہیں۔(۱) میں بہترین بلے باز ہوں (۲) میں بہترین فیلڈر ہوں (۳) میں بہترین بالر ہوں(۴) میں ہمیشہ ٹیم کے لئے کھیلتا ہوں “ اب کوئی اپنی خامیوں کو دور ہی نہ کرنا چاہیے تو یہ الگ بات ہے۔

ویسے یہ تجربہ ایک کھلاڑی کی انا کو مجروح کئے بغیر اس کی خامیوں کی نشاندہی ضرور کر دے گا۔ پہلے کی تین خوبیوں کے علاوہ ، ٹیم کے لئے کھیلنے کی خوبی بھی ایک انتہائی اہم خوبی ہے۔ پچھلے ورلڈ کپ میں انڈیا کے مقابل مصباح الحق نے ٹیم کی ضرورت سے زیادہ ، اپنی کار گزاری دکھانے کے لئے ٹک ٹک کھیلتے ہوئے بہت زیادہ بالوں کے نقصان پر رن بنا کر ٹیم کو دباوٴ میں ڈال دیا تھا۔

مانا کہ اب اُن کے کریڈٹ پر قابل تعریف رن ہیں،لیکن یہ اب کئی سال بعد کی بات ہے اور ان کے ساتھ وابستہ یہ حقیقت کبھی بھلائی نہیں جا سکتی کہ ورلذڈ کپ انڈیا کو دینے کا سہرا بھی اُن ہی کے سر ہے۔
بہر کیف ہم باب پراکٹر کے دئے ہوئے ٹِپ کی طر آتے ہیں ،جس ٹِپ سے ہماری بد نصیب قوم کے لیڈر بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں،وہ بھی صبح آئینے کے سامنے کھڑ ے ہو کر اگر پانچ بار یہ کہہ لیا کریں ۔

” میں دکھی انسانیت کا دوست انسان ہو، میں تباہی کے دہانے پر کھڑے پاکستا ن کا دوست ہوں۔“ تو یقین کریں آئینہ انہیں بے شمار طمانچے مارے گا اور وہ طمانچے ہی شاید ہمارے سیاسی کلچر کو کچھ بہتر بنا دیں۔ ویسے جن لوگوں کو میڈیا کی کھری کھری باتیں دکھی انسا نیت اور پاکستان کا دوست نہیں بنا سکیں،انہیں ان کے واش روم کا آئینہ کب بیدار کر سکے گا ؟ وہ آئینے کو توڑ دیں گے،خود نہیں بد لیں گے۔ ایک عام آدمی محض اس نسخے کو آزمانے کے لئے خود پر یہ کہہ کر آزما سکتا ہے۔” میں ایک ایماندار اور اچھاانسان ہوں “

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :