پنکچرزدہ صحافت

جمعرات 27 مارچ 2014

Hussain Jan

حُسین جان

کتابوں میں زرد صحافت کے بارے میں تو پڑھ رکھا تھا مگرپنکچر زدہ صحافت کی تھیوری سے اب آشنا ہوئے ہیں۔ پاکستان میں صحافت کو جس طرح بیچا جا رہا ہے اس کی مثال نہیں ملتی ہمارے ملک کے حکمران جب صحافیوں کو نوازنے پر آتے ہیں تو ایسے بڑئے بڑئے عہدے دے ڈالتے ہیں کہ بکاؤ صحافیوں کی نسلیں تک آرام سے بیٹھ کر کھا سکتی ہیں۔سیاست اور صحافت کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ دونوں میں فرق بھی پنہاں ہے کہ صحافت کا کام سیاست پر کڑی نظر رکھنا اور عوام کو سیاست کی ریاکاریوں سے باخبر رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کے مختلف پہلوں کو زیر بحث بھی لانا ہے۔

پاکستان میں ایک عرصے تک آمروں کی حکومت رہی ہے جنہوں نے بہت سے صحافیوں کو ایسی سخت سخت سزائیں سنائی کہ لوگ اپنے بچوں کو صحافت میں آنے سے منا کرتے رہے۔

(جاری ہے)

لیکن کچھ زرخرید غلام ایسے بھی تھے جو اپنے قلم کی اچھی بولی لگنے کے ساتھ ہی اپنی توپوں کا رُخ جمہوریت کی طرف موڑ دیتے تھے۔
پاکستان میں اس وقت جمہوری حکومت ہے اور ہم پڑھتے چلے آرہے ہیں کہ جہوریت بہترین طرز حکومت ہے کہ جس میں عوام کو براہ راست حکومت میں دخل اندازی دینے کا حق حاصل ہوتا ہے۔

بدقسمتی سے ہمارے ہاں اس قسم کا کوئی رواج موجود نہیں یہاں جمہوریت سے مراد چند خاندانوں کی جمہوریت ہے کہ پورا خاندان بیٹھ کر ووٹ ڈالتا ہے کہ اس دفعہ خاندان کا کون سا فرد صاحب اقتدار بنے گا۔پھر بچوں کی باری آتی ہے کہ کون کس کا جانشین بنے گا۔ یہ سب اسی لیے ممکن ہو رہا ہے کہ صحافت کی کالی بھیڑیں ایسے سیاستدانوں کی جیب میں ہوتی ہیں جو اپنی مرضی سے صحافی کے قلم کا منہ موڑ دیتے ہیں۔

حق و سچ لکھنے والے ہر دور میں موجود رہے ہیں جنہوں نے کبھی اپنے قلم کی سودے بازی نہیں کی چاہے اس کے لیے انہوں نے کتنی ہی قیمت نا چکائی ہو مگر کبھی اپنے اصولوں پر سمجھوتا نہیں کیا۔ ابھی کل کی ہی بات ہے کہ موٹر باےئک پنکچر ہو گئی تو ایک کاریگر سے پنکچر لگوانے لگا اُسنے کام کے ساتھ ساتھ سیاست پر بھی گفتگو جاری رکھی اور بولا کہ کاش اُسے بھی سیاسی پنکچر لگانے آتے تو وہ بھی آج کسی شعبے کا چیرمین ہوتا، یا آرٹ کلچرل کے پروگرام کرتا پھرتا۔

اُس کی باتوں سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ ریوڑیوں کی اس بندربانٹ سے خوش نہیں۔
صحافت ایک مقدس پیشہ ہے اور ایک صحافی کی زمہ داری ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کو تصویر کے تمام رُخ دیکھائے جہاز میں بیٹھنے کی خاطر حقائق کو مسخ نہ کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ بہت سے مالکان بھی ایسے ہیں جو اپنے صحافی سٹاف کو کئی کئی مہینوں سے تنخواہ نہیں دیتے جس کی وجہ سے نوجوان صحاف بلیک میلنگ پر اُتر آتے ہیں اور لوگوں سے پیسا وصولنے لگتے ہیں۔

اس ملک میں بہت بڑے بڑے نامور صحافی ایسے گزرے ہیں جن کے لیے دو وقت کی روٹی پوری کرنا مشکل ہو جاتا تھا لیکن مجا ل ہے جو کبھی غلط راستے پر چلے ہوں لیکن آج کل میڈیا نے ایک نیا رُخ اپنا لیا ہے۔ جو ٹی وی پر دکھتے ہیں وہی بکتے ہیں 10لاکھ تنخواہ تو معمولی بات ہے۔ ہمارے ایک اُستاد ہوا کرتے تھے وہ اکثر ہمیں کہا کرتے تھے کہ صحافت میں آپ پر اکثر ایسا وقت آئے گا کہ آپ کے لیے ٹھیک راستے کا چناؤ مشکل ہو جائے گا آپ کا سہی فیصلہ ہی آپ کے مستقبل کا فیصلہ کرئے گے۔

ہمارے ملک کے ایک نامور صحافی روف کلاسرا بھی ہیں جن کے نظریات سے میں اتفاق نہیں کرتا مگر اس کے باوجود اُن کو اصل صحافی مانتا ہوں کہ اُن کی نظر میں تمام سیاسی جماعتیں اور سرکاری ملازم ایک جیسے ہیں اُن کے ہاتھ جب کبھی بھی کوئی سکینڈل لگتا ہے انہوں نے اُسے کبھی بیچنے کی کوشش نہیں کی بلکہ عوام کے سامنے لارکھا ہے تاکہ عوام کو پتا چلے کہ اُن کے ٹیکس پر پلنے والے کس طرح اُن کا ہی خون چوس رہے ہیں ہم اُمید ہی کر سکتے ہیں کہ ہمارے یہ ایماندار صحافی کا قلم ہمیشہ سچ ہی لکھتا رہے گا۔


اس میں کوئی شک نہیں کہ ان جیسے اور بھی بہت سے صحافی ہے جو اپنا کام عبادت سمجھ کر کررہے ہیں اور کبھی کسی دباؤ میں نہیں آتے ۔ لیکن افسوس تو اُن صحافیوں پر ہے جو خود کو گروی رکھ کر عوام کی سودے بازی کرتے ہیں اور دانشور ہونے کا لبادہ پہنے رکھتے ہیں۔ پاکستان کی مختصر سی تاریخ میں بہت سے دانشوروں کا کردار بھی بہت اہم ہے جنہوں نے حاکم وقت کے سامنے کلمہ حق کہنے میں کبھی دیر نہیں لگائی مگر موجودہ دور میں ایسے دانشوروں کا کال پڑ چکا ہے۔

اب تو دانشوروں کو بھی خون لگ چکا ہے اُن کی تحریروں اور شعروں میں وہ دم خم نہیں رہا کہ عوام میں آگاہی پیدا کر سکے۔ دُنیا کی چکا چوند نے اُن کی ترجہیات بھی بدل دی ہیں بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومنے کے شوق نے ان کے قلموں کو زنگ آلود کر دیا ہے۔
جب پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کا آغاز ہو ا تو ایک ڑیڑھی بان بھی اپنے مسائل سے آگاہ ہو چکا تھا۔

مگر بدقسمتی سے الیکٹرانک میڈیا نے ریٹنگ کے چکروں میں اپنی افادیت کھو دی پہلے لوگ ڈراموں پر ٹاک شوز کو ترجہی دیتے تھے مگر اب ان ٹاک شوز کو دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے کہ ہمارے صحافی صرف لڑائی کروانے میں ماہر ہے۔ ہمارے پاس پاکستان کی میڈیا اور ٹھیٹر انڈسٹری زندہ مثال کی شکل میں موجود ہے نااہل اور جاہل لوگوں نے ان دو بڑی انڈسٹریوں کا بیڑا غرق کر دیا اور آج وہی لوگ نیوز چینلز پر بیٹھے دانشوروی جھاڑ رہے ہوتے ہیں۔

پوری دُنیا میں کامیڈی کے زریعے سیاست اور سیاست دانوں پر تنقید کی جاتی ہے مگر ہمارے الیکٹرانک میڈیا نے کامیڈی کے نام پر ایسے ایسے پروگرام شروع کر رکھے ہیں جو لوگوں کو صرف مراثی بننے میں مدد دے رہے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہے جن کی آمد سے عوام ایک اچھے میڈیم سے دور ہو گے۔ اگر یہی حال رہا تو وہ وقت دور نہیں جب ہمارا الیکٹرانک میڈیا بھی قصہ پارینہ ہو جائے گا۔


یہ پنکچر زدہ صحافت لوگوں میں انتشار پھیلانے کا سبب بن رہی ہے۔ حقائق کی نفی اور اپنی اپنی وفاداریوں کو ثابت کرنے کے لیے میڈیا میں بیٹھی کالی بھیڑیں عوام کا اعتماد کھو رہی ہیں۔ ابھی بھی وقت ہے کہ میڈیا اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بہال کر سکتا ہے اگر زیادہ دیر ہو گی تو یہ جو لوگ آج بڑی بڑی گاڑیوں میں پھرتے اور بڑے بڑے گھروں میں رہتے ہیں ان پر فاقوں کا ڈیرہ ہو گا اور کوئی ان کی بات سننے کو تیار نہیں ہوگا۔ اس سے پہلے کے دیر ہو ہمیں اپنا قبلہ درست کر لینا چاہیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :