STEM نظامِ تعلیم

منگل 25 مارچ 2014

Manzoor Qadir Kalru

منظور قادر کالرو


STEM سائنس(S)، ٹیکنالوجی (T)، انجینرنگ(E) او ر ریاضی (M) کا مخفف ہے ۔ STEM تعلیم سے مراد سائنس،ٹیکنالوجی، انجینرنگ اور ریاضی ہے۔ STEM تعلیم ان مختلف پانچ شعبوں کی تعلیم ہے۔ آج امریکہ کے تعلیمی نظام میں STEM سے متعلق پروگرام تعلیمی پالیسی کا مرکزی حصہ ہے۔امریکی حکومت STEM تعلیم کو ملک کی ترقی اور سلامتی کی بنیاد تصور کرتی ہے۔ اس نظامِ تعلیم کی ترویج و فراہمی کے لئے سکول ، کالج ،یونیورسٹی، سٹیٹ اور قومی سطح پر سینکڑوں پروگرا م شروع کئے گئے ہیں۔

STEM کے مختلف شعبوں میں غیر ملکی طلباء اورماہرین کو بھی امریکہ میں تعلیم و تدریس اور تحقیقی کے لئے پرکشش مواقع فراہم کئے جاتے ہیں۔امریکہ کی طرح کئی دوسرے ترقی یافتہ اور بہت سے ترقی پزیر ممالک سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم کو اپنی قوموں کے مستقبل کے لئے انتہائی اہم تصور کرتے ہیں ۔

(جاری ہے)

بعض ترقی یافتہ ممالک نے اس نظامِ تعلیم کو رائج کر رکھا ہے جبکہ دوسرے اس کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔

آج یہ طے شدہ حقیقت ہے کہ مستقبل میں کسی بھی قوم کی معاشی و مجموعی کامیابی کی بنیاد سائنس و ٹیکنالوی کے ماہرین کی دستیابی پر ہے، لہٰذا بیشتر ممالک نے اس سلسلے میں 20-25 سال کا لائحہ عمل طے کر لیا ہے۔ اس لائحہ عمل کا مقصد ملک میں اگلے بیس سے پچیس سال تک سائنس اور ٹیکنالوجی کے ماہرین کی ضرورت پوری کرناہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے نصاب میں ایسی تبدیلیاں کی جا رہی ہیں جن کا مقصد بچوں میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی دلچسپی اور STEM مضامین میں اعلٰی درجے کی قابلیت پیدا کرنا ہے۔

ہمارے مسائل بہت پیچیدہ ہیں۔ اس فہرست پر نظر ڈالیں تو صحت ، پانی خوراک توانائی ، مواصلات سے متعلق بے شمار مسائل کا انبار نظر آتا ہے جن کے حل کے لئے ملک میں ماہرین دستیاب نہیں ہیں۔ ڈینگی سے نبٹنے کے لئے سری لنکا کے ماہرین کو بلایا گیا۔ ہماری موٹر ویز، ڈیم اور بندرگاہیں غیر ملکی ماہرین نے ڈیزائن کی ہیں۔ صفائی اور فضلے کے بندوبست کے لئے غیر ملکی اداروں کی ضرورت پڑتی ہے۔

پیچیددہ امراض کے علاج کے لئے بیرونی ممالک کا رخ کرنا پڑتا ہے۔آج میدانِ حرب میں روایتی ہتھیاروں کی جگہ جدید اور پیچیدہ ہتھیاروں پر مشتمل ہتھیار لیتے جار ہے ہیں۔ ریمورٹ کنٹڑول، ڈرون، دشمن کے کمپیوٹر نظام میں در اندازی، مواصلاتی نظام کو مفلوج کرنا ایسے ہی ہتھیاروں کی مثالیں ہیں۔ ان ہتھیاروں کے استعمال کے لئے بھی اعلٰی درجے کی سائنسی و تیکنیکی علم و مہارت درکار ہے۔

لہٰذا آئیندہ برسوں میں روایتی ہتھیاروں اور افواج کی عددی برتری اپنی اہمیت کھو دے گی۔ دنیا کی تقریباَ تمام بڑی افواج کا ڈھانچہ تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی کے ماہر تجربہ کار ، انجینئر اور محقق ان افواج کا بنیادی حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ مستقبل کی ان ضرورتوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہمارے دفاعی منصوبہ سازوں پر بھی لاز م ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم کے فروغ کے لئے اپنے دائرہ کار میں کاوشیں کریں اور دفاعی میدان میں وطن عزیز کی سلامتی کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے STEM منصوبوں کے ماہرین تیار کریں۔

یہ بجا کہ پنجاب میں کثیر تعداد میں سکولوں کے لئے بلڈنگ ہی موجود نہیں۔ اگر موجود ہے تو چھت نہیں اور اگر چھت ہے تو دروازے نہیں۔اگر بلڈنگ موجود ہے تو اس میں جانور چارہ کھا رہے ہیں۔ٹیچروں نے پٹواریوں کی طرح اپنے ماتحت ٹیچر رکھے ہوئے ہیں۔اس صورتحال سے نکلنے کے لئے کثیر وسائل مخلص قیادت مسلسل جدوجہد اور وقت کی ضرورت ہے لیکن اس جہاد میں STEM نظامِ تعلیم کو منزل بنانا بھی ناگزیر ہے۔

اگرچہ اس صورتحال کی بہتری کے لئے پنجاب حکومت اپنے وسائل میں رہتے ہوئے بھرپور کوشش کر رہی ہے۔پنجاب حکومت کا کوالٹی ایجوکیشن سسٹم قابلِ تحسین ہے لیکن ملک کو ایشین ٹائیگر بنانے کے لئے STEM ایجوکیشن کو منزل بنانا چاروں صوبائی حکومتوں کے لئے ناگزیر ہے۔ قوم کے بہتر مستقبل کی واحد صورت دانشورانہ خود مختاری ہے۔ دانشورانہ خود انحصاری سے مراد STEM کے مختلف شعبوں میں اعلٰی تعلیم یافتہ افراد کی کثیر تعداد پر مشتمل آئیندہ نسل ہے جو ہمارے مسائل کے کامیاب حل تلاش و تخلیق کر سکے۔

پاکستان میں STEMنظامِ تعلیم کے لئے تین ،پانچ اور دس سالہ کثیر و قلیل مدتی منصوبے تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ مرکزی حکومت کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومتوں،این جی اوز اور سیاسی اور فلاحی جماعتوں اور تنظیموں کو بھی سائنس و ٹیکنالوجی کی تعلیم کے فروغ و انتظام کے لئے بھرپور حصہ لینے کی ضرورت ہے، ان میں (motivation) تحریک پیدا کرنے کے لئے حکومتی اقدامات کی ضرورت ہے۔

یہ بجا کہ جہاں تعلیم کا بنیادی ڈھانچہ ہی موجود نہ ہو وہاں STEM نظامِ تعلیم وRecommend کرنا مضحکہ خیز ہے لیکن یہ بھی درست ہے کہ مستقبل قریب میں ترقی یافتہ اقوام کے چھانٹوں سے بچنے کے لئے اس تعلیم کی طرف بڑھنا بھی ناگزیر ہے۔ہمیں اس نظامِ تعلیم کے لئے طلباء کوایک طویل المعیادی پروگرام کے تحت بھیجنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ تعلیم سے فراغت کے بعد اس نظامِ تعلیم کے رائج کرنے کی قیادت کریں۔ ہمیں اقوام عالم کی ترقی و خوشحالی جوں جوں روندے گی تو ں توں اس نظامِ تعلیم کی پیاس اور بھڑکے گی۔اس وقت کے لئے ہمیں اس نظامِ تعلیم کے امام پیدا کرنے کی ابھی سے منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :