ہمارے اداروں کی تنزلی کا راز

منگل 25 مارچ 2014

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

2005 یا 2006 کا سال تھا ہم شمسی ائیر بیس پر تعینات تھے۔ جہاں پر ہمارے ساتھ کچھ امریکی بھی تھے۔ وہ پورا دن اپنے کام میں مصروف رہتے اور ہم اپنے کام میں۔ ان کا کام " ہوائی کھلونوں" کو قابو کرنا تھا اور ہمارا کام اس بیس کی حفاظت اور سروسز فراہم کرنا تھا۔ ہمارا ان امریکیوں سے زیادہ واسطہ نہیں تھا۔ ان ہی دنوں ہمیں ایک بالکل "زیرو میٹر " ڈبل کیبن گاڑی مہیا کی گئی۔

لیکن شو مئی قسمت یا لاپرواہی کہ دوسرے ہی دن ڈرائیور نے وہ گاڑی ایک پہاڑی سے نیچے پھینک دی وہ خود معجزانہ طور پر بچ گیا لیکن گاڑی صرف ایک ڈبہ سا بن کر رہ گئی۔ جیسے کباڑی ایک ڈبے کو ہر طرف سے توڑ مروڑ کر سائز میں چھوٹا کر دیتے ہیں یہی حال اس گاڑی کا بھی ہو گیا۔حادثے کے دن ہی وہاں تعینات ایک امریکی ہمارے پاس آیا اور ہم سے کہا کہ یہ گاڑی تم لوگوں کو حکومت پاکستان نے سہولت کے لیے دی تھی لیکن تم لوگوں نے تو ایک ہی دن میں اس کا تیا پائنچا کر دیا اس کی بات پر وہاں موجود ہم لوگ ہنس دیے اور اسے جواب دیا کہ نقصان تو ہوتے رہتے ہیں لہذا یہ بھی ہو گیا۔

(جاری ہے)

اس نے جواب میں ایک نہایت ہی دلچسپ فقرہ ہم پر کسااور کہا کہ " تم لوگ پوری سرکاری نوکری کے دوران ایک ریڈیو جو تم اپنے پیسوں سے خریدتے ہواسے سنبھال کر رکھتے ہو ۔ اس کے لیے خصوصی کور بنواتے ہو اور ریٹائرمنٹ پر اسے گھر ساتھ لے کر جاتے ہو۔ اور بڑے فخر سے بتاتے ہو کہ یہ ریڈیو آج تک بالکل اپنی اصلی حالت میں اور کوئی اوزار نہیں لگا اس کو۔

جب تم چند روپے کے ریڈیوکو اپنا سمجھ کر اس کی حفاظت کر سکتے ہو تو حکومت کی طرف سے دی گئی کسی بھی چیز کو اپنا کیوں نہیں سمجھتے یہ بھی تو تم لوگوں کے ٹیکسوں سے ہی لی گئی چیز ہوتی ہے۔اس کی یہ بات تلخ تھی مگر حقیقت تھی جس کا ہمارے پاس کوئی جواب نہ تھا اس کا جواب صرف ایک کھسیانی سی مسکراہٹ تھی جس میں شرمندگی کا عنصر نمایاں تھا۔
یہ واقعہ جس شخص کی زبانی مجھ تک پہنچا میں نہ اسے جانتا ہو ں نہ کبھی پہلے ملاقات ہوئی بس یونہی راہ چلتے اس سے سامنا ہو گیا اور پتا نہیں اب باقی زندگی اس سے سامنا ہو گا بھی کہ نہیں لیکن اس چھوٹی سی ملاقات سے ایک تلخ حقیقت کا پتا ضرور چل گیا۔

کہ ہم اس دھرتی کی جڑیں اپنے ہاتھوں سے خود کھوکھلی کر رہے ہیں۔ وطن عزیز میں کتنے ہی ادارے ہیں جو تنزلی کی طرف جا رہے ہیں اور اس کا ملبہ ہمیشہ حکومتوں پر ہی گرتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت بھی اپنی جگہ کوتاہی برتتی ہے لیکن ہمارے انفرادی رویے بھی اجتماعی بربادی کا سبب بن رہے ہیں۔
PTCL کسی زمانے میں ایک منافع بخش ادارہ تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ تنزلی کا شکار ہوتا گیا اور بالآخراسی تنزلی اور نقصان کو وجہ بنا کر اس کے انتظامی امور کے حوالے سے کم و بیش25 سے 30 فیصد شیئر UAE کی کمپنی کو دے دیے گئے۔

یعنی عملاً اس کو پرائیوٹائز کر دیا گیا۔یہی کمپنی جو تنزلی کی طرف جا رہی تھی اب اس کی تنزلی رک گئی۔ اس کی تنزلی میں حکومت اور ملازمین دونوں شامل ہیں۔ جب تک اس کمپنی کے انتظامی امور اور آپریشنز دونوں حکومت کے پاس تھے اس وقت حکومت نے بھی ٹیکنالوجی میں جدت لانے کی کوشش نہیں کی اور نئے رجحانات کو نہیں اپنایا۔ اس کے علاوہ اس کمپنی کے ملازمین نے بھی حصہ بقدرے جسہ اس کی تنزلی میں اپنا کردار ادا کیا۔

ملازمین کا رویہ سرکاری اداروں میں اس طرح کا ہوتا ہے کہ وہ پورا مہینہ کام پر نہ جائیں بس مہینے کے آخر میں تنخواہ ان کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کر دی جائے۔ جیسے ہی اس کمپنی کے انتظامی امور بیچ دیے گئے ملازمین پر سخت پابندیاں لگا دی گئیں ۔ بہت سے ملازمین کو ان کے آبائی شہروں سے دور دراز علاقوں میں تبدیل کر دیا گیا ۔ جس سے بہت سے لوگ نوکری چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔

میں نے خود ان گنہگار کانوں سے اس ادارے کے ملازمین کو یہ کہتے سنا کہ پہلے بہت "موج" تھی جب سے "شیخ" آئے ہیں کوئی پرسان حال نہیں۔ تو عرض ہے بھئی کہ جب سرکاری طور پر آپ کو مراعات مل رہی تھی تو ٓپ کچھ حلال کر کے کھاتے اب جب ایک غیر ملکی کمپنی نے اس کے حصص خرید لیے ہیں تو وہ قوانین کی پابندی تو کرائے گی۔ کیوں کہ اس نے منافع کما کر ہی باقی ماندہ لوگوں کو تنخواہیں بھی دینی ہیں اور خود بھی لینا ہے۔


یہی حال باقی اداروں کا بھی ہے۔ پاکستان ریلوے دن بدن خصارے میں جا رہا ہے۔ پہلے پشاور والوں نے اس کا ستیا ناس کیا اب لاہور والے رہی سہی کسر پوری کر رہے ہیں۔ کبھی ایک ٹرین کو نجی ملکیت میں دینے کی باتیں ہوتی ہیں تو کبھی پاکستان ریلوے کو ہی نجی ملکیت میں دینے کا قصہ چھیڑ دیا جاتا ہے۔ پاکستان ریلوے اس وقت ملک کے اہم مقامات کھربوں روپے کی قیمتی زمین کا مالک ہے۔

انگریز دور کی عمارتوں بنی ہوئی ہیں۔ سینکروں ایکٹرز میں ایک افسر رہتا ہے۔ کیا اس کھربوں روپے کی زمین کا اچار ڈالنا ہے ہم نے؟ اس میں سے کچھ زمین بیچ کر کیوں پاکستان ریلوے کے حالات درست نہیں کر دیے جاتے ؟ لیکن ایسا ہم نہیں کریں گے۔ شومئی قسمت اگر یہ ادارہ نجی ملکیت میں چلا ہی گیا تو صورت حال یہ ہو گی کہ ٹریک بھی ٹھیک ہو جائیں گے ، ٹرینوں کی صورت حال بھی بہتر ہو جائے گی اور انتظامی امور بھی بہتر ہو جائیں گے۔

اس وقت تکلیف ہو گی تو صرف ان لوگوں کو جو پاکستان ریلوے کو اپنی جاگیر سمجھ کر فرسٹ کلاس میں مفت سفر کرنے کے عادی تھے۔ جو آج اس ادارے کو کھوکھلا کر رہے ہیں وہ کل دہائیاں دیں گے لیکن ان کو کوئی پوچھنے ولا نہیں ہو گا۔
PIAکی مثال آپ کے سامنے ہے گذشتہ دور میں اس ادارے کی بہتری کے بجائے توجہ نجی ائیر لائن کی لانچنگ کی طرف رہی( جو ناگزیر حالات کی وجہ سے اب تک ممکن نہ ہو سکی ہے)۔

اور اب حالات یہ ہیں کہ طیارے دن بدن گراؤنڈ کیے جا رہے ہیں۔ اس ملک کی" اشرافیہ" اس ادارے کی سہولیات استعمال کرنے کو تو اپنا حق تصور کرتی ہے لیکن اس ادارے کی بنیادوں کوبھی اپنے ہاتھوں سے کھوکھلا کر رہی ہے۔آج ملازمین کام سے زیادہ سیاسی سرگرمیوں میں زیادہ سرگرم ہیں کل کو یہی ادارہ جب نجی ملکیت میں چلا جائے گا۔ تو یہی لوگ ہوں گے جو چپ کر کے دن گزاریں گے۔

فرق صرف یہ ہے کہ ادارے جب سرکاری ملکیت میں ہوں تو لوگ ان کو لوٹنا فرض عین سمجھتے ہیں۔ لیکن جب انہی اداروں کو بیچ دیا جائے تو یہی لوگ دن گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں اور چپ کر کے کام کرتے ہیں ۔ اس کی واضح مثال PTCLہے۔
فرق صاف ظاہر ہے کہ جب سرکار کی طرف سے ہمیں کوئی بھی سہولت ملتی ہے تو ہم اس کی قدر نہیں کرتے ۔ ہمیں احساس اس وقت ہوتا ہے جب وقت ہاتھوں سے نکل جاتا ہے۔ اس قوم میں جب تک یہ شعور نہیں آتا کہ اس ملک کے اثاثوں کی حفاظت بھی ذاتی ریڈیو کی طرح کی جائے تب تک یہ ملک کبھی ترقی نہیں کر سکتا اور اگر یہ ملک ترقی نہیں کرے گا تو اس کا نقصان نہ صرف ہمیں خود اٹھانا پڑے گا بلکہ اس کے منفی اثرات ہماری آنے والی نسلوں پر بھی پڑیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :