میاں صاحب آپ یہ کر سکتے ہیں!

منگل 25 مارچ 2014

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

یہ 1963کی بات ہے ۔پاکستان کا ایک سفارتی وفد امریکہ کے دورے پر گیا ،وفد کی قیادت پاکستان کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کر رہے تھے ۔وفد کی سطح پر مختلف میٹنگز ہوئیں ،ایکسپورٹ امپورٹ کے معاہدے ہوئی ،باہمی تعان کی یادداشتوں پر دستخط ہوئے ،امریکہ نے پاکستان کو اتحادی فنڈ دینے کا اعلان کیا اور جنوبی ایشیا میں روس کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر تبادلہء خیال ہوا ۔

آخر میں امریکی انتظامیہ نے صدر کینیڈی کے ساتھ پا کستانی وفد کی ملاقات کا انتظام کیا ۔یہ ملاقات وائٹ ہاوٴس میں ہو نی تھی،بھٹو صاحب قانونی بندے اور وقت کے پابند تھے وہ عین وقت پر اپنے وفد سمیت وائٹ ہاوٴس کے میٹنگ روم میں موجود تھے ۔صدر کینیڈی آئے ،گفتگوشروع ہوئی اور جلد ہی ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت پوری مجلس پر چھا گئی ۔

(جاری ہے)

صدر کینیڈی بھٹو صاحب کی جرائت اور حاضر جوابی سے بہت متائثر ہوئے اور گفتگو ختم ہونے تک صدر کینیڈی بھٹو صاحب کے ”مرید “ہو چکے تھے ۔

گفتگو کے اختتا م پر صدر کینیڈی نے مسٹر بھٹو کی طرف دیکھا ،مخصوص امریکی مسکراہٹ چہرے پے سجائی اور پوری سنجیدگی سے بولے ”مسٹر بھٹو اگر تم امریکی ہو تے تو میری کا بینہ میں وزیر ہوتے “بھٹو صاحب نے برجستہ کہا ”مسٹر پریزیڈنٹ غور سے سنیں ،میں اگر امریکی ہو تا تو آپ کی جگہ پر ہوتا “اس حاضر جوابی نے صدر کینیڈی کو ہلا کر رکھ دیا ۔


ہم ذوالفقار علی بھٹو کو جتنا مرضی برا کہیں ،بھٹو کی شخصیت پر جتنے مرضی الزام عائد کریں یا انہیں مشرقی پاکستان کی علیحد گی کا ذمہ دار ٹھہرائیں مگر یہ حقیقت ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد بھٹو دوسرے عوامی لیڈر تھے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ان دو لیڈروں کے بعد پاکستان میں لیڈر شپ بانچھ ہو چکی ہے اور یہ ملک پچھلے چالیس سال سے کو ئی لیڈر پیدا نہیں کر سکا ۔

یہ ذوالفقار علی بھٹو ہی تھے جنہوں نے 1965کی جنگ میں چین ،انڈونیشیا ،سعودی عرب ،ایران ،عراق ،ترکی ،سوڈان ،شام ،الجزائر ،لیبیا ،مراکش ،یمن اور کویت کی حکو متوں کو پاکستان کی مالی اور اخلا قی مدد کے لیئے تیار کیا تھا۔یہ ذوالفقار علی بھٹو ہی تھے جنہوں نے سلامتی کونسل میں تاریخی تقریر کی تھی اور پو ری دنیا کو مخاطب کر کے کہا تھا ”ہم لڑیں گے ،ہمیں ایک ہزار سال تک بھی لڑنا پڑا تو ہم لڑیں گے “یہ ذوالفقار علی بھٹوہی تھے جنہوں نے سلامتی کو نسل کے اجلاس میں پاکستان مخالف قرارداد کو سر عام پھاڑ دیا تھااور کاغذ کے ٹکڑوں کو ہوا میں اچھالتے ہوئے غصے سے اٹھ کر چلے گئے تھے ۔

یہ ذوالفقار علی بھٹو ہی تھے جنہیں امریکی صدر جانسن نے کہا تھا”تم ہمارے راستے سے ہٹ جاوٴ تمہیں جتنی دولت چاہیئے ہم دیں گے “اور بھٹو نے جانسن کو کہا تھا”مسٹر جانسن ہم غیرت مند قوم ہیں کو ئی بکاوٴ مال نہیں “یہ ذوالفقار علی بھٹو ہی تھے جنہیں امریکہ کے یہو دی وزیر خا رجہ ہنری کسنجر نے کہا تھا”اگر تم نے اپنا ایٹمی پروگرام ترک نہ کیاتو ہم تمہیں عبرتناک مثال بنا دیں گے “اور بھٹو نے کسنجر کو مخاطب کر کے کہا تھا ”مسٹر کسنجر ایٹمی پروگرام پاکستانی قوم کا حق ہے اور ہم اپنے حق سے دستبردار نہیں ہو سکتے اور میں اپنی قوم سے غداری کر کے تاریخ کا مجرم نہیں بننا چاہتا “یہ ذوالفقار علی بھٹو ہی تھے جنہیں دھمکیاں دی گئیں کہ اگر تم نے اپنا ایٹمی پروگرام ترک نہ کیا تو ہم تم پر پابندیاں لگا دیں گے تمہاری امداد بند کر دیں گے“ اور بھٹو نے کہا تھا ”ہمیں گھاس کھا کر بھی گزارا کرنا پڑا تو ہم کرلیں گے لیکن ایٹم بم ضرور بنائیں گے “یہ ذوالفقار علی بھٹو ہی تھے جو کہا کرتے تھے ہاتھی مجھ سے ناراض ہے ،ہم نے عربوں کو ہتھیار سپلا ئی کیئے ،ویت نام اور مشرق وسطیٰ کے مسئلے پر اپنے موٴقف پر قائم رہے ،ہم نے ویت نام جنگ میں چین کی اخلا قی مدد کی اور ہاتھی کا موٴقف ماننے سے انکار کر دیااس لیئے ہاتھی مجھ سے ناراض ہے اور مجھے دھمکیاں دیتا ہے ۔

وہ کہا کرتے تھے ہاتھی کا حافظہ بڑا تیز ہے یہ میرا جرم کبھی معاف نہیں کرے گا ،ہم نے چین سے تعلقات بہتر بنائے ہا تھی برا مان گیا ،میں نے اسلا می سر براہی کانفرنس بلا نے کا اعلا ن کیا توہاتھی مست ہو گیا اور ہم نے یونان اور ترکی میں صلح کرائی تو ہاتھی پاکستان کے بڑھتے ہو ئے اثر ورسوخ سے جلنے لگا ۔
بھٹو صاحب کا سب سے اہم کارنامہ جسے وہ پایہء تکمیل تک نہ پہنچا سکے ورلڈ اسلامک بنک کا قیام تھا ۔

بھٹو صاحب کی خواہش تھی کہ ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کی طرز پر پاکستان میں ایک ورلڈ اسلامک بنک قائم کیا جائے اور تمام مسلم ممالک اس کے رکن ہوں ۔اگر بھٹو صاحب کو کچھ وقت اور مل جاتا اور وہ پاکستان میں یہ بنک قائم کرنے میں کامیاب ہو جاتے تو آج پاکستان ترقی کی دوڑ میں ڈنمارک ،ناروے اور سوئزلینڈ سے چار قدم آگے ہوتا ۔آپ خود سوچیں اس وقت تمام عرب حکمرانوں اور عرب شہزادوں کی ساری دولت امریکہ اور یورپ کے بنکوں میں پڑی ہے ،عربوں نے ساری سرمایہ کاری امریکہ اور یورپ میں کی ہوئی ہے ۔

یورپ کے بڑے بڑے نائٹ کلب اور پلازے عربوں کی ملکیت ہیں ۔پیرس کی ایک سڑک” شانزے لیزے “دنیا کی مشہور ترین سڑک ہے ،یہ شاہراہ دنیا کی مہنگی ترین شاہراہ سمجھی جاتی ہے ،یہ ایک کھلا بازار ہے اور اس کے دونوں اطراف پر سربفلک عمارتیں اور شاپنگ سنٹرز ہیں اور اس سڑک کی نوے فیصد عمارتیں عربوں کی ملکیت ہیں ۔پیرس کے مضافات میں سینکڑوں ایکڑا اراضی عربوں کے محلات اور باغات پر مشتمل ہے ۔

امریکہ کی اسٹاک ایکسچینج کے بنیادی شیئر ہولڈر بھی عرب ہیں ،اگر امریکہ کی اسٹاک ایکسچینج کرش ہوتی ہے تو سینکڑوں عرب خاندان دیوالیہ ہو جائیں گے ۔آپ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی تباہی کو دیکھ لیں ۔ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی تباہی کا سب سے ذیادہ نقصان عربوں کو ہوا تھا کیوں کہ جس کمپنی نے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی انشورنس کر رکھی تھی اس کے شیئر عربوں کے پاس تھے اور ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی چالیس بڑی کمپنیوں میں بھی عربوں کے شیئرز تھے اور اکثر مغربی ہوائی کمپنیوں میں بھی عربوں کے شیئرز ہیں اور اگر یہ کمپنیاں دیوالیہ ہو تی ہیں تو اس کا سب سے ذیادہ نقصان عربوں کو ہو گا ۔

اگر بھٹو صاحب پاکستان میں یہ بنک قائم کرنے میں کامیاب ہو جاتے تو آج یہ سارا سرمایہ پاکستان میں ہوتا اور پاکستان دنیا کے امیر ترین اور خوشحال ترین ممالک کی صف میں شمار ہوتا ۔میاں صاحب نے دوست ممالک سے ڈیڑ ھ ارب ڈالر کی امداد تو لے لی ہے اور مزید پچیس ارب ڈالر امداد ملنے کی امید ہے ،میاں صاحب یہ سب بجا مگر یہ حقیقت ہے کہ امداد سے ملک نہیں چلا کرتے اور آج تک کسی ملک نے غیر ملکی امداد کی بیساکھیوں کا سہارا لے کر ترقی نہیں کی ۔

ملک چلانے اور آگے بڑھنے کے لیئے اپنے وسائل خود ڈھونڈنے پڑتے ہیں اس لیئے میاں صاحب آپ بھٹو کے خواب کو تعبیر دے دیں ،آپ اپنے عرب دوستوں کو اسلامک بنک کے قیام پر راضی کرلیں ،اگر آپ پاکستان میں یہ بنک قائم کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پاکستان کو کسی غیر ملکی امداد اور قرضے کی ضرورت نہیں رہے گی ۔ اور میاں صاحب سعودی شاہی خاندان سے ذاتی تعلقات کی بنا پر آپ یہ کام آسانی سے کرسکتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :