ایک حلقے کاکہنا ہے کہ عورت کو جتنے حقوق ہمارے ملک پاکستان میں حاصل ہیں شاید دنیا کے کسی ملک میں بھی اتنے حقوق عورت کو حاصل نہ ہونگے اس کا ثبوت یہ پیش کیاجاتا ہے کہ پاکستان کی پارلیمانی نظام میں جتنی سیٹیں عورتوں کے لئے مخصوص کی گئی ہیں شاید اس کی مثال پوری دنیا میں چراغ نظیرڈھونڈنے سے بھی نہ مل سکے نیز پاکستان میں خواتین کو کلرک سے لے کر وزیراعظم بننے کے موقع ملتے رہے جبک دوسرے گروپ کاکہنا ہے کہ بلاشبہ آج خواتین ہرشعبے میں کام کررہی ہے مگر اس کے باوجود خواتین کااستحصال کیاجارہاہے لہذا حقوق نسواں کی علم بردار خواتین کوباور کرانے میں مصروف عمل ہے کہ صرف پیسے کمانے سے خودمختاری نہیں مل جاتی بلکہ اُس کو ہرشعبہ میں اپنی فیصلہ سازی کاحصہ دار بننے کی جدوجہد کوجاری رکھنا چاہئے اور کاوش کو جنگ کے نام سے منسوب کرتی ہے۔
(جاری ہے)
سوال یہ ہے کہ اَب ان دومتضاد اہم رائے جو اپنی جگہ بہت اہمیت رکھتی ہیں کس طرح انصاف کیاجائے جبکہ ایک عام تاثریہ ہے کہ غیرملکی ایجنسیاں اپنے مخصوص مفادات یا اسلام دشمنی میں پاکستانی عورت کو محکوم اورمظلوم ثابت کرنے میں تلی رہتی ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ ماضی اورموجودہ حکمرانوں کے غلط طرز حکومت کے سبب بیرونی قوتوں ، اب خارجی امور کے ساتھ داخلی محاذ پر ہدایت دینے کے بعد دینی معاملات میں کھلم کھلا مداخلت شروع کردی ہے مثلا پاکستان میں سزائے موت کاخاتمہ، قادیانی کوغیرمسلم قراردئیے جانے پر اعتراضات وغیرہ۔
ایسے موجود حالات میں خواتین سے درخواست کی جارہی ہے کہ اسلام نظریاتی کونسل سفارشات جس میں لڑکیوں کی شادی کی کم از کم عمر ختم کرنے کے فیصلے اورذیادتی کے کیسوں میںDNAٹیسٹ کوبطور شہادت قبول کرنے سے انکار کے علاوہ اب دوسری شادی کے سلسلے میں شوہر کو اپنی بیوی سے اجازت لینے کے حکم کو غیرضرور ی قراردیتے ہوئے نظریاتی کونسل خواتین سے امید وابستہ کررہی ہے کہ اس مسئلے کو نظرانداز کرتے ہوئے دوسرے مسئلے میں خواتین اپنی علما ء کے ساتھ بھرپورحمایت کریں۔
عرض ہے کہ علماء کی درخواست قابل قبول …مگرخواتین کے استحصال کئے جانے پربھی غورکریں۔ آخرنظریاتی کونسل کو کس چیز کی جلدی ہے۔ غورکریں آئین کے آرٹیکل کے مطابق اسلامی نظریاتی کونسل کو احکام اسلام کی روشنی میں سفارشات مرتب کرنے کااختیار ہے لیکن خاص مسلکی یا گروہی تعبیرات کیلئے راہ نکالنے کی قطعاً گنجائش نہیں۔ مانا کہ حقوق نسواں کے علمبردار اپنے جائز مطالبات منوانے کے چکر میں اتنی جذباتی ہوجاتی ہیں کہ وہ حقوق مانگنے لگتی ہیں جو درحقیقت ان کے لئے کسی طور مستقبل میں بھی سودمند ثابت نہیں ہوسکتے ۔
عورت کو ادراک ہوناچاہئے کہ یہ درست ہے کہ موجودہ حالات میں خواتین کی تعداد مردوں سے زیاد ہ اور ایسی صورت میں خواتین کو گھر میں بٹھا کر ناکارہ بنادینا بھی ملکی معیشت اور ترقی کیلئے نقصان دہ ہوگا مگرخواتین شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے خاندان کی اقتصادی معاونت اور معاشرے میں اپنا مثبت کردار اداکرنے کیلئے نقل و حمل کرے تو یقینا معاشرہ اس کی معاونت نہیں کرے گا۔
ذہن نشین کرلیں کہ خواتین کوجتنے حقوق دین اسلام میں حاصل ہیں اور شرف انسانیت کی بنیاد پر خواتین کے تحفظ کی جتنی ضمانت دین اسلام میں فراہم کی گئی ہے ا س کاکسی دوسرے مذہب اور غیر اسلامی معاشرے میں تصوربھی نہیں کیاجاسکتا۔ یہی سبب ہے کہ ہمارے مذہب میں خواتین کے نمود ونمائش کے انداز میں آزادانہ گھومنے پھرنے اور غیر محرم مردوں کے ساتھ میل ملاپ میں سختی سے معاونت ہے جس میں یہ حکمت کارفرما ہے کہ رشتوں کے احترام ملحوظ خاطررکھ کر اوربے حیائی ، بے رواہ روی سے بچتے ہوئے معاشرے کوغیرمتوازن ہونے سے روکاجاسکے اگرنام نہاد حقوق نسواں کی علمبردارشریعت کے تحت خواتین پر عائید کی جانے والی پابندیوں کے مقاصد کو ادراک نہ کرتے ہوئے اُن کو خواتین کے استحصال سے تشبیہہ دینے سے واویلامچائے تو ایسی صورتحال میں افسوس نہ کیاجائے تو پھر کیا کریں۔