کیا صحافیوں کی تحریروں میں اثر نہیں رہا ؟

جمعرات 20 مارچ 2014

Zubair Ahmad Zaheer

زبیر احمد ظہیر

صحافی مسائل لکھتے جاتے ہیں ،پر مسائل ہیں کہ ختم ہو کر نہیں دیتے ۔یوں عوام اور صحافیوں میں مایوسی پھیل رہی ہے ۔ایسے میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا صحافیوں کی تحریروں میں جان نہیں رہی ۔اس سوال کا جواب دینے کے لیے ہم یہ سطور لکھے رہے ہیں ۔اس تفصیل میں جانے سے قبل مناسب ہے کہ کالم لکھنے کی ایک دوسری اور مضبوط وجہ بھی بتا دی جائے ۔اپنے آبائی علاقے آزادکشمیرمظفرآباد سے شائع ہونے والے اخبار ”محاسب “کے ایک کالم پرنظر پڑئی اور سرخی دیکھ کر نظر ٹک سی گئی۔

کراچی کے ایک اخبار کی ادارتی ذمہ داریوں سے وابستہ رہے ہیں ۔یوں نہ چاہتے ہوئے بھی ادارتی صفحات پر نظر پڑ جاتی ہے ۔ایک کالم پے نظر پڑی ۔ پہلی سطر پڑھتے ہی ا یسے منہمک ہوئے کہ پورا کالم کنگال دیا۔

(جاری ہے)

کالم نویس غلام اکبر تھے ۔کالم محمد شریف (نسیم حجازی) مرحوم کے حالات زندگی پہ تھا ۔نسیم حجازی مرحوم پرکچھ لکھنے کو کافی عرصے سے ارادہ تھا ۔

ان کی سالگرہ پر بھی کئی بار سوچا مگر فرصت ہی نہ ملی ۔آج کچھ غیرت سی آگئی ۔ایک جملہ خاص کر گائل کرگیا، غلام اکبر رقمطراز ہیں کہ ماموں نسیم حجازی کو نانا سے ڈانٹ پڑی،ماموں سے انہوں نے ڈانٹ کے بارے میں استفسار کیا تو ماموں نے بتایا کہ والد گرامی ناول لکھنے پر ڈانٹتے ہیں ”وہ چاہتے تھے کہ پڑھ لکھ کر سرکاری افسر بنوں۔کم از کم تمہارے نانا جان یہی سمجھتے ہیں کہ میں فضول کہانیاں لکھتا ہوں۔

یہ وہ اقتباس ہے جس نے ہمیں فوری طور پرلکھنے پر مجبور کردیا ۔ہماری نسیم حجازی مرحوم سے کوئی ملاقات نہیں ہوسکی ،تاہم انکی تحریروں اور ناولوں سے ہم بخوبی آگاہ ہیں ۔ان کے کئی ناول بھی ہم نے بچپن میں بڑے اہتمام سے پڑھ رکھے ہیں ۔اور کئی بار پڑھتے پڑھتے ایسی رقت طاری ہوئی کہ آنسو بہہ نکلے ۔یہ آج سے بیس ،بائیس سال قبل کی بات ہے ۔تب ہم بھی لکھنے کے فن سے نا واقف تھے۔

اور آج جب ہم ان سطور کو لکھنے بیٹھے ہیں ۔عملی صحافت میں ہماری تجرباتی عمر پندرہ سال سے متجاوز ہے ۔اس عرصے میں ہم نے رپورٹنگ بھی کی ۔اور کراچی کے ایک اخبار میں ادارتی صفحے کے انچارج بھی رہے اور اسسٹنٹ ایڈیٹر بھی رہے ۔ اب نیوز ایڈیٹرکی ذمہ داریاں نبھاتے جارہے ہیں ۔آج جو واقعہ ہم لکھنے جارہے ہیں ۔یہ ہماری رپورٹنگ کا آنکھوں دیکھا احوال ہے ۔

ہم کراچی میں تھے ،آمر مشرف مسند اقتدار پر جلوگر تھے ۔سندھ میں ق لیگ کی حکومت تھی ۔سندھ کے وزیراعلی ارباب غلام رحیم تھے ۔یہ کچھ مذہبی رجحانات کے حامل تھے ۔اور سندھ کی بیورکریسی کی اصلاح کے لیے تبلیغی جماعت سے وابستہ عالمی مبلغ مولانا طارق جمیل کو خطاب کے لیے مدعو کیا کرتے رہتے تھے ، ۔ایک دفعہ ارباب غلام رحیم نے صحافیوں اوراخبار نویسوں کو مولانا طارق جمیل کا خطاب سنانے کا اہتمام کیا ۔

تمام صحافیوں کو دعوت دلائی ،ہمیں دعوت ملی، پارلیمانی رپورٹنگ ان دنوں متبادل رپورٹر کے طور پر ہمارے ذمے تھی ،وقت مقررہ پر ہم وزیراعلی ہاوس پہنچ گئے ،تقریب کا آغاز ہوا۔مولانا طارق جمیل نے صحافت کو اپنا موضوع خطاب بنایا ۔اور ہماری طرح دیگر صحافی بھی حیرت میں ڈوبے رہے ۔انہوں نے اس موضوع پر کھل کر اظہار خیال کیا کہ کون کہتا ہے کہ صحافیوں کی تحریروں میں جان نہیں ؟۔

ہماری طرح صحافیوں کو اکثر یہ گلہ رہتا ہے کہ تحریریں اثر کھو چکی ہیں ۔اس پر مولانا طارق جمیل نے جو انکشاف کیا وہ بڑا ہی حیران کن تھا ۔ان کا وہ انکشاف ہی ہمارے سارے سوالوں اور گلے شکووں کا جواب تھا ۔ مولانا طارق جمیل نے تجسس کو جب ا پنے انکشاف سے ختم کیا تو حیرت کی انتہا نہ رہی ۔مولانا طارق جمیل نے اپنی ذاتی زندگی کے بارے میں بتایا ،کہ ان کا تعلق پنجاب کے جاگیردار خاندان سے ہے ،چنانچہ انہوں نے خاندانی رواج کے مطابق اعلی عصری تعلیم حاصل کررکھی تھی ۔

اوریہ سلسلہ جاری تھا ،مولانا طارق جمیل نے ہمیں مسلسل تجس وحیرت میں ڈالے رکھا ،آگے چل کر انہوں نے انکشاف کیا کہ ان کی زندگی میں اتنی بڑی اور پہلی تبدیلی ایک صحافی کی تحریریں پڑھ کر ہوئی ۔اس انکشاف پر ہمارے سر فخر سے بلند ہوئے ۔اور ہماری توجہ خطاب پر مذید بڑھ گئی ۔اپنے پیشہ وارانہ شعبے پر فخر سا ہونے لگا ۔مولانا طارق جمیل بتاتے جارہے تھے اور ہم تمام صحافی مسلسل سنتے جارہے تھے ۔

وزیراعلی ٰ ہاوس کا وسیع لان صحافیوں سے پر تھا ، مولانا طارق جمیل نے خطاب کے تسلسل میں اس عظیم خوش قسمت صحافی کا نام لیا ۔جسکی تحریروں نے انکی زندگی بدل کر رکھی دی ۔مولانا طارق جمیل نے صحافیوں کو بتایا کہ نسیم حجازی کے ناول پڑھ کر میری زندگی نے پہلی کروٹ لی ،یوں میری زندگی بدل گئی،میرا طرز عمل بدلا، مجھے احساس ہوا ،میں دین داری کی جانب راغب ہوا،پھر مجھے اللہ نے دینی تعلیم باقاعدگی سے سیکھنے کی توفیق دی ۔

اور آج میں آپ سے مخاطب ہوں ۔
مولانا طارق جمیل کیا ہیں ۔یہ اس وقت عالم اسلام کے نامی گرامی مبلغ ہیں ۔اردو ،عربی، انگریزی اورفارسی میں دنیا بھر میں لوگوں کو دین کی دعوت دیتے ہیں ۔مسلمان نماز روزے کے پابند ہوجاتے ہیں۔ اللہ نے انہیں کمال کا فن خطاب دیا ہے ۔ان کی دینی باتیں دل پے اثر کرتی ہیں ،انکے بیانات سے لاکھوں افرادکی زندگیاں قران وسنت کے تابع ہوئیں۔

نیک کام کو اسلامی تعلیمات صدقہ جاریہ شمار کرتی ہیں ۔ہم سمجھتے ہیں کہ مولانا طارق جمیل کی دعوت وتبلیغ نسیم حجازی مرحوم کے لیے صدقہ جاریہ ہے ۔
نائن الیون کے بعد جب امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع ہوئی ۔اس دوران ہمیں مذہبی امور کی رپورٹنگ کرنے کا موقع ملا۔ہم نے اس بیٹ پر خاص مہارت حاصل کی ۔کیونکہ نائن الیون کے بعد مذہبی تعلیمات نے بڑی اہمیت اختیار کیے رکھی،امریکہ اوربرطانیہ میں نائن الیون کے بعد مذہبی امور کی رپورٹنگ کے رجحان میں بڑی تیزی آئی۔

ہم مذہبی امور کی رپورٹنگ کے تجربے کے بعد یہ لکھنے میں حق بجانب ہیں کہ اللہ نے نسیم حجازی کی تحریروں کو بڑا قبول عام دیا، خاص کرمذہبی اور جہادی ناولوں نے عام افراد میں کئی بہادر سپورٹ پیدا کیے ۔نسیم حجازی کے جہادی ناولوں نے تحریک آزادی کشمیر میں افرادی قوت کی دستیابی کے لیے اہم کردار ادا کیا ۔نسیم حجازی کے ناولوں کی خوبی یہ ہے کہ ان میں روایتی گند نہیں ۔

منظر کشی اور بھر پور تجس ہے۔نسیم حجازی نے امت مسلمہ کے دکھ درد میں ڈوب کر جو لکھا ہے ۔وہ پڑھنے والے پربھی اسی طرح اثر انداز ہوتا ہے۔ناولوں نے نئی نسل کا رشتہ عربحجاز سے جوڑا ،اور تاریخی تسلسل فراموش نہیں ہونے دیا۔ہم نسیم حجازی کی تحریروں کو انقلابی تحریروں کا نام دیتے ہیں ۔جس طرح مولانا ظفرعلی خان جیسے قیام پاکستان سے قبل کے صحافیوں کی تحریروں نے انقلاب بپا کیا اور پاکستان معرض وجود میں آیا ۔

ویسا ہی ایک ان دیکھا انقلاب نسیم حجازی کی تحریوں نے بپا کیا۔ دنیا بھر کے اردو حلقہ قارئین میں مذہبی رجحانات پروان چڑھانے میں نسیم حجازی کی تحریوں نے اہم کرداراداکیا ہے ۔نئی نسل اردو سے واقف ہوئی ،نسیم حجازی کے والد گرامی کے دل میں بھی یہی تھا کہ بیٹا فضول کاموں میں اپنی توانائی صرف نہ کرے۔ان دنوں والدین اولاد پر گہری نگاہ رکھاکرتے تھے۔

والد کی ہرڈانٹ نسیم حجازی کی تحریر کو مذید موثر بناتی گئی۔اگر والد کی ڈانٹ ڈپٹ نہ ہوتی تو شاید نسیم حجازی کی تحریر اتنی مقبول وموثر نہ ہوتی ۔نسیم حجازی کے صدقہ جاریہ میں ان کے والد گرامی بھی برابر کے حصہ دار ہیں ۔والد کی ڈانٹ پر نسیم حجازی نے تاریخی سچ کر دکھلایا کہ فضول نہیں لکھا ۔بلکہ ایسا قبول عام پایا۔جو لاکھوں لکھاریوں میں چند ایککو مل پاتا ہے ۔
اس ساری تفصیل سے یہ سوال بھی حل ہوگیا کہ صحافیوں کی تحریوں میں اثر ضرورہوتاہے ۔دل کی بات دل پر اثر کرتی ہے۔ہاں یہ سچ ہے کہ جتنی محنت ہوگی اتنا ہی اثر ہوگا۔بات ساری نیت کی ہے ۔مفہوم حدیث ہے کہ تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پرہے۔اللہ مرحوم نسیم حجازی کی مغفرت وبخشش کرے ۔امین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :