الطاف بھائی کی خواہش

جمعرات 20 مارچ 2014

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

اللہ بخشے نوابزادہ نصراللہ خان کو‘ ان کے متعلق کہاجاتاتھا کہ وہ جمہوریت کے دور میں آمریت کیلئے اوردورآمریت میں جمہوریت کیلئے جدوجہدکرتے ہیں لیکن یہ ماضی کا قصہ ہے فی زمانہ پاکستانی سیاست ایسے بے شمارسیاستدانوں سے بھری ہوئی ہے جن میں یہ خوبی بدرجہ اتم موجود ہے کہ وہ لولی لنگڑی جمہوریت کو پاؤں پاؤں چلتے دیکھ نہیں پاتے اورخواہشمند ہوتے ہیں کہ ”فوراً سے پہلے“ ہی فوج کو دعوت دیکر عنان اقتدار سونپاجائے۔

لیکن جونہی آمر مسلط ہوتاہے تو پھر دال ساگ پورا ہونے پر ان کی خواہش ہوتی ہے کہ اب جمہوریت جمہوریت کا کھیل کھیلا جائے۔ ایسے ہی سیاستدانوں میں ایم کیو ایم والے الطاف بھائی بھی شامل ہیں‘ جب تک پرویز مشرف کاطوطی بولتا رہا تو موصوف فرنٹ سیٹ کے سوارتھے جونہی مشکلات پڑیں اور کچھ پیپلز پارٹی سے ان کا یارانہ ہوا تو انہیں فرنٹ سیٹ چھوڑنا پڑی۔

(جاری ہے)

جونہی مشرف وداع ہوکر دبئی ‘لندن یاترا کو نکلے تو بھائی کے بیانات کارخ بھی بدل گیا اور ان کے ”خطبات “ میں پی پی کارنگ نمایاں ہوگیا پھرپانچ سال روپیٹ کر پورے کرنے کے بعد جب دوبارہ انتخابات میں انہیں کئی مقامات پر تحریک انصاف کے سامنے حزیمت اٹھاناپڑی تو موصوف عمران خان کے پیچھے لٹھ لیکر دوڑ پڑے وہاں سے کام نہ بنا توپھر کبھی مولانافضل الرحمن اور کبھی کسی دوسرے سیاسی رہنما کا پیچھاکرنا شروع کردیا ۔

بات نہ بنی تو اب پھر فوج کو ترغیب دینا شرو ع کردی ہے۔ بھائی نے فوج کو اپنی غیرت بیدار کرنے و بچانے اور ناقابلِ قبول احکامات ماننے سے انکار کرنے کا مشورہ دیدیا ہے۔ایم کیو ایم کے یوم تاسیس پر کارکنوں سے ٹیلی فونک خطاب میں الطاف حسین کا کہنا تھا کہ ہم چند ٹکوں کی خاطر اپنی غیرت بیچ چکے ہیں، فوج کو بغیر سوچے سمجھے دوسرے ممالک میں لڑنے کیلئے بھیج دیا جاتا ہے اسلئے مسلح افواج ایسا کوئی بھی حکم ماننے سے انکار کر دیں۔

ایم کیو ایم کے قائد کا کہنا تھا کہ ان پر مارشل لا پسند ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے کچھ حاصل کرنا ہوتا تو کسی بھی آمر کی حمایت کر کے حاصل کر چکے ہوتے لیکن کرپٹ سسٹم تبدیل کرنے جب بھی کوئی آیا فوج سے ہی آیا۔مظفر گڑھ میں انصاف نہ ملنے کی وجہ سے خودسوزی کرنے والی طالبہ کا ذکر کرتے ہوئے الطاف حسین کا کہنا تھا کہ غیرت کاسودا کرنے والے بیٹیوں کی حفاظت نہیں کر سکتے، ایک ہفتے کا اقتدار مل جائے تو تھانے داروں کو الٹا لٹکا دیں گے،اس موقع پر وہ آبدیدہ ہو گئے۔

الطاف حسین کا کہنا تھا کہ انقلاب راتوں رات نہیں آتے، اصل تحریک ظلم کی چکی میں پسے والے طبقات سے جنم لیتی ہے۔ ایم کیو ایم کی تحریک کا سیلاب بڑھتے بڑھتے اسلام آباد کے ایوانوں تک پہنچ جائے گا
ا نکے الفاظ کی گونج گرج اسلام آباد کے ایوانوں میں بھی پہنچ گئی اور حکومت نے الطاف حسین کے بیان کو غیرسنجیدہ ، سازشی اور خطرناک قراردیکر انہیں اپنے بیانات پر نظرثانی کا مشورہ دیا ہے ۔

وزیراطلاعات پوریز رشید نے ایم کیوایم کے قائد کے بیان پر ردِعمل میں کہا کہ الطاف حسین کو بیانات دیتے ہوئے سوچنا چاہئے ،غیرسنجیدہ بیانات کے غیرسنجیدہ نتائج کا سبب بن سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ الطاف حسین کے بیانات خطرناک رحجان کو فروغ اور افراتفری پھیلا رہے ہیں۔
الطاف بھائی کہتے ہیں کہ اگر انہیں ان باتوں کی و جہ سے غدار کہاجاتا ہے تو میں ہرمقدمہ بھگتنے کو تیار ہیں۔

پتہ نہیں اب غداری کامقدمہ کون درج کراتاہے اور بھائی یہ مقدمہ بھگتنے کیلئے پاکستان آتے بھی ہیں یا نہیں ‘ خیر یہ خیالی پلاؤ پکانے والی بات ہوگئی ورنہ بھولاکہتا ہے کہ ہردوتین ماہ بعد بھائی ایسی کوئی موشگافی چھوڑتے ہیں جس کا ظاہراً کوئی منہ سر نہیں ہوتا یعنی غریب کی اس چادر کی طرح ہوگئی کہ سرڈھانپو تو پاؤں ننگے اورپاؤں ڈھانپو تو سر ننگا۔

لگتاہے کہ سند ھ کی سیاسی چادر بھی الطاف بھائی پر کم پڑرہی ہے اس لئے تو کبھی سیاست بچانے کیلئے سر کی فکرکرتے ہیں اورپھر جب پاؤں پرسیاسی ٹھنڈ اثر پذیرہوتو پھر سر ننگا کرکے پاؤں ڈھانپ لیتے ہیں
صاحبو!بات چلی تھی بابائے سیاست نوابزادہ نصراللہ خان سے اور آن پہنچی الطاف بھائی تک‘ گوکہ دونوں میں کوئی ایک قدر بھی مشترک نہیں ہے اس کے باوجود بعض لوگوں کا خیال ہے کہ دونوں میں ایک قدر بہرحال مشتر ک ہے کہ دونوں جب چاہیں یا چاہتے کوئی بھی ان کی قربت میں آجاتا ۔

عرف عام میں یوں کہاجاسکتا ہے کہ نوابزادہ نصراللہ خان کسی دور میں بینظیربھٹو کے سخت مخالفت تھے اور پھر جب” جمہوریت بچانے کیلئے“ اتحاد قائم ہوا تو یہی نوابزادہ صاحب بینظیر بھٹو کی بدولت اسی اتحاد کے فرنٹ فٹ پر کھیلنے والے کھلاڑی تھے ۔خیردونوں مرحومین کیلئے اب دعا کی جاسکتی ہے ۔ بہرحال بعض سیاسی ماہرین کاخیال ہے کہ بھائی اب نوابزادہ صاحب کے مشن پر کسی نہ کسی طرح سے کاربند ہیں۔


ہم اکثر عرض کیاکرتے ہیں‘کہ پاکستانی سیاست اور سیاستدانوں کاعجیب مزاج ہے جمہوریت کی ٹھنڈی ہوااگر مسلسل پانچ سال تک چلتی رہے تو بیچارے بے چین ہوجاتے ہیں اوران کی خواہش ہوتی ہے کہ اب آمریت کی لو سے فائدہ اٹھایاجائے یایوں کہئے کہ ٹھنڈے ٹھار خون کو گرمایاجائے جب آمریت کی لُو جسم کوشدید حد تک گرمادیتی ہے تو پھر یہ صاحبان جمہوریت جمہوریت کی راگنی گانے لگتے ہیں ۔

ستم ظریف ایسے جلد باز واقع ہوئے ہیں کہ کسی ایک نظام کو ٹکنے تک نہیں دیتے اور چاہتے ہیں کہ ان کے چاہنے یا خواہش پر نظام فوراً تبدیل ہوجائے۔ حالانکہ بعض ناقدین کاخیال ہے کہ پاکستان میں سرے سے جمہوریت آئی ہی نہیں ہے‘ پتہ نہیں یاران وطن جس کو جمہوریت سمجھتے ہیں وہ بی آمریت کی چھوٹی بہن ہی ہے اس کے سوا کچھ نہیں۔ لیکن جمہوریت کی تسبیح پھیرنے والوں کاخیال یہ بڑی بہن یعنی آمریت نے بیچاری چھوٹی بہن یعنی جمہوریت کے حق پر ہمیشہ ڈاکہ ڈالا ہے اور اس ہرپانچ سات سال کے بعد آکر اس کا ہنستا بستا گھر تباہ کرکے خود ”گھس بیٹھیا‘ ‘ بن کر اس کے آنگن میں راج کرتی ہے اورپھرسبھی کچھ تباہ کرنے کے بعد دامن جھٹک اور یہ کہہ کر چل نکلتی ہے کہ ” میں اپنی بہن جمہوریت کا حلوہ کھانے آئی تھی‘ کھالیا اب چل پڑی ہوں“ شاید الطاف بھائی بھی دونوں بہنوں میں سے کسی ایک کو ناراض کرنا نہیں چاہتے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :