مذاکرات میں فوج کا کردار

جمعرات 20 مارچ 2014

Usama Khamis Minhas

اُسامہ خامس منہاس

کچھ روز قبل میں نے سوشل میڈیا کی ایک ویب سائٹ پر ایک پوسٹ لکھی جو یہ تھی ”یہ غلط ہے کہ پاک فوج کو طالبان (دہشت گردوں )سے مذاکرات میں شامل کریں،اگر طالبان پاک آرمی کی موجودگی میں مذاکرات کے لیے تیار ہو جاتے ہیں تو پھر وُہ کہاں کھڑے ہونگے ،یعنی وُہ جو پاک فوج کو گندہ ادارہ قرار دیتے ہیں اور جن کے سر تا پاوں تک خلاف ہیں وُہ کیسے اُن کے ساتھ مذاکرات کے لیے بیٹھیں گے اور اِس کے بعد ہماری آرمی کی کیا عزت باقی رہے گی“۔

پھر دوپہر کو ایک ٹی وی چینل پریہ خبر نے مجھے مسرت فراہم کی کہ فوج کی کورکمانڈر کانفرنس ہوئی جس میں فوج نے خود کو مذاکراتی عمل سے دور رکھنے کا عندیہ دیا ۔لکھتے ہوئے الفاظ کی اونچھ نیچ ہوجاتی ہے تو برائے کرم معذرت ہے ہر انسان سے غلطی ہو جاتی ہے۔

(جاری ہے)

حیرت ہوئی مجھے کہ جب اِس بات کا علم میری سماعت سے گزرا کہ طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل میں اب حکومت کی جانب سے فوج بھی شامل ہو گی ۔

ایک سیاسی بیٹھک میں یہ سوال میں نے اُٹھایا تو جواب بھی یہی ملاجو میں سوچ رہا تھا۔ذہن کیسے قبول کرے گا کہ چندمٹھی بھر ،آئین کے منافیوں کے ساتھ ہماری فوج مذاکراتی ٹیبل پر بیٹھے ۔حالانکہ یہ طالبان وُہ ہیں جو پاک فوج کے سب سے بڑے دُشمن ہیں کہ جن کو فوج ایک آنکھ نہیں بھاتی ۔جب حکومت نے آپریشن کی جھلک عوام کو دیکھائی تو عوام ِالناس نے اِسے خوش آئند قرار دیا کہ حکومت نے اب درست راستے کا چناو کیاہے مگر پھر مذاکرات کے عمل نے عوا م کوتذبذب میں ڈال دیا ۔

یہ گنتی کے طالبان جو ملک عظیم کا سب سے بڑا درد سر بنے ہوئے ہیں سوالیہ نشان ہیں ایوان بالا میں بیٹھے سیاست دانوں کے لیے جو پاکستان کی کریم ہیں ۔ہمارے اردگرد جو صاحبان زیادہ سمجھ دار ہوں ہم اُنھیں کہتے ہیں کہ فلاں بڑا سیاست دان بندہ ہے مطلب یہ کہ وُہ بڑا زیرک ودوراندیش ہے تو پھر جو سیاست دان و سینیرسیاست دان اور حکومت کے مشیر ہیں وُہ کیوں اپنی سمجھ کے ساتھ ملک کو اِس عفریت سے نجات نہیں دلواتے ؟کیوں اُن کو فوج کی ضرورت محسوس ہوئی؟فوج کا روڈ میپ کلیئر ہے کہ اُن کا کام سرحدوں کی نگہبانی کرنا ہے اور گولی کے ذریعے دُشمنوں کو راہ راست پہ لانا یا ختم کرناہے ۔

اِسی طرح اہل سیاست کا کام مشاورت سے مذاکراتی ٹیبل پر اپنے مطالبات منظور کروانا ہے ،تو پھر اہل سیاست کو ٹیبل ٹاک پہ بھروسہ کیوں نہیں ۔خدانخواستہ اگر مذاکرات ناکام ہو گے اور اگر کوئی آپشن نہ رہی تو آپریشن کرنے میں کیا حرج ہے آخر ریاستوں کی راہ میں رُکاوٹیں نہیں آتی ؟جسم کا کوئی حصہ مفلوج ہو جائے تو ڈاکٹر اُسے کاٹنے کا بھی کہتے ہیں یا اُس کا علاج بھی ہوتا ہے لہذا ممانعت تو کوئی نہیں ہے ۔

ہاں اگر کچھ غلط ہے تو وُہ دوسروں پہ انحصار کر کے اپنا وقار مسنح کرنا ہے یعنی حکومت مذاکرات کرے جی جان سے کرے اگر کامیاب ہوتے ہیں تو پھر بھی قوم کو منظورہوگا، نہیں ہوتے تو فوج کے حوالے کیا جائے انشاء اللہ کامیابی ہوگی اور پاک فوج کے پیچھے پوری قوم کھڑی ہوگی جو دُنیا کے لیے ایک سبق اور مثال بھی ہوگی۔مگر موجودہ صورتحال حکومت کی غیر سنجیدگی کا عندیہ دیتی نظر آرہی ہے،کئی سالو ں سے قوم بارود کی غذا کا استعمال کرتی چلی آرہی ہے مگر اب تک کوئی حکومت اِس سے مستقل جان نہ چھڑوا پائی۔

سیاست دانوں کو تھوڑی سی سمجھ سے کام لینا چاہیے کہ فوج ہمارا انتہائی حالت پر استعمال کیا جانے والا ادارہ ہے جسکا کام گولی سے میدان فتح کرنا ہے۔وزیر اعظم صاحب کی منتق بھی عجیب ہے پھر اُن وزراء کی بھی جو انتہائی گومگو کی حالت میں گرفتار ہیں۔اسلام آباد کچہری کا واقعہ ہی لے لیں تو میڈیا کی پہلے روز کی خبریں جو موقع پر دیکھائی گی اور بعد میں چوہدری نثار صاحب کا بیان سن لیں تو انتہائی بچکانہ سیاست عیاں ہوتی ہے اُن کی ایوان میں کھڑے ہو کر اسلام آباد واقعے کے متعلق سٹیٹمنٹ انتہائی غیر ذمہ دار ثابت ہوئی جب رفاقت اعوا ن صاحب کے گارڈ نے گولی اُس کے پستول سے جج صاحب کو لگنے پر انکار کر دیا،اور پھر کورٹ کے ریڈر نے بھی کہا کہ وُہ دہشت گرد کی گولی کا نشانہ بنے۔

شاید اِس سب کا مقصد یہ ہے کہ قوم اور میڈیا اندھا ہے۔اِس وقت قوم کی آنکھوں میں شدید غصہ ہے مگر حکومت کو انھیں آنکھوں میں خون اُترنے سے پہلے اِس معرکے کو سر کرنا ہوگا۔اُن افراد کے لیے دقعت تو ہے ہی جن کی وفا داریاں غیر ملکی آقاوں کے ساتھ وابسطہ ہیں اور اُن کے لیے بھی جوغیر ملکیوں کے ہاتھوں بیعت ہیں۔شاعر نے کیا خوب کہا ہے ”پانی پانی کر گئی مجھے قلندر کی یہ بات ،،،تو جھکا غیر کے آگے نہ تن تیرا نہ من ۔

“ان کو اپنی وفاداریاں ہر صورت میں ملکی مفاد سے کم رکھنی چاہئیں کیونکہ یہ خطہ نہیں تو ہمارا وجود بھی نہیں۔اور ایسے حکمرانوں کو ہوش سے کام لینا چاہئے کہ دیکھئے آج سے ایک عرصہ قبل ہم انگریز کے چنگل سے ہم آزاد ہوئے تھے جس نے کئی برسوں مسلمان قوم کو مقید کیے رکھا اور اِسی قید سے رہائی کے لیے مسلمانو ں نے کئی قربانیاں دی اور اگر آج کے حالات پر غور کریں تو ہم پھر 90فیصد انگریز کے غلام ہو چکے ہیں ۔

یہ حضرات غور کریں تو خدا کو جان واپس کرنی ہیں اگر بے وفائی ،قتل وغارت ،بغض ،حق کی تلفی ہی اعمال کی لسٹ ہونگی تو ذلالت ہی مقدر ٹھہرے گی ۔جب ہم کوئی غلطی کرتے ہیں پھر اُسے چھپا نے کے لیے ایک جھوٹ بولتے ہیں پھر اُس جھوٹ کو چھپانے کے لیے دوسرا جھوٹ بولتے ہیں اور پھر تیسراگویا یہ جھوٹ مرتے دم تک بولنا پڑتا ہے تو ضرورت ہی کیا ہے کہ ہم خود کو گناہ گار کریں۔

ہمیں اپنے گناہوں کی معافی مانگنی چاہیے اور دوسروں کی فکر کرنی چاہیے دیکھئے گا جب عوام خوش ہو گی تو آپ کو بھی لازمی مسرت نصیب ہوگی ،اسی لیے عوامی مفاد اول ہے ۔یہاں تھرپارکر کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ افسوس یہ ہے کہ ہمار ازرعی ملک ہوتے ہوئے بھی وہاں خوراک فراہم نہیں کر سکتے ،ہماری زندگی تو عیش و عشرت کا نمونہ ٹھہری اور وُہ صومالیہ طرز کے غذائی مریض ٹھہرے یہ کہاں کا انصاف ہے۔

گھر میں بھوک کا عالم ہے اورہم کہیں ریکارڈز بنوا کر اور کہیں فیسٹیولزکروا کر خود کو ترقی یافتہ و باتہذیب ریاست تصور کروانے کے در پہ ہیں یاد رکھیئے کہ ”مفلسی حس لطافت کو مٹا دیتی ہے ،،،بھوک اخلاق کے سانچوں میں نہیں ڈھل سکتی“۔یہ سوالیہ نشان نہ صرف حکومت سندھ بلکہ پورے پاکستان کی حکومت پہ ہے ۔ملک کے ہر صوبے میں ایک ایک تھر قائم ہے ہر صوبے میں عوام تھر جیسی کیفیت سے دوچار ہے ۔کیوں ہم ماسک پہننا نہیں چھوڑتے ہم امارات کے خیالوں سے باہر نکلیں تو ہمیں پاکستان کا غریب ہاری نظر آئے نہ ۔یہاں ایک شعر عرض کرتا ہوں”عجب رسم ہے چارہ گروں کی ،،،لگا کرزخم نمک سے مساج کرتے ہیں،،،غریب ِشہر روٹی کو ترستا ہے ،،،امیر شہر کے کتے بھی راج کرتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :