ڈاکٹر وں کے کرتوت

جمعرات 20 مارچ 2014

Manzoor Qadir Kalru

منظور قادر کالرو

اخباری خبر کے مطابق دودھ کی مقدار بڑھانے کے لئے گائے بھینسوں کو لگایا جانے والا انجکشن حاملہ خواتین کی ڈلیوری کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ایسے انجکشن کا تو دودھ کی مقدار بڑھانے کے لئے استعمال ا بھی نہایت خطرناک ہے لیکن یہ براہِ راست خواتین کو لگائے جاتے ہیں۔ ایسے انجکشن ہارمونز کو متاثر کرتے ہیں جس کے نتیجے میں خون میں موجود مائع مرکبات دودھ میں شامل ہو جاتے ہیں یوں دودھ کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔

جو بھی ایسا دودھ استعمال کرتا ہے ان مرکبات کی کچھ نہ کچھ مقدار اس کے جسم میں بھی داخل ہو جاتی ہے اور اس کے مارمونز کو متاثر کرتی ہے۔بیرونی دنیا کاتو مجھے علم نہیں پاکستان میں ڈاکٹر بننا زیادہ مشکل نہیں۔ایم ایم بی بی ایس ڈاکٹرو ں کو میری یہ بات ناگوار گزری ہو گی کہ ہمارے ایم بی بی ایس کرتے کرتے بال سفید ہو جاتے ہیں اور آپ کتنی آسانی سے کہہ رہے ہیں کہ پاکستان میں ڈاکٹر بننا مشکل نہیں۔

(جاری ہے)

میں یہ بات اس بنا پر کہہ رہا ہوں کہ پاکستان میں ڈاکٹر بننے کے لئے سرے سے کسی ڈگری کی ضرورت ہی نہیں ہوتی اور یہ بغیر ڈگری ہولڈر ڈاکٹر ایم بی بی ایس ڈاکٹروں سے بھی بڑے ڈاکٹر ہوتے ہیں ۔نئے نئے ایم بی بی ایس کرنے والے ڈاکٹر تو ان کے مریض دیکھ دیکھ کردعائیں کرتے ہیں کہ اے اللہ ہمیں بھی اتنے مریض عطا فرما۔یہ ایم بی بی ایس ڈاکٹر یوں اُگ رہے ہیں جیسے برسات میں مشروم اُگتی ہیں۔

یہ ڈاکٹر کسی میڈیکل کالج کے فارغ اتحصیل نہیں ہوتے بلکہ سن سنا کر ڈاکٹر بنے ہوئے ہوتے ہیں۔کسی نے کسی سنیاسی بابا کی خدمت کی ہوتی ہے تو کسی نے کسی حکیم صاحب کے پاؤں دابے ہوتے ہیں اور وہ خوش ہو کر دو چار نسخے عنایت کر دیتے ہیں، کہ جا بچہ کیا یاد کرے گا۔ اگر ان نسخوں سے کوئی اڑوس پڑوس کا شخص ٹھیک ہوجائے تو ایسے ٹرینی ڈاکٹر مکمل ڈاکٹر بن جاتے ہیں اور اپنا کلینک کھول لیتے ہیں۔

کلینک کھولنے کے بعددے دلا کر سند بھی لے لیتے ہیں اور پھر وہ اس سند کو فریم کر کے کلینک میں اونچی جگہ اویزاں کردیتے ہیں کہ کوئی ایرا غیرا منہ ماری نہ کر سکے۔ بعض نے تو گولڈ میڈلسٹ نہ صرف لکھا ہوتا ہے بلکہ گولڈ میڈل کو بھی فریم کرایا ہوتا ہے۔کوئی اس حقیقت سے واقف نہیں ہوتا کہ یہ گولڈ میڈل بھی اپنے ہی سنیارے سے بنوایا ہوتا ہے۔جن مریضوں نے ایسے ڈاکٹروں سے دوائی اُدھار لے جانی ہے اُن کو کیا پڑی ہے کہ وہ گولڈ میڈل کی حقیقت کو جانتے پھریں۔

انہوں نے تو یہی کہنا ہے کہ ڈاکٹر بہت سیانا ہے،بڑے خیال سے دیکھتا ہے۔وہ اتنے میں ہی خوش ہو جاتے ہیں کہ ڈاکٹر نے پہلے میرے دائیں ہاتھ کی نبض دیکھی ہے پھر بائیں ہاتھ کی اور پھر ایک مشین کو اپنے کانوں سے لگایا ہے اور دوسری سے میرا سارا جسم ٹٹولا ہے۔ان ڈاکٹروں کو پاکستان میں کوئی پوچھنے والا تو ہے نہیں اور جو ایک آدھ ہے وہ عطائی ڈاکٹروں کی نوازشات سے اتنا ممنون ہوتا ہے کہ فون پران ڈاکٹروں سے صرف بچوں کی خیر خیریت ہی دریافت کرتا ہے۔

یہ ڈاکٹر بھی ان کے بچوں کی طرف سے غافل نہیں ہوتے۔ اس لئے یہ ڈاکٹر چاہے جانوروں والے ٹیکے لگاتے پھریں یا مرغوں والے ان کو کوئی نہیں پوچھتا ۔جو بھی دوائی ان کے پاس میسر ہو وہ بے باک دے دیتے ہیں چاہے وہ اُس مرض کی ہو یا نہ ہو۔ اگر زکام کی دوائی ان کے سٹاک میں موجود ہے تو وہ مریض کو گھٹنوں کے درد کے لئے بھی پرُاعتماد ہو کر دے دیتے ہیں۔جب ان ڈاکٹر وں کے جراثیم اور جراثیمنیاں، عام ٹیکوں سے قابو میں نہ آئیں تو غصے میںآ کرمختلف مرضوں کے مریضوں کو جانوروں والے ٹیکے بھی لگادیتے ہیں کہ اب دیکھتے ہیں بھلا جراثیم کیسے زندہ رہتے ہیں۔

دراصل ایسے ڈاکٹروں کے زیرِ علاج توہوتے ہی سخت جان مریض ہیں۔ چھوٹی موٹی دوائی تو ان پر اثر ہی نہیں کرتی بلکہ چار پانچ گرام کی گولی کھانا تو وہ ویسے ہی وہ اپنے شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ایسے ڈاکٹر اس حقیقت سے خوب واقف ہوتے ہیں اور ان کے جراثیموں کے جثے کے برابر ٹیبلٹس بھی دیتے ہیں، جو کھا لینے سے شام تک بھوک ہی نہیں لگتی۔ جب مرض قابو میں نہیں آتا تو ڈاکٹر صاحب سٹیرائڈ پیس کر پڑیاں باندھ لیتے ہیں اوردوا کے ساتھ اپنے ذاتی تیار کردہ ایک آدھ سیرپ بھی دے دیتے ہیں اور دعا دیتے ہیں کہ جا بچہ خیراں ہو جائیں گی۔

یہ ڈاکٹر خود ہی کیمسٹ اور خود ہی ڈرگسٹ بھی ہوتے ہیں۔ دوائیاں بھی خود ہی تیار کرتے ہیں اور ان کی تیار کردہ دوائیاں مریض لیتے بھی رغبت سے ہیں کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ یہ میں نے خود خالص جڑی بوٹیوں سے تیار کی ہیں۔ان کا اگر فائدہ نہیں ہوگا تو نقصان بھی نہیں ہوگا۔انگریزی ڈاکٹروں کی دوائیاں تو گردے فیل کر دیتی ہیں اس لئے مت لینا وہ دوائیاں۔

ایک مرض کو فائدہ دیں گی تو دس مرضیں پیدا کر دیں گی۔مریض انگریزی دوائیاں لینے سے اتنا خوفزدہ ہو جاتا ہے کہ وہ ڈسپرین اور اسپرین کی گولی بھی گردے فیل ہونے کے خوف سے نہیں لیتا۔ مریض عطائی ڈاکٹروں کی دوائی اس لئے رغبت سے لیتا ہے کہ عطائی ڈاکڑوں نے اس کا ذہن بنانے کے لئے بڑی کاوش کی ہوتی ہے۔ عام طور پر عطائی ڈاکٹر دور دراز کے دیہات میں اپنے کلینک بناتے ہیں۔

دیہات میں ابھی تک بارٹر سسٹم چلتا ہے۔ یہ ڈاکٹر بھی فصل پکنے پر دوائیوں کے پیسے لیتے ہیں۔گندم کی فصل پکے تو گندم معاوضے میں لے لیتے ہیں، دھان کی فصل پکے تو دھان لے لیتے ہیں،مکئی پکے تو مکئی لے لیتے ہیں اور اگر گُڑ شکر کا سیزن ہو تو گُڑ شکر لے لیتے ہیں۔اس کے علاوہ مرغیاں مرغیوں کے انڈے ، دیسی گھی، بھیڑیں بکریاں بھی بھی معاوضے کے طور پر لے لیتے ہیں ۔

یہ ڈاکٹر عام طور پر نویں دسویں سے دوڑے ہوئے ماں بات کے لاڈلے بیٹے ہوتے ہیں یا روزگار کی تگ و دو سے تھک ہار کر اپنا کلینک کھول لیتے ہیں۔کلینک کھولنے کے بعد اڑوس پڑوس کے دیہات کے اپنے جیسے ڈاکٹروں سے تعلقات پیدا کر لیتے ہیں اور ان سے ساتھ ساتھ ڈاکٹر ی بھی سیکھتے رہتے ہیں۔ اسی فیصد ڈاکٹر کلینک کھولنے کے بعد ڈاکٹری سیکھتے ہیں۔ چونکہ ان ڈاکٹروں کی علیحدہ سے کوئی فیس نہیں ہوتی ،دوائیوں ہی میں فیس بھی شامل ہوتی ہے، اس لئے غریب مریض انہیں ترجیع دیتے ہیں۔

بعض ڈاکٹر دیسی پھکیوں کو خالی کیپسولوں میں بھر کر انگریزی دوائی بنا لیتے ہیں اور ان پڑھ مریضوں کو رعب سے کہتے ہیں یہ کیپسول میں نے ڈائریکٹ انگلینڈ سے منگوائے ہیں۔خالی ڈبیوں پر انگریزی سے لکھے ہوئے سٹکر لگا لیتے ہیں کہ یہ دیکھو انگریزی کی مہریں بھی ابھی تک میلی نہیں ہوئی ہیں۔ میں تو اپنے الگ کنٹینر(Container (منگواتا ہوں کبھی کسی سے مل کر مال نہیں منگوایا وہ بے چارے کیا جانے کہ کیا ہوتا ہے کنٹینر جو پانچ چھ ڈبوں کے لئے ڈاکٹر صاحب بک کرواتے ہیں۔

وہ تواتنے میں ہی خوش ہو جاتے ہیں کہ بحری جہازوں سے یہ دوائیاں ولایت سے آئی ہیں۔ یہ ڈاکٹر بہت سے مرضوں کے اکیلے ہی سپیشلسٹ ہوتے ہیں ، چاہے مرض آنکھ کا ہو یا کان کا،ناک کا ہو یا گلے کا ، دل کا ہو یا جگر کا، مثانے کا ہو یا گردوں کا،پھیپھڑوں کا ہو یا پتے کا۔یہ ڈاکٹر سرجن بھی ہوتے ہیں۔آجکل توچھوٹے بچوں کے ختنوں کا شعبہ بھی انہیں کے پاس ہے اور اس غاصبیت پر نائی خاصے مشتعل نظر آتے ہیں کہ کم از کم ہماری روزی پر تو لات نہ مارو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :