پاسپورٹ سسٹم !

منگل 18 مارچ 2014

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

پہلی جنگ عظیم نے دنیا کو دو تحفے دیئے ۔ایک ،ایک کروڑ افراد کی نعشیں دو ،ملکوں کے درمیان حد بندی اور پاسپورٹ سسٹم ۔پہلی جنگ عظیم سے پہلے دنیا کے کسی بھی ملک کا کو ئی شہری معمولی دستاویز کی بنیاد پر پو ری دنیا گھو م سکتا تھا لیکن اس جنگ نے دنیا کے تین ارب افراد سے یہ آزادی چھین کر ان کے پاوٴ ں میں حد بندی اور پاسپورٹ کی بیڑیاں ڈال دیں ۔

انسانی تاریخ میں پاسپورٹ کا آغاز 450ق م سے ہوا تھا ۔سلطنت فارس کے ایک درباری نے اپنے باشاہ سے ایسا پروانہ جاری کر نے کی فرمائش کی جس کی بنیاد پر وہ سلطنت فارس کے کسی بھی حصے میں گھوم سکے ۔بادشا ہ نے اسے ایک لیٹر جا ری کر دیا اور یہ پاسپورٹ کی ابتدائی شکل تھی ۔اس کے بعد اسلامی عہد میں بھی لو گو ں کو ایک ایسا ہی لیٹر جاری کیا جاتا تھا جس کی بنیاد پر وہ خلافت کے کسی بھی خطے میں آزادانہ گھوم پھر سکتے تھے ۔

(جاری ہے)

اس لیٹر کے اجراء کے لیئے کچھ شرائط تھیں اور یہ صر ف ان شہریوں کو جا ری کیا جاتا تھا جو ریاست کے وفادار شہری اور بروقت ٹیکس ادا کرتے تھے ۔قرون وسطیٰ تک سمندری سفر کے لیئے کسی قسم کے اجازت نامے کی ضرورت نہیں تھی لیکن جیسے ہی کو ئی شہری کسی ملک کی خشکی کی حدود پر قدم رکھتا تھا اس سے اس پروانہء سفر کا مطالبہ کر دیا جا تا تھا ۔پاسپورٹ کو باقاعدہ قانونی دستاویز بنانے کا سہرا انگلینڈ کے باشاہ ہنری پنجم کو جا تا ہے ۔

ہنری نے پارلیمنٹ کا اجلاس بلا یا اور اس کے سامنے یہ قانو ن پیش کیا کہ پاسپورٹ کسی بھی شہری کو جا ری کیا جا ئے گا خواہ وہ برطانیہ کا رہائشی ہو یا نہ ۔اس کا کہنا تھا کہ انارکی پھیلانے والے عناصر کسی خاص قوم اور ملک سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ وہ کہیں سے بھی آ سکتے ہیں ۔اس سفری لیٹر کو سب سے پہلے پاسپورٹ کا نام فرانس کے بادشاہ کنگ لو ئی۱۴ نے دیا اور پاسپورٹ کی موجو دہ شکل پہلی جنگ عظیم کے بعد سامنے آئی ۔

پہلی جنگ عظیم سے پہلے یو رپین اقوام پو رے یو رپ میں آزادانہ گھوم پھر سکتے تھے لیکن اس جنگ میں کئی یو رپی ممالک جب میدان جنگ میں آمنے سامنے ہوئے تو دوریاں بڑھ گئیں ۔ مختلف ممالک کے درمیان حد بندی قائم ہو ئی اور اس جنگ کی کوکھ سے پاسپورٹ سسٹم نے جنم لیا اور1920میں لیگ آف نیشن نے اسے ضروری قرار دے دیا۔اس دور میں جو پاسپورٹ بنتا تھا اس پر تصویر نہیں ہو تی تھی بلکہ اس پر چہرے کی خصوصیات مثلا چہرے کی ساخت ،آنکھوں کا رنگ ۔

ناک کا سائز ،بالوں کا کلراور دیگر نشانیاں لکھی جاتی تھیں ۔قرون وسطیٰ سے بیسویں صدی اور بیسویں صدی سے 1980تک ہر ملک اپنے طور پر آزادانہ پاسپورٹ بنانے کا مجاز تھا لیکن1980کے بعد انٹرنیشنل سول ایوی ایشن اتھارٹی نے اس کا کنٹرول اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور اس کے اجراء کے لیئے اپنے قواعدو ضوابط اور شرائط جاری کیں اور اب پاسپورٹ اسی ایجنسی کی ہدایات کی روشنی میں بنتا ہے ۔


اب آپ پاکستان کے پاسپورٹ سسٹم کی طرف آئیں ۔پاکستان میں ہر سال لاکھوں لوگ پاسپورٹ بنواتے ہیں ،دنیا میں سب سے ذیادہ حج اور عمرہ کرنے والے افراد پاکستانی ہیں اور حج و عمرہ کے لیئے پاسپورٹ ضروری ہے ،ہر تیسرا پاکستانی بیرون ملک جانے کا خواہشمند ہے اور یہی خواہش اسے پاسپورٹ آفس کے باہر لائن میں لگنے پر مجبور کر دیتی ہے ۔آپ پاکستانی قو م کی مستقل مزاجی ملا حظہ کریں ،پاسپورٹ دفاتر کی تعداد کم ہے اور امیدوار ذیادہ ،ا ب ہو تا کیا ہے اگر آپ پاسپورٹ بنوانا چاہتے ہیں تو آ پ رات سے ہی تیاری شروع کر دیں اور فجر کی نماز پاسپورٹ آفس کے باہر لگی قطار میں ادا کریں ۔

آپ شاید یقین نہ کریں لیکن یہ حقیقت ہے کہ لو گ قطار میں لگنے کے لیئے فجر کی نماز پاسپورٹ کے آفس جا کر پڑھتے ہیں اور سورج طلوع ہو نے سے پہلے ڈھائی تین سو افراد کی لا ئن لگ چکی ہو تی ہے ۔یہ ساری صورتحال ایجنٹو ں کے لیئے بہت فا ئدہ مند ہے ۔اگر آپ لیٹ ہو گئے ہیں اور آپ کو ٹوکن نہیں مل رہا تو آپ کسی بھی ایجنٹ کو ہزار روپیہ تھما دیں آپ کو لائن میں نہیں لگنا پڑے گا اور آپ ٹوکن لے کر سیدھا اندر چلے جائیں گے ۔

اب ایجنٹوں نے ایک نیا طریقہ ایجاد کیا ہے ،یہ ایجنٹ صبح فجر کی اذان کے وقت آفس کے باہر چلے جاتے ہیں اور جہاں قطار لگنی ہے وہاں پہلے آٹھ دس بندوں کی جگہ اینٹیں رکھ دیتے ہیں اور آنے والوں کو حکم دیاجاتا ہے کہ ان اینٹوں کے بعد قطار بنائیں پھر جیسے جیسے بعد میں لو گ آتے جائیں گے یہ ایجنٹ پانچ سو کے عوض انہیں اینٹوں والی جگہ پر کھڑا کر دیں گے اور یوں آٹھ نو بجے تک یہ ایجنٹ پانچ دس ہزار کی دیہاڑی لگا کر اپنے گھروں کو جا چکے ہوں گے ۔


ایک طرف عوام پاسپورٹ بنوانے کے لئے فجر کی نماز پاسپورٹ آفس کے باہر قطاروں میں کھڑے ہر کر پڑھتے ہیں اور دوسری طرف ہمارا حکمران طبقہ اپنے خاندان ،رشتہ داروں اور دوستوں کے لیئے بلیو پاسپورٹ کے حصول میں مصروف ہے ۔دنیا کے ستر سے زائد ممالک کے ساتھ ہمارا معاہدہ ہے کہ جن پاکستانیوں کے پاس سفارتی یا بلیو پاسپورٹ ہو ں گے ان سے پوچھ گچھ نہیں کی جائے گی ا ور انہیں ایئر پورٹ سے ہی ویزا مل جائے گا ۔

اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ اگرکو ئی پارلیمانی وفد باہر جائے یاسرکاری افسران کام کے لیئے باہر جائیں تو ا نہیں کسی پریشانی کا سامنا نہ کر نا پڑے لیکن پی پی دور میں پہلے ایم این ایز ،ایم پی ایز اورسینیٹرز نے یہ پروانہ حاصل کیا پھر سابق ممبران کو بھی اس کارخیر میں شامل کر لیا۔گزشتہ د ور میں نہ صرف سیاست دانوں بلکہ ان کے بیوی بچوں اور دو ہزار کاروباری شخصیات تک کو بلیو پاسپورٹ جاری کیئے گئے اور اب یہ تمام مداری انٹر نیشنل ایئر پورٹس پر پاکستانی ہو نے کا ڈرامہ رچا کر پروٹوکول حاصل کر نے کی کو شش کرتے ہیں ۔

اس نیک کام کی ابتدا ہمارے انتہائی” رحم دل“ وزیر داخلہ آفتاب شیر پا وٴ نے کی تھی اور ان کے بعد ان کے ”خلیفہ“جناب رحمان ملک ان سے بھی دو ہاتھ آگے نکلے اور اس کے بعد تو چل سو چل ۔دوسری طرف پاکستان دنیا کے ان دس ممالک کی فہرست میں شامل ہے جن کے شہریوں کو انٹر نیشنل ایئر پورٹس پر سب سے ذیادہ پو چھ گچھ کاسامنا کر نا پڑتا ہے اور ان کو پانچ پانچ گھنٹے ایئر پورٹس میں محبوس رکھا جاتا ہے ۔

صرف ترکی اور سری لنکا دو ایسے ملک ہیں جہاں کے ایئر پورٹس پر پاکستانیوں سے قدرے بہتر سلوک کیاجا تا ہے ۔پاکستان کے علا وہ جن ممالک کے شہریوں کو انٹر نیشنل ایئر پورٹس پر نفرت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان میں افغانستان ،عراق ،صومالیہ ،فلسطین ،اریٹیریا ،سوڈان ،لبنان اور سری لنکا شامل ہیں۔برطانیہ ،فن لینڈ اور سویڈن کے شہریوں کو دنیا میں سب سے ذیادہ عزت و احترام دیا جاتا ہے اور ان ملکوں کے شہری دنیا کے 173ملکوں میں بغیر ویزہ کے داخل ہو سکتے ہیں ۔گورنمنٹ سے درخواست ہے اور خصوصا وزیر اعلیٰ پنجاب سے کہ اس مسئلے کو حل کیا جائے،پاسپورٹ آفسز کی تعداد بڑھائی جائے ،پہلے سے موجود آفسز میں عملے کی کمی کو پورا کیا جائے اور اس ڈیپارٹمنٹ کو ایجنٹ مافیا سے پاک کیا جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :