ذہن ساز

اتوار 16 مارچ 2014

Abdul Rauf

عبدالرؤف

تجربہ زندگی کی تلخیوں سے حاصل ہوتا ہے۔ قدیم ضرب المشل جدیدیت کے اس دور میں بھی برحق ہیں۔ کسی بھی واقعہ کا پس منظر ہوتا ہے اور پیش منظر اسی کا حصہ ہوتاہے۔ بے خبری کی موت درد ناک خیال کی جاتی ہے۔ آگاہی ایک حد تک بہتر ہے اگر حد سے بڑھ جائے تو تکلیف کا احساس بھی زیادہ ہو جات اہے۔ لمبی خوشیوں کو چھوٹی خوشی پر ترجیح حاصل ہے اور کم تکلیف کو زیادہ تکلیفوں پر ترجیح حاصل ہے۔

قرآن گزرے ہوئے کل، آج اور آنے والے کل کی خبر دے رہا ہے۔ انفرادی قلعے تعمیر کرنے سے اجتماعی قلعہ کی تعمیر ممکن نہیں۔ جنت ایک ہے، درجے مختلف ہیں۔ تمہارا اخلاق، دنیا کی زندگی، قبر کی دیواروں سے لے کر قیامت کے دن تک تمہارا ساتھ دے گی۔ تنہائی وہی بہتر ہے جس میں فکر ہو، ہر دن کے بعد رات اور رات کے بعد دن ضرور نکلتا ہے۔

(جاری ہے)


چند سال پہلے یونیورسٹی میں داخلہ ہونے کی وجہ سے الیکٹرانک میڈیا سے دور ہونے کا زخم سہنا پڑا۔

اس کی وجہ تعلیمی سرگرمیاں تو ہرگز نہیں بلکہ ٹی وی کی سہولت کا صرف کامن روم تک محدود ہونا تھا۔ سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس ہی واحد اور آخری سہارا تھیں۔ وہاں بھی 60سے 70فیصد وقت لڑکیاں لے جاتیں۔ تقریباً 20فیصد فلموں کو 5فیصد کمنٹ پڑھنے میں اور دینے میں گزر جاتا اور آخری 5فیصد کام کی باتوں کو ملتا۔بات ہو رہی تھی الیکٹرانک میڈیا کی یاد آیا روس نے افغانستان میں فوجی مداخلت کی تو پاکستان میں ایک نیم مذہبی حکومت موجود تھی۔

جس نے سرکاری سطح پر جہاد کا اعلان کر دیا۔ امریکہ نے خود افغانستان میں مداخلت کی ایک نیم لا دینی حکومت آ چکی تھی۔ جو فرد واحد کی آزادی کو مدد بھی فراہم کر رہی تھی۔ دونوں جمہوریت کے مخالف مگر ربڑ سٹیمپ پارلیمنٹ کے حق میں تھے۔ پھر بھی مغرب کے پسندیدہ رہے۔ ہمارا ذاتی حیثیت سے قصور یہی تھا کہ ہم غریب ہیں اور غربت اور تعلیم کی کمی لازم و ملزوم ہیں اور ہم بھی اس میں خود کفیل ہیں، اوپر سے خدا کی کرنی کہ ایٹم بم بنا بیٹھے۔

نہ بھٹو صاحب گھاس کھانے کا دعوٰی کرتے اور نہ آج گھاس کھانے تک کی نوبت آتی۔ غریب کو اتنا ستایا جا رہا ہے، اس کا ہتھیار ہی دشمن بن جائے۔ وہ سائیں کہ پاس جا کر کہے کہ سائیں یہ رکھو میری جان چھوڑو۔
جنرل مشرف دور کے نام نہاد کنوارے وزیر اطلاعات نے ڈنکے کی چوٹ پر 100چینل کھولنے کا اعلان کیا تھا۔ کوئی بھی چینل کاروبار کے لیے کھولا جاتا ہے اور خبروں کا کاروبار تقسیم شدہ معاشرے میں بہتر ہے۔

حکومت ے تمام ستون تو حکومت سے تنخواہ وصول کرتے ہیں مگر یہ وا حدستون ہے جس نے حکومت کو تنخواہ پر رکھا ہوا ہے۔ کمزور معیشت تفرقوں اور ذاتوں میں الجھے معاشرہ میں خبروں کا معیار بہتر رکھنا مشکل کام ہے۔ میڈیا پرنٹ ہو یا الیکٹرانک یہ ایک کاروبار ہے۔ جس کے ذریعہ آمدن میں اشتہارات سرفہرست ہیں۔ دیگر ذرائع آمدن بلیو جرنلزم کے زمرے میں آتے ہیں۔

میڈیا ایک زبردست قسم کا پریشر ہے۔ جہاں لکھاری اور کیمرہ شکار کرتے ہیں۔ جن کا اثر انفرادی اور اجتماعی سطح دونوں پر یکساں موجود ہے۔ پیمرا کی کی ذمہ داری اس کی لائن اور لینتھ ٹھیک رکھنا ہے۔ اگر یہ بگڑ گئی تو ہر گیند باوٴنڈری کی راہ لیتی دکھائی دے گی۔ شعور کی کمی، باتوں کو سمجھنے میں وقت پیدا کرو یہی ہے اور غربت ہر ناجائز کو جائز خیال کرنے لگتی ہے۔

جرائم پر مبنی پروگرام معاشرے کا جرم تو دکھا دیتے ہیں مگر قانون کی عدم موجودگی اور کمزور عدلیہ اس کو عبرت کے روپ میں پیش نہیں کر پاتے۔ لہذا جرم صرف جرم رہ جاتا ہے اور باغی ذہنوں کو جرائم کی نئی راہیں نظر آنے لگتی ہیں۔ سیاسی پروگرامز میں 25منٹ کے اشتہارات اور باقی 35منٹ آپس میں دست و گریباں ہوتے گزر جاتے ہین۔ ترقی انسانی فکر کی معراج سے جو باحیثیت مجموعی ہونی چاہیں جو صرف ایمانداری سے ہی ممکن ہے۔

ورنہ کچھ حصے ترقی کریں گے اور کچھ مزید پسماندہ ہوں گے۔ اس کی مثال پنجاب حکومت کے ترقیاتی منصوبے ہیں جو بظاہر تیزرفتار ہیں لیکن صرف یوتھ اور ٹریفک کے مسائل تک محدود ہیں ۔ دوسری طرف تعلیمی نظام، صحت اور سب سے بڑھ کر مہنگائی اور دیگر مسائل پر قابو پانے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ ایک کروڑ سے زائدافراد نشے میں مبتلا ہیں ۔ 10لاکھ سے زائد خواتین براہ راست جسم فروشی پر مجبور ہیں۔

ہر طبقہ کرپشن میں ملوث ہے۔ معاشرہ کی مجموعی صورت حالت تباہی کے دھانے پر کھڑی ہے،اور خانہ جنگی کے حالات کے لئے ساز گار ہے۔ یہ سچ ہے کہ پوری دنیا میں میڈیا رائے عامہ ہموار کرتا ہے۔ چاہے کوئی فلاحی مقصد ہو یا محض پروپیگنڈہ۔ قریب ترین مثالوں میں امریکہ کی حکومت نے عراق کے معاملے پر میڈیا کو بطور ہتھیار استعمال کیا۔ اسی طرح پاکستان سوات آپریشن اس کی ایک مثال ہے۔

یہ ایک مسلسل عمل ہے جو ذہن سازی کر تاہے۔ موجودہ جمہوریت کا ایک قابل ذکر ہتھیار میڈیا ہے۔ ہم ایک ایسے خطے کے باسی ہیں جو بیک وقت اندرونی اور بیرونی خطرات کا بدترین شکار ہے۔ ہم ایسی شناخت کا حصہ ہیں جس کو دنیا بھر میں خطرے کے طور پر جانا جانے لگا ہے۔ ایک بہترین فلاحی حکومت رعایا کہ تمام معاملات کا خیال جاتا ہے جس کو تمام ادارے حکومت کے ذریعہ انتظام ہوتے ہیں۔ حکومت وقت اور سربراہوں کو مضبوط اور ایمان عدلیہ کے سامنے جوابدہ ہونا پڑے گا۔ فلاحی حکومت کے لیے ضروری نہیں کہ وہ براہ راست عوام منتخب کریں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :