انصاف کا قتل

اتوار 16 مارچ 2014

Nabi Baig Younas

نبی بیگ یونس

اُنہی ہاتھوں سے خود کشی کرلی
زندگی کی لکیر تھی جن میں
میرے بہت ہی محترم استاد اور دوست طاہر حنفی صاحب کے اس شعر کی تہہ تک پہنچا جائے تو خود کشی کا فلسفہ سامنے آتا ہے۔ ایک انسان اس دنیا میں آگے بڑھنے کیلئے جدوجہد کررہا ہوتا ہے، ترقی کی منزلیں عبور کرنے کیلئے دن رات ایک کرتا ہے تو دوسری طرف ایک اورانسان اپنے اُنہی ہاتھوں سے اپنی زندگی کا خاتمہ کردیتا ہے جن میں زندگی کی لکیریں ہوتی ہیں اور جن میں قسمت لکھی ہوتی ہے، اُنہی ہاتھوں سے زندگی کا چراغ گل کردیتا ہے جو زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھنے کا وسیلہ ہوتے ہیں۔

انسان کو زندگی میں جس چیز سے سب سے زیادہ خوف آتا ہے وہ ہے "موت" ۔ یہ موت کا ہی ڈر ہے جو انسان کو برائیوں سے دور رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

(جاری ہے)

جونہی موت یاد آتی ہے تو انسان کے چہرے سے مسکراہٹ اوجھل ہوجاتی ہے اور ایک دم خوف کے بادل منڈلاتے رہتے ہیں۔ موت ایک ایسا ڈراونا خواب ہے اگر ہر وقت انسان اس پر سوچنا شروع کرے تو نہ کوئی کام کرسکتا ہے اور نہ کھانا کھائے گا۔

لیکن ایسے بھی لوگ ہیں جو اپنے ہی ہاتھوں خود کو موت کے کنویں میں دھکیل دیتے ہیں، خود کو گولی مارتے ہیں، خود کو پھانسی دیتے ہیں یا خود سوزی کرتے ہیں۔ دراصل انسان جب بے بس ہوجائے، اللہ کے بغیر اس کا کوئی سننے والا نہ ہو، اس کو ایسا کوئی دروازہ نظر آئے جس کو کھٹکانے سے اس کو انصاف ملے، جب اس کے جذبات مجروح ہوجائیں، جب اس کی عزت نفس پر آنچ آئے، جب وہ نہ صرف دوسروں بلکہ اپنی نظروں میں بھی گر جائے، تو وہ خود کشی پر مجبور ہوجاتا ہے اور اتنا مشکل کام اسے بہت آسان دکھائی دیتا ہے۔


مارچ کی 13تاریخ جمعرات کو پاکستان میں اکثر ٹیلی وژن چینلز پر آگ کے شعلے دکھائی دے رہے تھے، اس آگ میں کوئی لکڑی نہیں بلکہ ایک لڑکی جل رہی تھی، وہ لڑکی پاکستان کی بیٹی تھی، جس نے اپنے ہی ہاتھوں خود کو آگ لگادی، بے بس، بے آسرا، دنیا سے بے نیاز ہوکر خود کو شعلوں کی نذرکردیا اور ٹیلی وژن چینلز کو ایک اور خبر مل گئی کہ"مظفر گڑھ کے علاقے میں زیادتی کا نشانہ بننے والی ایک طالبہ نے انصاف نہ ملنے پر تھانے کے سامنے خودسوزی کی"لڑکی جھلس گئی، اس کے جسم کا 70 فیصد حصہ جل گیا، نشتر ہسپتال ملتان میں داخل، حالت خطرے سے باہر نہیں وغیرہ وغیرہ، اور اگلے روز علی الصبح اس خبر کا فالو اَپ آیا کہ لڑکی ہسپتال میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسی۔

بس جی، اب ہوا یوں کہ وزیر اعلیٰ نے واقعہ کا نوٹس لیا، واہ جی واہ،،، یہاں تو آئے روز ایسے واقعات پیش آتے ہیں، روز نوٹسز لئے جاتے ہیں، روز انکوائری کمیٹیاں بنتی ہیں، رپورٹس پیش کی جاتی ہیں، پھر ہوتا کیا ہے،،،، بس وہی، نئی بات صرف نو دن تک رہتی ہے، اس کے بعد معاملہ دب جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں نہ قانون کی کوئی اہمیت ہے اور نہ ہی انسانی جان کی۔

اگر انسان کی اہمیت ہوتی تو اسے انصاف ملتا، اس کی چیخ سننے والا کوئی ہوتا، اگر اس کے ساتھ زیادتی ہو تو اس کا ازالہ کیا جاتا، اسکی دادرسی ہوتی، لیکن افسوس ایسا ہے نہیں۔ اگر کوئی سوچے کہ ایک عام انسان کی ہمارے ملک میں کوئی قدروقیمت ہے تو وہ Utopian Worldمیں رہنے والا ہوگا۔
خودکشی کے واقعات کا ریکارڈ Greek Mythologyسے بھی ملتا ہے، اور وجوہات ایسی ہی تھیں جو ہمارے ملک پاکستان میں پائی جاتی ہیں جیسے شدید رنج، خوف، بے انصافی، شرم وحیا اور محبت۔

ایک یونانی خاتون Antigoneانصاف نہ ملنے پر زندہ قبر میں اتر گئی اور خودکشی کرلی۔ایک اور یونانی خاتونAriadneنے محبت میں ناکامی کی صورت میں شرمندہ ہوکر خود کو لٹکادیا۔انسان کی فطرت میں ہے کہ جب اس کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے تو وہ رنج و غم کے سیاہ ترین اندھیرے میں ڈوب جاتا ہے بعض لوگ اس اندھیرے سے نکلنے میں کامیاب اور بعض اس اندھیرے کی نذرہوجاتے ہیں، لیکن اس کا دارومدار رنج و غم کی نوعیت پر ہوتا ہے۔

بات ہورہی تھی مظفر گڑھ میں خودسوزی کرنے والی لڑکی کی، جس کو انصاف نہ ملا۔حوا کی اس بیٹی کے ساتھ بعض نوجوانوں نے زیادتی کی تو پولیس نے ملزمان کو بے گناہ قراردیا۔ اس کے بعد کون سا راستہ بچتا تھا، جو کچھ قوم کی اس بیٹی کے ساتھ ہوااس کا ادراک وہی انسان کرسکتا ہے جس پر ایسی گزری ہو، آخر وہ تو تھی بھی غریب والدین کی بیٹی، کسی وڈیرے ، کسی جاگیردار، کسی ایم این اے ، ایم پی اے یا کسی جرنیل کے گھر میں پیدا ہوئی ہوتی تو وہ شاید زیادتی کا نشانہ نہ بنتی ، اگر بن بھی جاتی تو اس کو انصاف بھی ملتا،اس کا ایک قصور یہ بھی تھا کہ ایک غریب گھرانے میں آنکھ کھولی تھی، زیادتی کا نشانہ بننے کے بعد کوئی سفارشی بھی نہیں تھا، ہاں، پولیس کے پاس گئی تو انصاف ملنے کے بجائے وہاں بھی کام الٹا ہی ہوا۔

بقول میرے دیرینہ دوست تفسیر حسین:
یا رب تیرے جہاں میں آخر طاقت ہی معیار ٹھہرا!
بس ہوا کیا،درندگی کا نشانہ بننے والی طالبہ آمنہ بی بی تھانے کے سامنے آئی ،جسم پر پٹرول چھڑکا،آگ لگادی، شعلے بلند ہوئے۔۔۔۔۔آخر کرتی بھی کیا، کدھر جاتی، کس سے فریادکرتی، فریاد کربھی لیتی تو سننے والا کون تھا،، فریاد کرنے سے عزت نفس اور بھی مجروح ہوتی، پھر بھی انصاف کی توقع دور دور تک دکھائی نہ دیتی، اسکی نظر میں تو شاید یہی فیصلہ درست تھا جو اس نے کیا۔

خود تو اس دینا سے دور چلی گئی، اس کوشائد نہ صرف اس دنیا سے اور اس معاشرے سے بلکہ اپنے آپ سے بھی نفرت ہوئی تھی ، لیکن اس نے اپنے رشتہ داروں کو ہمیشہ کیلئے سوگوار چھوڑ دیا، اسکی بہنیں اسکی کتابوں کو گلے لگاکررورہی ہیں، آمنہ تو ڈاکٹر بننے کا خواب دیکھتی تھی لیکن انصاف کے قتل نے اس کو اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے پر مجبور کردیا۔
بقول طاہر حنفی صاحب
زیست کے دشت میں سہمے ہوئے زندہ انساں
کوئی سایہ کوئی دیوار طلب کرتے ہیں!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :