تعلیمی انحطاط ،وجوہات اور اقدامات

جمعہ 14 مارچ 2014

Muhammad Kamran Shehzad

محمد کامران شہزاد

پاکستان میں آجکل جس طرف بھی نظر دوڑائیں حکومتی کمی کوتاہی اور عدم توجہی کسی آسیب کی طرح ہماری ترقی ،بہتری اور استحکام کو جکڑے ہوئے ہے۔جس کی وجہ سے ہر شخص عدم تحفظ کا شکار ہو گیا ہے۔
آج ھر شخص اس کو شش اور خواہش میں ہوتا ہے کہ جتنی چھوٹی اور بڑی مراعات اُس کے دائرہء اختیار میں ہیں اُن کو اپنی آسائش اور اپنوں کی فرمائش پردونوں ہاتھوں سے لُٹائے اِسی کوشش اور کاوش میں وہ ہر جائز و نا جائز ذریعہ استعمال کرتا ہے۔

وسائل کا بے دریغ استعمال کرتا ہے جس سے نہ صرف اُس کے فرائض پرسوالیہ نشان آتا ہے بلکہ کئی حق داروں کے حقوق بھی غصب ہوتے ہیں۔اشرف المخلوقات کہلانے والے حضرت ِانسان کا یہ رویہ ، مزاج ،اور کردار کسی بھی طرح معاشرے پرخوشگوار اثرات مرتب نہیں کرتا بلکہ انتشار اور انحطاط کے منفی رُجحانات کو پروان چڑھانے کا باعث بن رہا ہے۔

(جاری ہے)

ہمیں یہ انتشار اور انحطاط معاشرے سے ہٹ کر سرکاری و نجی اداروں میں بھی اپنی موجودگی سے افراد کی انفرادی و اجتماعی سوچوں پرمنفی اور زہریلے ا ثرات مرتب کر کے وہاں بھی قابلِ رحم حالات پیدا کر رہا ہے۔


تعلیم و تربیت سے کسی بھی معاشرے کو سُدھارا جا سکتا ہے لیکن حکومتی نعروں ،وعدوں،منصوبوں اور ویژن کے باوجود یہ انحطاط اور انتشار جس تیزی اور مہلک انداز سے تعلیم کے شعبہ پر حملہ آور ہے اُس سے اس شعبہ پر بہت منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور ہم تنزلی کی جانب گامزن ہیں۔نئے اعلی تعلیم یافتہ اساتذہ کرام بھرتی کیئے جا رہے ہیں ،DSDکے تحت ٹریننگ پروگرامز اور ورکشاپس منعقد کی جا رہی ہیں،مفت کتابیں فراہم کی جا رہی ہیں،اساتذہ کی مانیٹرنگ اور مینٹورنگ پر فوکس کیا جا رہا ہے،شرح خواندگی اور ڈراپ آؤ ٹ کے لئے نت نئے منصوبے لانچ ہو رہے ہیں۔

مگر سب کا سب دھرے کا دھرا رہ جاتا ہے۔کاغذوں کی حد تک All is okکی رپورٹ عالی شان دفاتر کی میزوں کی زینت بن جاتی ہے۔ اِس کی وجہ کیا ہے؟؟؟ کبھی کسی نے غور کیا؟؟؟
آؤ ! ذرا اس پر نظر ڈالتے ہیں۔حکومت نئے ٹیچر تو بھرتی کر لیتی ہے مگر (contract)کی بنیاد پر جس کی وجہ سے ٹیچر بے سکونی کا شکار رہتا ہے،ایک تلوار اس کے سر پے لٹکتی رہتی ہے۔اُس کو باقی ٹیچرز کی طرح کی مراعات بھی حاصل نہیں رہتی۔

عدم تحفظ کی وجہ سے وہ تعلیمی سرگرمیاں پوری دلجمعی سے سر انجام نہیں دے سکتا۔پرانے ٹیچرزکو بھی ترقی ،اپ لفٹ اور اپ گریڈیشن کے لئے سالہا سال تک انتظار کی سولی پر لٹکنا پڑتا ہے۔اور اگر یہ ترقیاں ملنے کا وقت آتا ہے تو پھر پسند نا پسند اور کلرک بادشاہ کی قانونی موشگوفیاں اں اسانذہ کرام کو بد دلی کا شکار کر دیتی ہیں۔یہ صورتِ حال تعلیم و تعلم کو ڈسٹرب کر دیتی ہے۔


حکومت نے ٹیچرز کی مانیٹرنگ اور مینٹورنگ کا جو نظام وضع کیا ہے وہ بھی انتہائی ناقص اور وقت کا ضیاع ہے۔ایک تو جو DTEs لگائے گئے ہیں وہ ٹیچرز میں سے ہی سلیکٹ کئے گئے ہیں جس سکول سے وہ ٹیچرز لئے گئے ہیں وہاں اس ٹیچر کی جگہ کوئی متبادل ٹیچرز نہیں دیا گیا۔جس سے مختلف سکولوں میں جہاں پہلے ہی ٹیچنگ سٹاف کی کمی ہے وہاں ٹیچر کم ہونے سے تعلیم کا حرج ہو رہا ہے،PD Dayاور DSD کی ٹریننگ بھی ٹیچرز میں کوئی مثبت اور خاطر خواہ تبدیلی نہیں لا سکی کیونکہ وہاں نہ ہی ماسٹر ٹرینر مثبت تبدیلی کے خواہاں نظر آتے ہیں اور نہ ہی ٹیچرز ۔

بس ایسی سرگرمیاں ٹیچرز کے لئے تفریح کا باعث ضرور بن جاتی ہیں۔DTEsکو جس مراعاتی پیکج کے تحت لایا گیا تھا وہ بھی پوری طرح اُنہیں نہیں دیا گیا جس کی وجہ سے وہ پوری کوشش اور کا وش سے اس پروگرام کے لئے اپنی توانائی صرف نہیں کر رہے۔
مانیترنگ کا نظام بھی عجیب انداز میں بنایا گیا ہے،ایک ایف اے یا میٹرک پاس ارمی سے ریٹائرڈ شخص گریڈ 18یا گریڈ 19کی مانیٹرنگ کیسے کر سکتا ہے؟؟؟؟اس سے آئے دن اختلافات اور جھگڑے سامنے آئے رہتے ہیں۔

یہ نظام بھی بس کاغذوں تک ہی محدود ہے۔لیکن اساتذہ کے لئے ذہنی اور دماغی کوفت کا باعث ضرور ہے۔ اساتذہ کے لئے غیر تدریسی ڈیوٹیاں دراصل اساتذہ کو تعلیم و تعلم سے دور لے جانے کی سب سے بڑی اور اہم وجہ ہے۔دیکھیں نہ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ایک ٹیچر سکول میں پڑھانے کے لئے بھرتی کیا گیا ہے مگراساتذہ کو کبھی ڈاکخانے،کبھی اکاؤنٹ آفس،کبھی DCOآفس ،کبھی عدالت،کبھی الیکشن آفس،کبھی سرکاری تقریبات میں زبردستی کی حاضری اور کبھی UPEجیسی سردردی کیونکہ ان ڈیوٹیوں کی وجہ سے سکولوں میں تدریسی سرگرمیاں انتہائی متاثر ہوتی ہیں۔

ٹیچروں میں بد دلی اور دہنی کوفت تدریسی عمل میں سپیڈ بریکر بن کر حائل ہو جاتی ہیں۔آجکل کی مہنگائی ،غربت اور بے روزگاری دراصل سکولوں میں بچوں اور والدین کی عدم دلچسپی کی وجہ ہے۔جب ٹیچر سکول کی بجائے کہیں دوسری جگہ ڈیوٹی کے لئے جائے گا تو پھر بچوں کو کوں پڑھائے گا؟؟؟؟؟ جب تک ہم اپنی تعلیم کو کسی ہنر کے ساتھ ہم آہنگ نہیں کریں گے،جب تک تعلیم کا عمل بے روزگار گریجویٹ جنم دیتا رہے گا اُس وقت تک والدین اور نوجوان نسل ہماری تعلیمی نظام سے بغاوت کرتے رہیں گے۔


ایسے نظام کو کیا کہا جائے کہ جس میں ایک ٹیچر کو ایک دن کی چھٹی لینے کے لئے ایک دن پورا آفیسر کے دفتر کے چکر لگانا پڑیں۔تاکہ رینکنگ پر فرق نا پڑے۔تعلیم اور تربیت کے عمل کے لئے پر سکون ماحول اور تمام تفکرات سے آزاد ٹیچر کا ہونا ضروری ہے۔کبھی ٹیچر پر امتحانات میں کمزور رزلٹ پر سزا کی تلوار لٹکا دی جاتی ہے،کبھی ٹیچر کو ترقی ،اپ لفٹ اور اپ گریڈیشن کے لئے ترسایا جاتا ہے اور کبھی ٹیچر کو غیر تدریسی سر گرمیوں کے ذریعے ٹارچر کیا جاتا ہے۔

اگر اربابِ اختیار تعلیم و تربیت اور تعلم میں وسیع خلیج حائل نہیں کرنا چاہتے تو اساتذہ کو پُرسکوں ماحول دیں،غیر تدریسی سرگرمیوں کا خاتمہ کریں،وقت پر اساتذہ کی پروموشن ،ترقی ،اپ لفٹ اور اپ گریڈیشن رولز اور ریگولیشن کے مطابق میرٹ اور سنیارٹی کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے دیں۔غیر ضروری مانیٹرنگ اور مینٹورنگ کے عمل سے وقت،پیسے اور صلاحیتوں کے ضیاع کو روکیں۔
تعلیم پر جو جمود ،انحطاط اور عدم دلچسپی کے مہلک وائرسز حملہ آور ہیں ان کو صرف اور صرف اساتذہ کرام کی عزتِ نفس بحال کر کے ہی پسپا کیا جا سکتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :