ٹی وی چینلز کی بھیڑ چال

جمعہ 14 مارچ 2014

Mian Ashfaq Anjum

میاں اشفاق انجم

ٹی وی چینلوں کے لئے نیا ضابطہ اخلاق تیار کر لیا گیا ہے، بہت ساری ایسی باتیں شامل کی گئی جو روایتی معاشرے میں پسند نہیں کی جاتیں، ناجائز تعلقات، بوس و کنار، شراب نوشی کالعدم تنظیموں کے بیانات، عدلیہ، مسلح افواج کے خلاف کوئی بات اور بے حیائی فحاشی کے کسی قسم کے سین دکھائے نہیں جا سکتے،مذہبی اور لسانی تعصبات کے ٹاک شو بھی نہیں ہو سکتے، خلاف ورزی کرنے والوں کو وقتاً فوقتاً وارننگ کے سرکلر کے ذریعے اور سرکلر، ایڈوائس جاری کی جاتی ہے۔

گزشتہ سال بے حیائی کے مناظر دکھانے پر دو ٹی وی چینلوں کو باور کرایا گیا ہے کہ وہ قومی ذمہ داری کے تحت ملکی مفاد میں قومی سلامتی و خود مختاری کا تحفظ کریں، یہ تھی پیمرا کی قومی اسمبلی کی اطلاعات و نشریات قائمہ کمیٹی کی بریفنگ۔

(جاری ہے)


قائمہ کمیٹی میں خواتین ارکان اسمبلی کے علاوہ مرد حضرات بھی شامل ہیں، چیئرمین قائمہ کمیٹی عارفہ خالد پرویز کی صدارت ہونے والے اجلاس میں طاہر اقبال چودھری، نعیمہ کشور خان، عمران لغاری، زیب جعفر، لیلیٰ خان، بیلم حسنین، ثمن سلطان جعفری نے شرکت کی اور پیمرا کی بریفنگ کے بعد سوال کیا گیا۔

پیمرا بتائے کہ وہ کون سے کوڈ پر عمل رہا ہے؟ پیمرا بتائے کہ وہ اخلاقی کوڈ کیا ہیں؟ پیمرا کی طرف سے خاموشی کے بعد کمیٹی نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے نئے سرے سے پیمرا کوضابطہ اخلاق کی تیاری کے لئے پاکستان براڈ کاسٹنگ ایسوسی ایشن(پی بی اے) سے سفارشات حاصل کرنے کی ہدایت کی ہے اور15اپریل تک پیمرا کو دوبارہ رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔

کیا قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے پہلی دفعہ ایسا کیا ہے؟ کیا پیمرا بے اختیار ہے؟ کیا پیمرا کا پہلے سے موجود ضابطہ اخلاق واقعی ناکافی ہے۔ کیا موجودہ اسمبلی واقعی بڑھتی ہوئی بے حیائی، فحاشی اور پاکستانی ثقافت کے بکھرے ہوئے شیرازے سے آگاہی حاصل کر چکی ہے واقعی پاکستانی ثقافت کو بچانے کے لئے نئی قانون سازی کرنے کے لئے سنجیدہ ہے ا چھا گمان رکھنا چاہئے۔


بے لگام، مقابلے اور ریٹنگ کی دوڑ میں ٹی وی چینلز کس قسم کی بھیڑ چال کا شکار ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ90فیصد ڈرامے غیر ملکی نشر کئے جا رہے ہیں۔ غیر ملکی ڈراموں اور فلموں کو چینل کی کامیابی کا معیار سمجھ لیا گیا ہے۔ کوئی ایسا ٹی وی ڈرامہ نہیں ہے جس میں خواتین کے سروں پر دوپٹہ باقی بچا ہو، محبت کی ایسی کہانی دکھای جاتی ہے، لڑکی دیکھتے ہی دیکھتے والدین کی عزت کا جنازہ نکال کر رات کے اندھیرے میں دوست کے ساتھ فرارہوجاتی ہے اور اکثر راتیں باہر گزارتی ہے۔


ڈراموں میں طلاق کو مذاق بنا دیا گیا ہے، رشتوں کا احترام ناپید ہو کر رہ گیا ہے، والدین کے ساتھ اولاد کے دائمی رشتے کو مصنوعی انداز میں پیش کیا جا رہا ہے، ڈراموں کے ڈائیلاگ میں لغو، فضولیات، فحاشی، جنسی رنگ نمایاں کر دیا گیا ہے۔ ڈراموں کے ساتھ اشتہارات میں بھی ہر طرح کی اخلاق سوز تصاویر لازمی حصہ بن کر رہ گئی ہیں۔
انسانی تاریخ میں ثقافت یا کلچر کی اصلاح اتنی لچر اور پوج معنوں میں کبھی استعمال نہیں ہوئی، جن معنوں میں آج کل اسے استعمال کیا جا رہا ہے، ان الفاظ کو حقیقی معنی سے علیحدہ کر کے ناچ رنگ اور فسق و فجور کے لئے استعمال کرنا شیطان کی انہی کوششوں میں سے ہے، جن کے سہارے وہ انسان کو دھوکا دیتا آیا ہے۔

دنیا کی کوئی زندہ اور باوقار قوم کبھی اپنی ثقافت کے تحفظ سے غافل نہیں ہوتی وہ بجا طور پر جانتی ہے کہ اس کو مٹانے والی قوتیں اس کی جڑ پر حملہ کرنے کی جرأت نہیں رکھتیں، اس لئے وہ اس کی ثقافت پر حملہ آور ہو کر اسے مسخ کر کے اپنے لئے کامیابی کی راہ نکال لیتی ہیں، کسی قوم کی مخصوص ثقافت کا کسی دوسری قوم کی ثقافت میں گم ہو جانا اس قوم کی موت کا اعلان ہوتا ہے۔


مسلمان روز اول ہی سے دنیا کی دوسری اقوام میں ایک نمایاں ممتاز مقام کے مالک رہے ہیں۔ تاریخ میں کتنی تہذیبوں نے جنم بھی لیا اور فنا بھی ہوئیں، لیکن مسلمانوں کی قومی حیثیت کبھی مشکوک نہیں ہوئی۔
انگریزوں سے زیادہ کالے، بھورے لوگ ، ہماری قوم کے مزاج کو بدلنے کی اپنی سی کوشش کر رہے ہیں وہ جانتے ہیں، براہ راست تو مسلمانوں سے یہ کہا نہیں جا سکتا۔

الله اور اس کے رسول کو نہ مانو اس لئے اس کام کے لئے ثقافت کا راستہ اختیار کر رہے ہیں۔ حکومت کی ساری مشینری باور کرانے میں لگی ہوئی ہے۔ ثقافت دراصل تفریح طبع اور وقت گزاری ہے۔ موسیقی، رقص،عشقیہ ڈراموں کا دوسرا کام یہ ثقافت کی ہی ترقی ہے۔ نئی نسل ان کا حدف ٹھہری،65 سال میں دو جنگیں اتنا نقصان نہیں پہنچا سکیں جتنا مغرب سے الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے پہنچا دیا ہے۔

دریا کے کنارے پہنچ چکے ہیں۔ نئی نسل جو ہمارا حقیقی مستقبل ہے۔ حقہ، شیشہ، سگریٹ، کانوں میں ٹوٹیاں، فیس بُک، ایس ایم ایس، ڈرامہ، فلم کے گن چکر میں پھنس کر رہی گئی ہے۔ والدین جائیں تو کہاں جائیں، سانسوں کی ڈور کو قائم رکھنے کے لئے، بچوں کا پیٹ پالنے کے لئے دن رات ایک کرنا پڑ رہا ہے۔ اولاد کے لئے وقت نہیں ہے، اولاد کے پاس وقت ہے تو ٹی وی کا یا فیس بُک کا۔

ہم کدھر جا رہے ہیں، کوئی سوچے گا اس بات کو! قابل ستائش ہے قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کا اقدام پیمرا کے نظام کو مضبوط کیا جائے۔
ہو کیا رہا ہے، بھیڑ چال، خبر لی جائے خبر دی جائے، جیسے بھی ہو۔ لاہور میں ایک المناک واقعہ ہوتا ہے، ماں نے اپنے دو بچوں کو گلا دبا کر مار دیا۔ کہانیاں کیا کیا نشر ہوئیں، کیا کیا اخبارات نے شائع کیں۔


پہلی کہانی بھوک سے تنگ ماں بچوں کو مارنے پر مجبور۔ دوسری، شوہر جنسی بے راہ روی کا شکار بیوی کو جنسی تشدد پر مجبور کرتا تھا، مجبوراً بیوی نے بیٹی اور معصوم بچے کا گلا دبا کر انہیں ختم کر دیا، تیسری کہانی، ایک کنال کے گھر میں سنی رہ رہا ہے، دو بڑی گاڑیاں وہاں پائی گئیں، مالی مشکلات نہیں ہو سکتیں، چوتھی کہانی، لڑکے کے والدین بازار حسن سے جوہر ٹاؤن منتقل ہوئے تھے، دبئی طوافیں بھیجتے ہیں، پانچویں کہانی لڑکی کے والدین بازار حسن سے جوہر ٹاؤن منتقل ہوئے تھے۔

ٹی وی اور اخبارات نے ایک دوسرے سے مقابلے بازی میں میدان مار لیا۔
ریٹنگ کی دوڑ میں آگے نکل گئے، ماں کی ممتا نے ایسا کیوں کیا، ممتا اپنے چھ ماہ دو سال کی بیٹی کو مار سکتی ہے؟ اگر مار سکتی ہے اس کے پیچھے کیا عوامل کار فرما تھے، کسی نے جاننے کی کوشش نہیں کی، ایک کنال کے گھر میں 9خاندان رہتے تھے،کوارٹر نما کمروں میں9فیملیاں رہ رہی تھیں انہی میں سے دو نوجوان جو ملازمت کرتے ہیں، ان کی اپنی اپنی گاڑیاں تھیں، فرضی کہانیاں ٹیبل سٹوریاں کیا رنگ دکھا رہی ہیں۔

صفحات تو بھرے جا رہے ہیں۔ ٹی وی کا وقت تو پورا ہو رہا ہے، ہم معاشرے، نئی نسل کو کیا دے رہے ہیں۔ بار بار ضابطہ اخلاق نئی نسل، نئی ثقافت کے نام پر ڈرامہ بازی کب تک جای رہے گی۔ یقینا اس کا حل ہماری ثقافت، ہمارے خاندانی ضابطہ اخلاق، ہمارے اپنے نبی پاکﷺ کے دیئے ہوئے معاشرتی کلچر میں موجود ہے۔ چادر اور چار دیواری کا تحفظ خاندان کا تحفظ پاکیزہ ماحول، پاکیزہ روایات کے امین ہم ہی تو ہیں، ہم اپنے گھر کو پاکیزہ بامقصد بنانا چاہتے ہیں تو دوسروں کی بجائے اپنے اندر جھانکنے اور اپنی چار دیواری پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔

ہمارے گھر کی چار دیواری موجود ہے۔ میری بیٹی میرا بیٹا کیا کر رہا ہے، خاندانی روایات قائم ہوں گی تو حسن معاشرت جنم لے گا۔ خود بخود پاکیزہ معاشرہ بنتا چلا جائے گا، کسی پیمرا کو ایکشن لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی، جب ٹی وی مالکان فیصلہ کر لیں گے، مَیں وہ دکھاؤں جو اپنے بچوں کو دکھا سکتاہوں۔ اخباری مالکان فیصلہ کر لیں وہ شائع کریں گے جو گھر میں بچی اور بچہ پڑھ سکیں، نظریں نہ چرائیں تو انقلاب یقینی ہے انشاء الله

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :