گرمی آئی نہیں مگر بجلی چلی گئی

جمعہ 14 مارچ 2014

Dr Awais Farooqi

ڈاکٹر اویس فاروقی

ابھی تو گرمی نے انگڑائی بھی نہیں لی اور لودشیڈنگ میں اضافہ ہوچکا ہے جب گرمی زوروں پر ہوگی تو شہریوں کا کیا حشر ہو گا یہ سوچ کر ہی رونگٹے کھڑئے ہوجاتے ہیں جبکہ حکومت کا خود بھی یہ کہنا ہے کہ اس بار بھی لوڈ شیڈنگ میں کمی نہیں ہو گی بارہ گھنٹے بجلی کی بندش سے کام کاج کا تو ہرج ہو ہی رہا ہے صنعتو ں کا پہیہ بھی جام ہوتا دکھائی دے رہا ہے احتجاج کی صدائیں ابھی سے بلند ہونا شروع ہو گئی ہیں اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ گرمیوں میں کیا عالم ہو گا۔


بجلی کی کمیابی کے حوالے سے وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے بھی بجلی کی فراہمی کی سنگین قلّت، آنے والی گرمیوں میں لوڈشیڈنگ کے اضافے کے خطرے اور ریونیو اکھٹا کرنے میں بجلی کی کمپنیوں کی ناکامی پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔

(جاری ہے)

نجکاری کمیشن کے چیئرمین محمد زبیر نے کا کہنا ہے کہ رپورٹ کے مطابق اس وقت ملک میں پانچ ہزار میگاوٹ کی لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے، اور گرمیوں میں صورتحال مزید خراب ہونے کا امکان ہے۔

جبکہ وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ انہیں توقع نہیں تھی کہ صورتحال ہاتھ سے نکل جائے گی، اس لیے کہ وزارتِ خزانہ نے بروقت ٹیرف سبسڈیز جاری کردی تھیں اور بجٹ میں کی گئی وسائل کی تقسیم کے مطابق فیول سپلائرز کو فنڈز فراہم کردیے گئے تھے، لیکن انہوں نے تسلیم کیا کہ بجلی کے شعبے میں مسائل موجود ہیں۔اسحاق ڈار کے مطابق ”ہمارے پانی کے ذخائر میں کمی آئی ہے، اور یہ تشویش کی بات ہے۔

“اس بار قدرت کی کرم نوازی سے موسم ابھی تک اچھا جارہا ہے ورنہ گرمی کے پارے کے ساتھ شہریوں کے پارے میں بھی اضافہ ہو چکا ہونا تھا لوڈ شیڈنگ مستقل مسلے کی صورت اختیار کر چکا ہے جس کے ختم کرنے کی کوئی صورت ابھی تک نظر نہیں آرہی حالانکہ حکومت کو اس مسلے کو اپنی پہلی ترجیح قرار دے کر اس کے حل کے لئے ہر ممکن کام کرنا چاہیے تھا کیونکہ ایک اس مسلے کے ہوتے ہوئے ملکی دیگر مسائل کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔


خبروں کے مطابق بجلی کی طلب اورسپلائی کے اصول کے مطابق پیداوار طلب سے کہیں دور ہے، جس کی بنا پر پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیز نے بجلی کی فراہمی کا انتظام کرنے کی خاطر روزانہ دس سے بارہ گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ بحال کرنے کا سہارا لینا شروع کردیا ہے۔ جبکہ عوام کو ڈرایا جارہا ہے کہ وہ بدترین لوڈ شیڈنگ کے لئے تیار رہیں ۔اگر ہم بجلی کی قیمتوں کا موازنہ دنیا کے دوسرے ممالک سے کریں تو ہم جو بجلی حکومت سے خریدتے ہیں اس کی قیمت جو ہم ادا کرتے ہیں وہ دیگر ممالک سے زیادہ ہے لیکن پھر بھی بجلی دستیاب نہیں بلکہ جس طرح ملتی ہے اس سے صارفین کا نقصان زیادہ اور فائدہ کم ہوتا ہے۔

ایک آن لائن اخبار کی رپورٹ کے مطابق حکومت نے بجلی پیدا کرنے والی بعض کمپنیز کو گیس کی سپلائی بھی معطل کرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ بعض دیگر کمپنیز کو تیل کی قلت کا سامنا ہے، جس کی بنا پر بجلی کی سنگین قلت کا مسئلہ درپیش ہے۔گذشتہ مئی کے دوران منعقدہ عام انتخابات میں وزیرِ اعظم نواز شریف کی حکومت نے بجلی اور گیس کی قلت دور کرنے کے وعدے پر کامیابی حاصل کی تھی، اسی کی وجہ سے عوام کی اکثریت نے بجلی کے نرخوں میں اضافے کو بھی قبول کرلیا تھا۔

صورتِ حال کی بہتری کی امید میں انہوں نے ایسا کچھ کیا بھی۔ بعد ازاں، فیصل آباد میں بجلی کی عدم فراہمی پر احتجاج کرنے والے مظاہرین کے اوپر پولیس کی بھاری نفری ٹوٹ پڑی۔ اس واقعے کے بعد پھر کوئی سڑکوں پر نہیں نکلا۔ تو کیا عوام خاموشی سے تکلیف برداشت کرتی رہے گی؟ یہ ممکن نہیں۔ ہنی مون کا دور ختم ہوچکا۔بجلی کی موجودہ پیداوار میں اضافہ درکنار، افسوس کہ حکومت نے پاور سیکٹر میں اصلاحات کے موقع سے بھی کچھ خاص فائدہ نہیں اٹھایا حالانکہ اس سے گھروں، بازاوں اور کارخانوں کے واسطے فراہمی بہتر بنانے میں خاصی مدد مل سکتی ہے۔

چار سو اسّی ارب روپے کے گردشی قرض کی یکمشت ادائیگی کے باوجود گذشتہ نو ماہ سے بھی کم عرصے کے دوران پاور کمپنیز اور انہیں تیل فراہم کرنے والوں کے غیر ادا شدہ بِلوں کی رقم ایک بار پھر دو سو ارب روپے سے تجاوز کرچکی۔اس کی وجوہات صاف ہیں۔ حکام نے پاور سیکٹر میں اصلاحات کے لیے توانائی پالیسی کا صرف وہ حصہ نافذ کیا جس کا تعلق بجلی کے نرخوں میں اضافے سے متعلق ہے۔

بھاری مینڈٹ مگر سیاسی عدم آمادگی کے باعث اب تک بجلی چوری، ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن نقصانات پر قابو پانے اور پبلک و پرائیوٹ صارفین سے ادا نہ کیے گئے واجبات کی وصولی کی خاطر کچھ نہیں کیا جاسکا ہے۔پبلک سیکٹر میں قائم پاور کمپنیز کو ناقص گورنس، اداروں کی کمزوریوں، نااہلی، بدعنوانی اور مسابقت کے فقدان جیسے مسائل کا سامنا ہے، جن کا حل کیے جانا ابھی باقی ہے۔

بلاشبہ، انرجی سیکٹر کو جن مسائل کا سامنا ہے وہ 'وسیع اور گہرے' ہیں، اس کے باوجود حکومت نے نئی نسل کے لیے اس شعبے میں سرمایہ کاری کی کوششیں کی ہیں، جس کا اسے کریڈٹ نہ دینا غیر منصفانہ ہوگا۔لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انتخابات جیتنے اورحکومت بنانے کے فوری بعد جو دعوے کیے گئے اور ان سے جتنی توقع تھی، حکومت نے اس سے کہیں کم اقدامات اٹھائے ہیں۔

ضروری نہیں کہ اس رپورٹ کے مندرجات سے اتفاق کیا جائے مگر جن حقائق کی جانب اشارہ کیا گیا ہے وہ کافی حد تک درست محسوس ہوتے ہیں حکومت کو چاہیے کہ وہ گرمی کی شدت میں اضافے سے پہلے بجلی کی کمی کو کم سے کم کرنے کی طرف توجہ دے تا کہ عوام سکھ کا سانس لے سکیں جبکہ بجلی کے بحران پر قابو پانے کے لئے نئے ڈیمز کی اشد ضرورت ہے جس جس پر کام نہ ہونے کے برابر ہے حکومت کو اس جانب بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :