غریب کشمیریوں کے سفید ہاتھی…!

بدھ 12 مارچ 2014

Sareer Khalid

صریر خالد

مالی مشکلات اور بے روزگاری کی بدترین مار جھیلتی آرہی ریاستِ جموں و کشمیر میں بھلے ہی عوام کو بجلی ،حفظانِ صحت اور اس طرح کی دیگر بنیادی سہولیات دستیاب نہ ہوں لیکن ریاستی ممبرانِ اسمبلی پر دولت و مراعات کی برسات جاری ہے۔حالانکہ ریاستی اسمبلی کے جاری اجلاس میں وزیر خزانہ نے حال ہی بجٹ پیش کرتے ہوئے ریاستی خزانے کی تشویشناک تصویر پیش کی ہے تاہم اسکے چند روز بعد ہی ”عوامی نمائندگان“کے لئے سرکاری خزانے کے پھاٹک کھول دئے جانے کے جو منصوبے افشاء ہوئے ہیں اُنہوں نے عام لوگوں کو ورطہٴ حیرت میں ڈالدیا ہے۔


سرمائی راجدھانی جموں میں ریاستی اسمبلی کے جاری بجٹ اجلاس کے دوران بجٹ پیش کرتے ہوئے گذشتہ دنوں وزیر خزانہ عبد الرحیم راتھر نے ریاستی خزانے پر بڑھتے ہی جارہے قرضے کے بوجھ کا جو خلاصہ پیش کیا ہے وہ انتہائی تشویشناک ہے۔

(جاری ہے)

حالانکہ وزیر خزانہ نے اپنے بجٹ کو ”صفر خسارے والا“بتایا ہے لیکن اعداد و شمار کی بجائے عملی طور ریاست کے مالی حالات کو دیکھتے ہوئے سنجیدہ فکر طبقہ فکر مند ہے اور حکومتِ ہند یا دیگر مالی اداروں سے موٹی رقومات کا قرضہ لئے جانے کو پریشانی کا باعث اور ریاست کی ترقی میں رکاوٹ آنے کی وجہ مان رہا ہے۔

خود وزیرِ خزانہ کا کہنا ہے کہ حکومتِ ہند اور دیگر مالی اداروں کے تئیں ریاست کے لئے واجب الادا رقومات 42,200کروڑ روپے سے تجاوز کر گئی ہیں۔گو یہاں پر راتھر کے بجٹ پر بحث مطلوب نہیں ہے لیکن ریاستی خزانے پر موجود اور لگاتار بڑھتے جا رہے قرضے کے بوجھ کو دیکھتے ہوئے ریاستی سرکار سے تدارکی اقدامات متوقع تھے لیکن جہاں عوام کی ”نمائندہ سرکار“کی شاہ خرچیوں کی بات آتی ہے ایسا لگتا ہے کہ جیسے خود وزیرِ خزانہ کو خزانے کی خستہ حالت پر نظر بھی نہیں ہے۔


سرکاری خزانے کی خستہ حالت کا رونا رونے کے چند ہی دنوں بعد اسمبلی کے ہی ایوان میں ریاستی سرکار نے ”قانون سازوں “کے گھر مختلف ناموں سے دولت کی برسات ہونے کی ”پیش گوئی“کرتے ہوئے ریاستی عوام کو حیران و انفشت بدنداں کر دیا ہے۔ریاستی سرکار کے تازہ منصوبوں کے مطابق مالی بوجھ تلے دبی ہوئی ریاست کے ممبرانِ قانون سازیہ ،جو خود کو عوامی نمائندگان کہلانے کا فخریہ دعویٰ رکھتے ہیں،کو پہلے سے حاصل زبردست اور مہنگے مراعات میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔

تازہ منصوبوں کے تحت غربت و بے روزگاری کی مار جھیلتی آرہی ریاستِ جموں و کشمیر کے ”عوامی نمائندگان“اب ملک میں اور بیرونِ ملک مہنگے ”بزنس کلاس“میں ہوائی سفر کرینگے جبکہ ذاتی بنگلوں کے مالک ہونے کے با وجود اونے پونے کرایہ پرسرکاری رہائش کی اعلیٰ سہولیات رکھنے والے ”قانون سازوں“کو معمولی سود پر حاصل قرضہ برائے تعمیرِ گھر کی حد بھی بڑھائی جا رہی ہے۔

اتنا ہی نہیں بلکہ سال بھر قبل ہی جدید ترین سپورٹس گاڑیوں (SUV)کے مالک بنائے جا چکے ان لوگوں کے لئے گاڑیوں کے لئے ملنے والے قرضے کی حد بھی بڑھائی جا رہی ہے جس پر عوام کے ان نمائندگان کو عوام کے مقابلے میں کم سود ادا کرنا ہوگا۔سیاسی غیر یقینیت،تشدد اور مارا ماری کی وجہ سے بد نصیب جموں و کشمیر کے خوش نصیب عوامی نمائندگان کے یہاں ہونے جا رہی مراعات و اکرامات کی برسات اپنے ساتھ اتنا ہی نہیں لیکے آ رہی ہے بلکہ ان لوگوں نے سرکاری خزانے کی جانب سے رہائشی پلاٹ کا ”تحفہ“حاصل کرنے کا بھی راستہ بنایا ہے۔

قانون و پارلیمانی امور کے وزیر سیف اللہ میر نے گذشتہ دنوں، اسمبلی کے اُسی ایوان میں کہ جہاں وزیرِ خزانہ نے ریاست خزانے پر موجود اتنے بھاری قرضے کا احوال سنایا تھا کہ جس سے نام نہاد عوامی نمائندگان کو سکتے میں آنا چاہیئے تھا،بتایا”سرکار نے(قانون سازیہ کے) ممبران کو بزنس/کلب کلاس میں غیر ملکی ہوائی سفر کرنے کی اجازت دینے کا فیصلہ کر لیا ہے“۔

ایک سوال کے جواب میں میر نے ایوان کو بتایا کہ محکمہ قانون نے مکانات و شہری ترقی کے محکمہ کو کابینہ کا ایک فیصلہ پیش کیا ہے اور اسے ممبرانِ قانون سازیہ کو رہائشی پلاٹ دئے جانے کا منصوبہ بنانے کے لئے کہا ہے۔ ریاست کے 125ممبرانِ قانون سازیہ کے گھر ہونے جا رہی مراعات کی اس بارش پر سینکڑوں کروڑ روپے کا خرچہ آئے گا جو ظاہر ہے کہ پہلے سے خستہ ریاستی خزانے کی حالت کو اور بھی غیر اور ریاستی عوام کی کمر کو اور بھی نیچے کی طرف جھکا دے گا۔


گو کہ پارلیمنٹ میں گذشتہ دنوں پیش آمدہ واقعات نے اب اس راز کو سر عام پھوڑ دیا ہے کہ پورے ہندوستان میں نام نہاد عوامی نمائندگان اخلاقیات کے معیار سے کس حد تک نیچے گر چکے ہیں ۔ جمہوریت کے استحکام کے نام پر چُنے جانے والے یہ لوگ پارلیمان جیسے معتبر ترین ایوان میں بھی جمہوریت کو کس طرح شرمسار کرتے ہیں پارلیمنٹ میں مرچی پھینکے جانے کے واقعہ کے بعد اس بات کی وضاحت غیر ضروری ہو گئی ہے لیکن جموں وکشمیر میں اس حوالے سے صورتحال پہلے سے ہی انتہائی بد ترین ہے۔

جموں و کشمیر اسمبلی کے سابق اسپیکر محمد اکبر لون کی طرفسے اپنے عہدے کے تقدس کا لحاظ کئے بنا اپوزیشن کے ایک سینئر لیڈر افتخار انصاری کو ننگی گالیاں دینے اور خود اپوزیشن لیڈر محبوبہ مفتی کے تئیں نا زیبا حرکات کرنے کے ویڈیو کلپ اب بھی انٹرنٹ پر دستیاب ہیں اور برابر لوگوں کی دلچسپی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔پھر رواں اجلاس کے دوران ایک اپوزیشن ممبر کے زخمی ہو کر اسپتال پہنچنے اور اپوزیشن کے ہی ایک ممبر کے اسمبلی کے ایک ملازم کو اجلاس کے دوران تھپڑ رسید کرنے کے واقعات تو تازہ ہیں لیکن جب مراعات پانے کی بات ہو تو بد تمیزی کی تمام حدیں پار کرنے والے یہی ممبران ایک ہوکر اتنے ”مہذب“ہو جاتے ہیں کہ انکے حق میں بنایاجانے والا کوئی بھی قانون چُپ چاپ منظور ہو جائے۔


2011میں ریاستی اسمبلی کا بجٹ اجلاس ہی تھا کہ جب اسپیکر کی جانب سے حزبِ اختلاف کے ایک سینئر لیڈر کے ساتھ گالی گلوچ کرنے کا مذکورہ بالا واقعہ پیش آیا۔ہنگامہ آرائی اور دھینگا مشتی کے بعد ایوان کا عالم یہ ہوا تھا کہ حزبِ اختلاف کے لیڈر اور نائب اسپیکر سرتاج مدنی روٹھ کر مستعفی ہوگئے اور کئی دنوں تک ایوان میں اپنی کرسی واپس سنبھالنے پر تیار نہ ہوئے تاہم 28,مارچ(2011) کا منظر مختلف تھا۔

چناچہ سپیکر محمد اکبر لون نے سبھی پارٹیوں کے نمائندگان کو اپنے کمرے میں بلا کر انکے ساتھ قریب آدھے گھنٹے کی میٹنگ کی جسکی بعد معمول کے مطابق اسمبلی کی کارروائی شروع ہونے کے ساتھ ہی وزیرِ قانون علی محمد ساگر نے ممبرانِ اسمبلی اور وزرا کی تنخواہ میں اضافے اور سابق ممبرانِ قانون سازیہ کی تنخواہ میں اضافے سے متعلق دو الگ الگ بِل متعارف کئے۔

یہ پہلی بار تھا کہ جب حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف ،دونوں، جیسے ایک ہوگئے تھے۔پھردو ایک ممبران کو چھوڑ کر پورے ایوان نے نہایت ہی عجلت کے ساتھ بِل کو منظوری دی اور یوں ایک آن میں بے روزگاری کی مار جھیل رہی ریاستِ جموں و کشمیر کے ”عوامی نمائندگان“کی ،پہلے سے ہی موٹی، تنخواہ دوگنا ہوگئی۔بِل کی منظوری کے ساتھ ہی جموں و کشمیر کے وزیرِ اعلیٰ کی ماہانہ تنخواہ 45,300روپے سے بڑھکر 90,300روپے،کابینہ وزیر وں کی تنخواہ 40,300روپے بڑھکر85,300روپے اوروزراءِ مملکت وممبرانِ قانون سازیہ کی تنخواہ 40,300روپے سے بڑھکر 80,300روپے ہوگئی جبکہ سپیکر کو ہر ماہ 90,000 روپے ملنے لگے۔

دلچسپ ہے کہ تنخواہوں کی بڑھوتری کا یہ غیر معمولی فیصلہ ایوان نے لیا تو 2011میں لیکن اسکا نفاذیکم ستمبر 2009سے کیا گیا اور یوں سبھی ممبران نے ”ایرئرس “کے بطور موٹی رقومات حاصل کرلیں۔
ممبرانِ قانون سازیہ کی تنخواہوں میں اضافہ یا تازہ منصوبے کے تحت ان ممبران کی شاہ خرچیاں ہی نہیں بلکہ عمر عبداللہ کا دورِ حکومت ممبرانِ قانون سازیہ کے لئے موسمِ بہار ثابت ہوا ہے۔

ممبران کے ترقیاتی فنڈ میں دو سو فیصد جبکہ سفر خرچہ(ٹی اے)میں سو فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ایوان کی کارروائی میں شامل ہونے کے لئے،جو حالانکہ ان ممبران کی منصبی ذمہ داری ہے،انہیں دی جانے والے یومیہ 500روپے کو بھی دوگنا کیا جا چکا ہے جبکہ مختلف ہاوس کمیٹی میٹنگوں کے لئے بھی ان ممبران کو اتنی ہی رقم ملتی ہے۔اسکے علاوہ ممبران اور اُنکے خاندانوں کے لئے سستے داموں پر ریاست میں اور بیرون ریاست علاج و معالجہ مع جراحی کی سہولیات بھی دستیاب ہیں جبکہ سرینگر اور جموں میں انہیں 500روپے کی معمولی رقم پر اعلیٰ سرکاری رہائش فراہم رہتی ہے۔

یہ ایک الگ معاملہ ہے کہقانون سازیہ کے بیشتر ممبران کے خلاف سرکاری مکانات کا یہ معمولی کرایہ بھی کئی کئی سال سے باقی ہے جیسا کہ حقِ اطلاعات قانون کے تحت دائر کردہ ایک درخواست کے جواب میں متعلقہ محکمہ نے انکشاف کیا ہے۔2011میں ہی سرکار نے سات کروڑ روپے کی رقومات مختص کر کے بد نصیب ریاست کے اِن سبھی ”خوش نصیب نمائندگان“کے لئے ایک ساتھ جدید ترین(SUV)گاڑیاں خریدیں۔


سیاستدانوں نے اپنے لئے مراعات کی بارش کا انتظام ایک ایسے وقت پر کیا ہے کہ جب ریاست کی مالی حالت کسی بھی طرح مستحکم نہیں ہے جیسا سرکار آئے دنوں عوام کے سامنے رونا روتی ہے۔خود سرکارکا کہنا رہا ہے کہ ریاست کی مو جودہ مالی آمدنی6700کروڑ روپے کے لگ بھگ ہے جبکہ درکار بجٹ کا تخمینہ 43543کروڑ روپے کا ہے جس میں 16785کروڑ روپے کاتنخواہ و پنشن بِل شامل ہے۔

حالانکہ حزبِ اختلاف کی جانب سے آئے دنوں سرکار پر شاہ خرچی کر کے ریاست کو کنگال بنانے کے الزامات لگائے جاتے ہیں اور پھر جب وزیرِ خزانہ کی جانب سے گذشتہ دنوں بجٹ پیش ہوا تو ان الزامات میں تیزی لاتے ہوئے اپوزیشن نے ریاستی خزانے کو خالی بتایا۔تاہم جب مراعات کی باری آتی ہے تو حزبِ اختلاف کو خزانہ خالی نظر آتا ہے اور نہ ہی سرکار کی شاہ خرچیاں دلچسپ بات یہ ہے کہ تنخواہوں میں اضافے پر ردِ عمل کے اظہار کی طرح ہی اب کی بار بھی ایوان کے دونوں جانب کی میزوں پر بیٹھے ممبران ایک آواز میں ایک بولی بولتے ہوئے اپنے اوپر ہو رہی مراعات کی برسات کو جائز ہی نہیں بلکہ Over Dueبتاتے پھر رہے ہیں۔

جیسا کہ حکمران نیشنل کانفرنس کے ایک ممبرِ اسمبلی نے بتایا”ہماری مانگیں ہمیشہ جائز رہی ہیں اور اچھی بات یہ ہے کہ سرکار نے ہمیں مایوس نہیں کیا ہے“۔ریاست کی مالی حالت اور مہنگائی کی مار سے دبے ہوئے عوام کو دیکھتے ہوئے ممبران قانون سازی کو دی جا رہی مہنگی مراعات کے جواز کے بارے میں مذکورہ ممبر سے ایسا کوئی جواب نہیں بن پایا کہ جسے ضبطِ تحریر میں لایا جا سکتا ہو۔

تاہم سینئر کانگریس لیڈر اور کابینہ وزیر تاج محی الدین کہتے ہیں”سرکار نے قانون کے اندر رہتے ہوئے یہ فیصلہ لیا ہے اور اگر قانون میں گنجائش ہے تو(قانون سازیہ کے) ممبران کو وہ سب ملنا چاہیئے کہ جسکا وہ حق رکھتے ہیں“۔حزبِ اختلاف کے ایک لیڈر نے اُنسے ردِ عمل پوچھنے پر اخبار نویسوں پر بات کا بتنگڑ بنانے کا الزام لگاتے ہوئے زیرِ تبصرہ معاملے پر کچھ بھی کہنے سے انکار کیا۔

تاہم سی پی آئی ایم کے یوسف تاریگامی نے اُن سمیت قانون سازیہ کے ممبران کو مزید مراعات دئے جانے کو بلا جواز بتایا اور کہا کہ جب ریاستی سرکار مستحقین کی مدد کرنے سے یہ کہکر معذوری ظاہر کرتی ہے کہ اسکے پاس رقومات دستیاب نہیں ہیں تو پھر سیاستدانوں پر دولت کی بارش کا کیا جواز ہو سکتا ہے۔تاہم تاریگامی نے اس حوالے سے ایوانِ اسمبلی میں ایسا کوئی احتجاج نہیں کیا کہ جسے گذشتہ دنوں کی سُر خیوں میں تلاش کیا جا سکتا ہو۔


جیسا کہ حزبِ اختلاف کے ایک ممبر نے اخبار نویسوں پر بات کا بتنگڑ بنانے کا الزام لگایا ہے جموں و کشمیر کی اقتصادی صورتحال سے نا آشنا اور بھی کئی لوگ اس سوچ کے حامل ہو سکتے ہیں لیکن ایسے لوگوں کے لئے اس بات کا تذکرہ لازمی ہے کہ جموں و کشمیر سرکار ایک ایسے وقت پر سیاستدانوں پر مہربان ہو رہی ہے کہ جب ہوشربا مہنگائی،ناسازگار حالات اور آمدنی کی کمی نے ریاستی عوام کی کمر دوہری کی ہوئی ہے۔

اتنا ہی نہیں بلکہ خود ریاستی سرکارکئی بار اس بات کا اعتراف کر چکی ہے کہ ریاست میں تعلیم یافتہ بے روزگاروں کی تعداد سات لاکھ سے بھی اوپر ہوگئی ہے حالانکہ یہ تعداد فقط اُن لوگوں کی ہے کہ جنہوں نے اپنی بے روزگاری سرکار کے پاس درج کرائی ہوئی ہے جبکہ ماہرین کے مطابق اصل میں یہ تعداد کہیں زیادہ ہے۔پھر ریاستی سرکارکئی سال سے اپنے ملازمین کو اُن رقومات کے مطالبوں کے لئے پولس سے پٹواتی رہی ہے کہ جو چھٹے تنخواہ کمیشن کی سفارشات کے تحت اُنکا حق بن گئی تھیں۔

بے روزگاری کا عالم یہ ہے کہ سرکار کی جانب سے ملازمین کو پنشن کی سہولیات سے محروم کئے جانے اور بھرتی ہونے کے بعد پانچ سال تک محض چار یا پانچ سال تک کی تنخواہ دئے جانے کا ”قانون“بنانے کے با وجود بھی سرکاری نوکری کا حصول پی ایچ ڈی تک کی ڈگریاں حاصل کر چکے نوجوانوں کے لئے مقصدِ حیات اور آخری خواب کی طرح ہے۔اسکے علاوہ مختلف سرکاری محکموں میں یومیہ اُجرت پر کام کر رہے ملازمین کو پندرہ سو روپے ماہانہ کی قلیل تنخواہوں کے لئے کئی کئی ماہ تک یہ کہکر تڑپایا جا رہا ہے کہ سرکار کے پاس رقومات دستیاب نہیں ہیں اور نہ ہی سرکار مزید اقتصادی بوجھ اٹھانے کی متحمل ہو سکتی ہے تاہم اپنی باری آنے پر عوامی نمائندگی کے دعویدار وں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ریاست عوام کے لئے غریب ضرور ہو سکتی ہے لیکن حکمرانوں کے لئے اس لاغر گائے دے اُتنا ہی دودھ دھو لیا جائے گا کہ جتنا اُنکی مرضی ہو۔


حالانکہ ممبرانِ اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافہ نہ کئے جانے اور ان پر مراعات کی بارش روکنے سے ہی ریاست کی اقتصادی حالت بہتر ہونے کا خواب بھی نہیں دیکھا جا سکتا ہے لیکن اس فیصلے کو ٹالے جانے سے عوام کو حوصلہ افزا پیغام ضروردیا جا سکتا تھا۔جیسا کہ سرینگر کے صدر اسپتال کے ایک ڈاکٹر کا،انکا نام نہ لئے جانے کی شرط پر،کہنا ہے”ہمارے یہاں کئی اہم ترین ادویات اسلئے دستیاب نہیں ہیں کہ سرکار کے پاس رقومات نہیں ہیں اور دوسری جانب عوام کے غمخوار ہونے کے دعویدار یوں عیش کر رہے ہیں“۔

محکمہ خوراک و عوامی تقسیم کاری کے ایک ملازم کے بقول راشن گھاٹ اکثر خالی رہتے ہیں اور چند کلو راشن کے حصول کے لئے لوگوں کو کئی کئی دن کا تکلیف دہ انتظار کرنا پڑتا ہے لیکن سرکار خود عیش کر رہی ہے۔وہ کہتے ہیں”ان حالات میں لوگ اپوزیشن سے نمائندگی کی توقع کرتے لیکن افسوس ہے کہ خزانے کی لوٹ میں جموں و کشمیر کی اسمبلی میں حزبِ اقتدار و حزبِ اختلاف کی تمیز مٹ جاتی ہے“۔

سرینگر سے شائع ہورہے ایک انگریزی روزنامہ کے مدیر کا کہنا ہے”اخبارات کو کئی ماہ سے اشتہارات کا پیسہ نہیں دیا جا رہا ہے جسکے لئے ہم کئی بار وزیر اعلیٰ کے مشیروں اور دیگر افسروں سے بھی ملے اور دوسری جانب دیکھئے کہ کس طرح کسی قانون کے بغیر ریاستی آمدنی کی بندربانٹ کی جاتی ہے“۔واضح رہے کہ مقامی اخبارات کو سرکار سے ملنے والے اشتہارات کی رقومات کئی ماہ سے رکی پڑی ہیں جس سے بعض چھوٹے اخبارات کے بند ہونے کی نوبت آپہنچی ہے۔

بے روزگاروں اور عام لوگوں کو سرکار کو عوامی سرمایہ کی بندربانٹ کے لئے ٹوکنا یا کوسنا اپنی جگہ لیکن زیرتبصرہ معاملے سے متعلق ایک عام ذہن میں کئی اہم سوالات اُبھر رہے ہیں جیسے یہ کہ کیا ان حالات میں کہ جب سرکار خود اپنے ملازمین کا قرضہ چکانے کی حالت میں نہ ہو،سیاستدانوں پر مراعات کی برسات کا کوئی جواز ہے،جب بے روزگاروں کے لئے نام نہاد عوامی نمائندوں کے پاس طفل تسلی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے،انکے لئے اپنی تجوریوں کے بھرنے کا سامان کرنا کہاں تک صحیح ہے،اگر مہنگائی کی وجہ سے اخراجات و مراعات میں اضافہ لازمی اور ناگزیر ہوگیاہے تو کیا مہنگائی کے شکار وزراء و ممبرانِ اسمبلی اُسی ریاست میں نہیں رہتے ہیں کہ جہاں سات لاکھ بے روزگار اور پندرہ سو روپے کی تنخواہ پر کام کرنے والے ہزاروں غیر مستقل ملازمین رہتے ہیں۔

کیا اُن لوگوں کے لئے کوئی سستے بازار دستیاب ہیں کہ جہاں تک وزراء کو رسائی نہ تھی اور سب سے بڑھکر یہ کہ کیا ”عوامی نمائندگان“کا یہ اختیار جائز ہے کہ وہ جب چاہیں اپنی ”عوامی خدمت“کا کوئی بھی مول لگائیں… ان سوالوں کا جواب کچھ بھی ہو لیکن اتنا طے ہے کہ نام نہاد عوامی نمائندے غریب کشمیریوں کے لئے سفید ہاتھی ثابت ہو رہے ہیں کہ جنہیں پالنا مختلف مسائل کے شکار عوام کے بس کی بات نہیں ہے…!(بشکریہ عالمی سہارا)۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :