تھر کا اصل ماجرا

پیر 10 مارچ 2014

Munawar Rajput

منور راجپوت

پاکستان کے نقشے پر نظر ڈالیں تو آپ کو انتہائی جنوب مشرق میں صحرائے تھر نظر آئے گا۔ یہ اپنی وسعت کے اعتبار سے دنیا کا نواں بڑا صحرا ہے۔ انتظامی طور پر یہ علاقہ پہلے ضلع تھرپارکر کہلاتا تھا، پھر اسے تین اضلاع میرپورخاص، عمرکوٹ اور تھرپارکر میں تقسیم کردیا گیا۔ میرپورخاص بارانی ضلع ہے، یہاں کی زمینیں نہری پانی سے سیراب ہوتی ہیں۔

عمر کوٹ میں دونوں طرح کی زمینیں ہیں، ریتیلی بھی اور بارانی بھی۔ البتہ ضلع تھرپارکر میں صرف ریت ہی ریت ہے، ہر طرف مٹی کے ٹیلے ہی ٹیلے نظرآتے ہیں، صرف بھارتی سرحد کے متصل ننگرپارکر کی پٹی میں کچھ چٹانی زمینیں ہیں۔ تھرپارکر میں زیرزمین پانی انتہائی نمکین ہے اور وہ بھی 150 سے 200 فٹ گہرائی میں جاکر ملتا ہے۔ باجرا اس صحرائی علاقے کی سب سے بڑی فصل ہے، اس کی کاشت بھی بہت زیادہ بارش کی صورت ہی میں ممکن ہوتی ہے۔

(جاری ہے)

تھرپارکر کی آبادی 15لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ مٹھی اس ضلع کا ہیڈکوارٹر جبکہ ڈیپلو، اسلام کوٹ اور ننگرپارکر معروف قصبے ہیں۔
یہ تھر پارکر کا ایک ہلکاپھلکا تعارف تھا، اب اس معاملے کی طرف بڑھتے ہیں جس کی وجہ سے ان دنوں یہ ضلع ملکی اور عالمی میڈیا کی ہیڈلائنوں میں آیا ہوا ہے۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق وہاں پر درجنوں بچے خوراک نہ ملنے کی وجہ سے انتقال کرچکے ہیں، جبکہ متاثرہ بچوں کی ایک بڑی تعداد اب بھی ہسپتالوں میں داخل ہے۔

سپریم کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ نے صورت حال کاازخود نوٹس لیا ہے۔ حیرت انگیز طور پر 86سالہ وزیراعلیٰ سندھ بھی کچھ حرکت میں آئے ہیں۔
بچوں کی اموات اور امدادی سرگرمیوں کے کچھ ایسے پہلو بھی ہیں جنہیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ درجنوں بچوں کی اموات کوئی ایک دو دن میں تو ہوئی نہیں ہوں گی، یہ معاملہ کئی ماہ سے چل رہا ہوگا، آخر اتنا عرصہ خاموشی کیوں رہی؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ معاملے کو منظرعام پر لانے کے لیے اموات کا فیگر بڑھنے کا انتظار کیا گیا؟ اصل میں اس معاملے کو علاقے میں موجود این جی اوز کی سرگرمیوں کے تناظر میں دیکھا جانا ضروری ہے۔

تھرپارکر پاکستان کا وہ علاقہ ہے جہاں سب سے زیادہ این جی اوز پائی جاتی ہیں۔ پورے ضلع میں جگہ جگہ این جی اوز کے بورڈ لگے نظر آتے ہیں۔ ”عالمی برادری“ کی جانب سے تھر کے پسماندہ لوگوں کے لیے دل کھول کر امداد دی جاتی ہے، اسی وجہ سے یہ علاقہ این جی اوز کے لیے سونے کی کان ہے۔ کراچی اور اسلام آباد میں تھر کے مسائل اور ثقافت پر سیمینار وغیرہ ہوتے رہتے ہیں، جس کے شرکاء کی اکثریت غیرملکی سفارتی اہلکاروں پر مشتمل ہوتی ہے۔

تصویر کا یہ رخ کتنا بھیانک ہے کہ تھر کے نام پر لاکھوں ڈالر وصول کرنے والی این جی اوز اس علاقے پر ایک دھیلا بھی خرچ کرنے کی روادار نہیں۔ این جی اوز کے کرتا دھرتا تو کروڑ پتی بن گئے مگر تھر کے عوام آج بھی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔
ان این جی اوز کی زیادہ تر سرگرمیاں اسلام آباد کے فائیواسٹار ہوٹلوں تک محدود ہیں مگر کبھی کسی ڈونر کی زیادہ جیب کاٹنے کے لیے اسے تھرکا وزٹ کرانا پڑ جائے تو اس کا بھی خاطرخواہ ”بندوبست“ کرلیا جاتا ہے۔

آنا فاناً میڈیکل کیمپ لگ جاتے ہیں، فنی تربیت کے مرکز کھل جاتے ہیں، میٹھے پانی کے ٹینکر پہنچ جاتے ہیں اور پھر مہمانوں کی رخصتی کے ساتھ ہی سب کچھ پہلے جیسا ہوجاتا ہے، میڈیکل کیمپ رہتا ہے اور نہ فنی تربیت کا مرکز۔ تھر میں این جی اوز کا سارا کام جھوٹ اور فریب پر چل رہا ہے۔ یہ تنظیمیں ایسے ایشوز کی تلاش میں رہتی ہیں جس سے ان پر ڈالروں کی بارش ہوسکے۔

بچوں کی اموات کا ایشو بھی سابقہ معاملات کی طرح پلانٹڈ لگتا ہے۔ اس معاملے پر ڈاکومنٹریاں بن کر بیرون ملک جاچکی ہیں، اسلام آباد کے ایئرکنڈیشنڈ ہالوں میں غیرملکیوں کو پریزنٹیشن دی جارہی ہے، دھڑادھڑ چیک کٹ رہے ہیں۔
میں یہ نہیں کہتا کہ تھر میں بچوں کی اموات کا سرے سے کوئی واقعہ ہوا ہی نہیں ہے۔ بلاشبہ بچوں کی اموات ہورہی ہیں مگر اس کا سبب اور حل وہ نہیں ہے جس کا ڈھول پیٹا جارہا ہے۔

اموات کے بارے میں پیش کیے جانے والے اعداد وشمار بھی مشکوک ہیں جبکہ یہ بھی ذہن میں رہنا چاہیے کہ یہ اموات ہفتے دو ہفتوں میں نہیں بلکہ کئی ماہ کے دوران ہوئی ہیں۔ کہا جارہا ہے بچوں کی اموات خوراک کی کمی کے باعث ہوئیں۔ یہ آدھا سچ ہے، پورا سچ یہ ہے کہ خوراک کی کمی کے ساتھ ساتھ طبی سہولتوں کا فقدان اور وہاں کا مقامی کلچر بھی ان اموات کا سبب ہے۔

بے شک ضلع تھرپارکر پاکستان کا سب سے پسماندہ علاقہ ہے۔ فصلیں یہاں نہیں ہوتیں، ذرائع معاش ناپید ہیں، اس لیے لوگ انتہائی بری حالت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ تھر کے مسائل کا حل کیا ہے؟ ایک حل تو وہ ہے جو آج کل اپنایا جارہا ہے، یعنی لوگوں کی نقد اور اشیائے خورونوش کی شکل میں مدد کرنا، اس طریقے سے لوگوں کو وقتی طور پر تو ریلیف مل جاتا ہے مگر یہ کوئی مستقل حل نہیں ہے۔

چند کلو آٹا اور پانچ دس ہزار روپے ایک گھرانے کے لیے کتنے عرصے تک کافی ہوگا؟ اور اس کے ختم ہونے پر پھر وہی خوراک کا بحران جبڑے کھولے کھڑا ہوگا۔
تھر کے مسائل کا حل چند ہفتوں کی امدادی مہم سے نہیں نکالا جاسکتا، عوام کو مستقل طور پر ریلیف دینے کے لیے بڑے سیاسی اور انتظامی فیصلوں کی ضرورت ہے۔ ایک ایسا خطہ جہاں دور دور تک ہسپتالوں کا وجود نہ ہو وہاں دو، چار روز کا میڈیکل کیمپ کیا کرسکتا ہے۔

قادیانیوں اور عیسائی اداروں نے وہاں پر کئی ہسپتال کھول رکھے ہیں، جو دراصل ان کے تبلیغی مراکز ہیں۔ ضلعی ہیڈکوارٹر مٹھی میں 20 ایکڑ پر پھیلا ہوا قادیانیوں کا المہدی ہسپتال محض پریس ریلیزوں کے ذریعے ”قادیانی فتنے“ کی روک تھام کرنے والی جماعتوں سے بہت کچھ کہہ رہا ہے۔ ان ہسپتالوں سے مسلمان تو دور رہتے ہی ہیں، اکثریتی ہندو برادری بھی ان ہسپتالوں میں جاتے ہوئے گھبراتی ہے۔

دوسری طرف سرکاری ہسپتال ناپید ہیں، اگر خاطرخواہ طبی سہولتیں میسر ہوتیں تو شاید بچوں کی حالت اتنی بری نہ ہوتی۔ حکومت کو ایک بڑے پیکیج کے تحت ضلع بھر میں ہسپتال اور ڈسپنسریاں تعمیر کرانی چاہئیں۔
میٹھے پانی کی قدر تھر جاکر ہوتی ہے۔ ضلع کا یہ سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ نوکوٹ سے مٹھی تک میٹھے پانی کی لائن بچھائی گئی ہے مگر یہ ناکافی ہے۔

مٹھی میں تو ویسے ہی سرمایہ دار بنیے رہتے ہیں یا پھر سرکاری افسر، یہ تو خرید کر بھی میٹھا پانی پی سکتے ہیں۔ اصل مسئلہ دور دراز علاقوں میں رہنے والوں کا ہے، چونکہ پانی کافی گہرائی میں ہوتا ہے اس لیے کھدائی پر بہت زیادہ خرچہ آتا ہے، جو وہاں کے لوگ برداشت نہیں کرپاتے۔ حکومت اور فلاحی اداروں کو منرل واٹر کے پیکٹ تقسیم کرنے کی بجائے وہاں کنویں کھدوانے کی مہم پر سوچنا چاہیے۔

اس ضمن میں کراچی کے سابق ناظم نعمت اللہ خان نے خاصا کام کیا تھا، دیگر فلاحی اداروں کو بھی پیاسوں کو پانی پلانے کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔
ضلع تھر پارکر میں معاشی ذرائع بہت کم ہیں۔وہاں کے عوام کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے حکومت کو ایسے اقدامات کرنے چاہئیں جن سے معاش کے ذرائع پید اہوں۔ گلہ بانی کو فروغ دے کر بھی عوام کی کمر کو مضبوط کیا جاسکتا ہے۔

اگر آپ تھر جائیں تو ایسا لگے گا جیسے آپ کئی صدیاں پیچھے لوٹ گئے ہیں۔ وہاں کے عوام آج بھی غلاموں جیسی زندگی گزاررہے ہیں۔ ارباب خاندان برسوں سے اس خطے پر حکمرانی کرتا رہا لیکن اس نے عوام کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی بجائے غلام بنائے رکھنے کو ترجیح دی۔ اس بار پیپلزپارٹی نے یہاں سے ارباب خاندان کو بے دخل کردیا ہے لیکن اس کی ترجیح بھی صرف ووٹ لینا تھی، وہ اسے مل چکے، اب وہ کیوں اس خطے پرہمدردی کی نظر ڈالے گی۔ بلاول زرداری جس کا چھوٹے چھوٹے واقعات پر ٹوئٹ آجاتا ہے، تھر کے بچوں کی اموات پر ابھی تک کوئی ٹوئٹ نہیں آیا۔ انہوں نے سندھ کی ثقافت تو بچالی مگر عوام مرگئے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :