مسجد قرطبہ کی فریا د !

ہفتہ 8 مارچ 2014

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

علا مہ اقبال لندن میں تھے انہیں اسپین سے لیکچر کی دعوت دی گئی جو انہوں نے قبول کر لی ۔اسپین جا نے کے بعد اقبال سب سے پہلے مسجد قرطبہ گئے اور مسجد قرطبہ پر ایک شہرہ آفا ق نظم لکھی ۔مسجد قرطبہ قدیم طرز تعمیر کا عظیم شاہکار تھی ۔مسجد قرطبہ نے مسلمانوں کے عرو ج کو بڑے قریب سے دیکھا تھا لیکن پندرھویں صدی کے آخر میں جب ابو عبد اللہ آنسو بہاتا ہوا اندلس کی پہاڑیوں میں گم ہوا تو اس کے بعد اندلس میں کو ئی مسلمان بچانہ کو ئی مسجد ۔

مسلمانوں کو چن چن کر شہید کیا گیا اور مسجد وں کو گرجا کھروں میں تبدیل کر دیا گیا ۔علامہ اقبال جب مسجد قرطبہ گئے تو وہاں انہوں نے نماز پڑھنے کی خواہش ظاہر کی لیکن موقعہ پر مو جو د پادری نے شو ر مچانا شروع کر دیا ۔اقبال جا ئے نماز بچھا کر اس پر بیٹھ چکے تھے اقبال نے بیٹھے بیٹھے اپنا رخ پادری اور گا ئیڈ کی طرف کیا اور بولے ”ایک دفعہ عیسائیوں کا ایک وفد نبیء اکرم سے ملنے کے لیئے مدینہ آیا تھا، نبی اکرم نے وفد کو مسجد نبوی میں ٹھہرانے کاحکم دیا۔

(جاری ہے)

جب ان کی عبادت کا وقت ہوا تو وہ شش و پنج میں مبتلا تھے کہ نہ جا نے انہیں ان کے طریقے کے مطا بق عبادت کر نے دی جا ئے گی یا نہیں ۔لیکن نبیء اکرم نے ان کو اپنی مرضی کے مطابق عبادت کر نے کی اجا زت مرحمت فرما ئی ۔“یہ واقعہ سنانے کے بعد اقبال نے سوالیہ نظروں سے پادری کی طرف دیکھا ،وہ بو لا میں اپنے بڑے پادری سے پو چھ کر آتا ہو ں ،وہ تھو ڑی دیر بعد وا پس آیا اور اقبال نے آٹھ صدیاں گزرنے کے بعد 1931میں پہلی بار مسجد قرطبہ میں اذان اور نماز ادا کی ۔

مسجد قرطبہ کے سفر کے دوران اقبال نے اپنے بیٹے جا وید کو خط میں لکھا ”میں خدا کا شکر گزار ہوں کہ میں مسجد قرطبہ کو دیکھنے کے لیئے زندہ رہا ۔ یہ مسجد دنیا کی تمام مساجد سے بہتر ہے اور خدا کرے تم جوان ہو کراس مسجد کے نو ر سے اپنی آنکھو ں کو رو شن کرو“ایک اور خط میں انہوں نے ایڈیٹر انقلاب کے نام لکھا ”مرنے سے پہلے مسجد قرطبہ ضرور دیکھنا “
مسجد قرطبہ کی بنیاد عبد الرحمان الداخل نے رکھی تھی ، عبد الرحمان الداخل کی اپنی زندگی کسی معجزے سے کم نہیں تھی ۔

اس کی عمر پانچ سال تھی کہ اس کے والد کا انتقال ہو گیا ۔دوسری صدی ہجری میں جب خلا فت بنو امیہ کا خاتمہ ہوا اس وقت عبدالرحمان کی عمر بیس سال تھی ،عبدالرحمان دریا ئے فرات کے کنارے ایک کچے مکان میں رہتا تھا جب عباسی لشکر نے بنو امیہ کا قتل عام شروع کیا تو عبدالرحمان بھی اس خونریزی سے نہ بچ سکا ۔ایک دن وہ اپنے خیمے میں بیٹھا تھا کہ اس کا بیٹا دوڑتا ہوا خیمے میں داخل ہوا ،عبدالرحمان فورا باہر نکلا دیکھا عباسی لشکر قتل و غارت میں مصروف تھا اور ہر طرف عبا سیوں کے سیاہ جھنڈے لہرا رہے تھے ۔

عبدالرحمان نے بیٹے کو گلے سے لگا یا اور دریا کی طرف دوڑ لگا دی عباسیوں نے تعاقب کیا لیکن عبدالرحمان دریا پار کر چکا تھا ۔عبدالرحمن جنگلوں سے ہوتا ہوا بھیس بدل کر فلسطین جا پہنچا وہاں اس کو اس کے باپ کا غلام بدر مل گیا ،دونوں مصر کی جانب روانہ ہو ئے اور وہاں سے افریقہ چلے گئے ۔افریقہ کے لوگوں کو معلوم ہوا کہ عبدالرحمان کی ماں ہمارے ہی قبیلے کی تھی تو وہ ا س کے گرد اکٹھے ہو نا شروع ہے گئے ،عبدالرحمان نے اپنا لشکر ترتیب دینا شروع کر دیا اور کچھ ہی عرصے بعد اس نے باقاعدہ اپنی فو ج بنا لی اور یوں عبدالرحمان کو اندلس پر قبضہ کر نے میں کسی خاص مزاحمت کا سامنا نہ کر نا پڑا ۔

عبدالرحمن اندلس کا حکمران بنا تو اس نے دیگر اہم عمارات کے ساتھ ایک عالی شان مسجد کی بنیاد رکھی ،ابھی مسجد تعمیر نہ ہو پائی تھی کہ عبدالرحمان بیمار ہو گیا اور اس کے بچنے کی امید ختم ہو گئی ۔عبدالرحمان کی خواہش تھی وہ مرنے سے پہلے ایک دفعہ مسجد قرطبہ میں ضرور نماز پڑھے ، اپنی بیماری کے آخری ایا م میں وہ ایک دن سر سے پاوٴں تک سفید لباس میں ملبوس مسجد آیا، خود خطبہ دیا ،جمعہ کی نماز پڑھائی ،واپس محل چلا گیا اور پھر اس کے بعد دوبارہ چارپائی سے نہ اٹھ سکا ۔

عبدالرحمان کے بعد آنے والے حکمران اس مسجد کی توسیع کر تے رہے اور اس کی زیب و زینت بڑھاتے رہے اور اس میں آخری اضافہ وزیر المنصور نے کیا اور مسجد کی موجو دہ عمارت اسی کی بنوائی ہو ئی ہے ۔
مسجد قرطبہ کا شمار دنیا کی عظیم الشان عمارات میں ہو تا ہے ۔مسجد کی چھت 182میٹر لمبی اور 133چوڑی ہے ۔پوری چھت ستونوں پر قائم ہے اور اس کے اوپر نہایت خوبصورت محرابیں بنی ہو ئی ہیں ۔

ستونوں کی کل تعداد ایک ہزار چار سو سترہ ہے ۔مسجد کے اکیس دروازے ہیں اور ہر دروازے پر عالی شان کام کیا گیا ہے ۔مسجد میں ایک مقصورہ بھی بنایا گیا تھا جس کا فرش چاندی کا ،ستون لا جورد کے اور ان کے اوپر نہایت خوبصورت بیلیں بنا ئی گئیں تھی ۔دروازہ خالص سونے کا تھا اور منبر کا شمار دنیا کے عجائبات میں ہو تا تھا ۔یہ ہاتھی دانت ،آبنوس اور صندل کے چھتیس ہزار ٹکڑوں کو سو نے اور چاندی کے کیلوں سے جو ڑ کر بنایا گیا تھا ۔

یہ سات برس میں تیا ر ہوا تھا اور اس کی مزدوری پر ساڑھے سینتیس ہزار دینار خرچ ہو ئے تھے ،اذان کے لئے ایک مینار بنا یا گیا تھا جس کی اونچائی 33میٹر تھی ،اس کی بنیاد پانی تک کھود کر رکھی گئی تھی مینار کے اوپر تین صلیب نما لٹو رکھے گئے تھے جن میں سے دو سو نے کے اور ایک چاندی کا تھا ،سو رج کی کرنیں ان پر پڑتی تو وہ میلوں دور تک چمکتے دکھائی دیتے تھے ۔

موٴذن کے اوپر چڑھنے اور نیچے اترنے کے لیے دو الگ الگ زینے بنائے گئے تھے ۔وضو کے لیے مسجد کے باہر دو حوض تھے جن میں نہر کے ذریعے پا نی آتا تھا ،اس کے بیچ میں نہایت خوبصورت فوارے لگائے گئے تھے اور ہر فوارہ ایک سالم پتھر کا بنا ہوا تھا ۔مسجد کا اندرونی ہال نہایت شاندا ر تھا ۔ستون اس قدر خوبصورت ،صاف اور شفاف تھے کہ انسان آئینے کی طرح اپنی شکل دیکھ سکتا تھا ۔

مسجد میں روشنی کے لیے دو سو اسی جھا ڑ تھے اور سب سے بڑے جھا ڑ میں ایک ہزار چار سو شمعیں روشن ہوتی تھیں اور مسجد کی دیواروں پر پیتل کے سات ہزار چار سو پچیس چراغ لگائے گئے تھے ۔
مسجد قرطبہ اسلامی تاریخ کا ایک عظیم شاہکار ہے لیکن ہفتہ دس دن پہلے کی خبر ہے کہ اسپین کی حکومت نے اس تاریخی مسجد کو صرف تیس یو رو یعنی چار ہزار تین سو پندرہ روپے میں کلیسا کو فرو خت کر دیا ہے اور آج کے بعد اس مسجدمیں میں اذان نہیں بلکہ گھنٹیاں بجیں گی اور آج کے بعد اس مسجد میں خدا نہیں بلکہ بتوں کو سجدہ کیا جائے گا۔

کیا کمال ہے کہ دنیا میں ایک ارب پینسٹھ کروڑ مسلمان ہیں لیکن کعبتہ اللہ کی بیٹیاں فروخت ہو رہی ہیں اور مسجد قرطبہ جیسی تاریخی مساجد کو گرجا گھروں میں تبدیل کیا جا رہا ہے ۔ویسے ہمیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے کیوں کہ آج کل ایشیا کپ بھی ہو رہا ہے اور اگلے مہینے دو تین انڈین فلمیں بھی ریلیز ہو نے والی ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :