گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور سے ایک ملاقات

جمعرات 6 مارچ 2014

Nayyar Sadaf

نیئر صدف

اگرچہ موجودہ صوبائی وزیرتعلیم ایک سے زائدہ وزارت عظمیٰ کاعہدہ رکھتے ہیں ہر وزارت پر اتنی دلچسپی لیتے ہیں کہ شعبہ تعلیم کے لئے اُن کے پاس اُسی طرح وقت نہیں ہوتا جس طرح سیاستدان اقتدارمیں آنے سے پہلے عوام سے خالی پیلی وعدے کرتے ہیں۔ اگرچہ تعلیم کے فروغ کو اپنی اولین ترجیح قرار دیتے ہوئے تعلیم کابجٹ چارفیصد بڑھانے کی اُمیددلاتے ہیں مگرصدافسوس آخرکار قومی بجٹ میں تعلیم کے لئے وہی اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف دوفیصد بجٹ مختص کردیاجاتا ہے ۔

سونے پہ سہاگہ کہ یہ دوفیصد بجٹ بھی تعلیم پرخرچ کرنے کی بجائے حکمران اشرفیہ کے اللے تللوں پر خرچ ہوجاتا ہے کیونکہ حکمران اشرفیہ عوام کوجاہل رکھناچاہتی ہے تاکہ اُن کااحتصال ہوتارہے اوراشرفیہ عیش و عشرت کی زندگی گزارتے رہیں اوردوسری جانب تعلیمی پالیسیوں میں تبدیلی اس طرح کی جاتی ہے جیسے تعلیم کاشعبہ کوئی سنجیدہ نہیں بلکہ کوئی شعبدہ بازی کامیدان ہو۔

(جاری ہے)

غورکرنے کی بات ہے کہ 1947 میں جب ملک معرضِ وجود میں آیا تو پاکستان کی شرح خواندگی کاگراف 17فیصد تھا جو 67سالوں میں 46 فیصد تک ہی پہنچ سکاہے جب کہ یہ حقیقت سب پرعیاں ہے کہ قومی ترقی میں تعلیم کی اہمیت بہت زیادہ ہے مگرتعلیم کی شرح بڑھانے میں خالی بیانوں سے زیادہ آج تک کچھ نہیں کیاگیا۔ گزشتہ دنوں ایک پرائیویٹ تعلیمی ایسوسی ایشن کے تحت ایک تقریب منعقد ہوئی۔

صوبائی وزیرتعلیم کومدعوکیاگیاتھا مگر وہ اس تقریب کونظر انداز کرگئے تو تقریب کے شرکاء کو سابقہ وزیرتعلیم شجاع صاحب بہت یاد آئے۔ موصوف اگرچہ کوئی تعلیمی مطالبہ تسلیم یاپورانہیں کرتے تھے مگرتعلیمی تقریبات میں مدعو ہوکر دل جلوں کے دل پرمرہم کاکام ضرور کردیاکرتے تھے۔ اسی پس منظر کے تحت گزشتہ دنوں آل پاکستان پرائیویٹ سکولز مینجمنٹ ایسوسی ایشن کے تحت ایک وفد نے گورنرپنجاب چوہدری محمدسرور سے ایک ملاقات کی جس میں ایسوسی ایشن کے مرکزی صدر عدیل جاویدانی نے گورنر پنجاب محمدسرور سے نجی تعلیمی شعبے کی مشکلات بیان کرتے ہوئے کہا کہ نجی تعلیمی سیکٹر اس وقت فروغ تعلیم میں حکومت کا دستِ راست تصورکیاجاتا ہے مگر اِن کو سہولیات دینے کی بجائے اِن پرمتعدد قسم کے ٹیکس عائید ہیں۔

فیس کی وصولیوں پرالگ سے ٹیکس لگادیاگیا ہے جبکہ تعلیمی کتب اور سٹیشنری پر بھی ٹیکس عائید کرکے تعلیم کومہنگاکردیاگیا ہے پھرتعجب کی بات یہ ہے کہ وفاق اورپنجاب حکومت کی نجی تعلیمی اداروں پر 18 مختلف اقسام کے ٹیکس عائید کرنے کے باوجود اِن پر پریشرڈالاجاتا ہے کہ نجی سکولوں پر 10% بچوں کو فری تعلیم دی جائے جوکہ نجی اداروں کے ساتھ ایک ظالمانہ رویہ اور عوام میں نجی اداروں کے خلاف نفرت پیداکرنے کاباعث ہے جبکہ حکومت اس سلسلے میں پرائیویٹ سیکٹر کوبھارت کے سکولوں کی مثال پیش کرتے ہوئے بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ وہاں تعلیمی اداروں میں 10% بچے پڑھائے جارہے ہیں بے شک جناب ایسابھارت میں ہوتا ہوگا مگر حکومت ساتھ ساتھ یہ کیوں بھول جاتی ہے کہ جس ہمسایہ ملک میں 10%بچوں کی فری تعلیم کی بات کررہے ہیں وہاں پر پرائیویٹ سکولوں سے بھارتی گورنمنٹ کوئی بھی ٹیکس وصول نہیں کرتی۔

جناب قبول کرلیں کہ فروغ تعلیم کے ضمن میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا پاکستان میں بڑااہم رول ہے اس کے بغیر تعلیم کے میدان میں فردِ واحد حکومت کامیاب کبھی نہیں ہوسکتی مگر افسوس اس حقیقت کے روشن ہونے کے باوجود ریگولیٹری سے لے کر سکول کی عمارت کی کمرشلائزیشن تک کوئی ریلیف نام کی کوئی چیز پرائیویٹ سیکٹرکونہیں دی جاتی ایسی صورتحال میں ہم کس طرح دنیا میں راج کرنے کی سوچ رکھتے ہیں۔

ساری صورتحال سے آگاہ ہونے کے بعد گورنرپنجاب نے ادیب جاویدانی کی تعلیمی کاوشوں کو سراہتے ہوئے وفد پرواضح کیاکہ بلاشبہ ملک میں تعلیم کے فروغ میں نجی شعبے کاکردار قابل تعریف ہے اور جو قومیں اس حقیقت سے آشنا ہیں اور اس شعبے کو اہمیت دی وہ آج دنیا میں راج کررہی ہیں۔ لہذا حکومت ہرسطح پر نجی شعبے کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے تعلیم سب کے لئے پالیسی پر گامزن ہے۔ پرائیویٹ سکولز مالکان کے مسائل اور اُن کے حل کے لئے ہرممکن تعاون کی گورنرپنجاب کی طرف سے یقین دہانی کروائی گئی ۔اس ذاتی دلچسپی لینے پرپرائیویٹ سکولز مینجمنٹ ایسوسی ایشن کے وفد نے گورنرپنجاب کاشکریہ اداکیا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :