تیس دن کا لولی پاپ

منگل 4 مارچ 2014

Munawar Ali Shahid

منور علی شاہد

1999کے ماہ اکتوبر میں جس موجودہ حکومت کا بستر گول ہوا تھا وہ حکومت سیاسی طور پر سب سے زیادہ طاقتور حکومت تھی۔ تاریخ کا سب سے بڑا مینڈیٹ اس وقت کی مسلم لیگ ن کی حکومت کو عوام نے دیا تھادو تہائی ا کثر یت تھی لیکن اس کے باوجود حکومت پانچ سال مکمل نہ کر سکی تھی اس کی وجہ بھی سیاسی بلوغت کی کمی اور دور اندیشی کا فقدان تھا اور اب پھر معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کو واپس اقتدار لوٹانے کی بہت جلدی ہے اور واضع ہو رہا ہے کہ اب وہ ایسی سیا سی غلطی کرنی چاہتی ہے کہ جس کے بعد کسی اور پاکستانی اورجمہوری حکومت کاامکان ہی باقی نہ رہے۔

کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے ایک ماہ کی جنگ بندی کے اعلان پر مسلم لیگ ن کے تیسری بار بر سر اقتدار حکومت نے ایک بار پھر گھٹنے ٹیک دیئے اوردہشت گردوں کو ایک اور موقع دے دیا کہ وہ مزید سرکاری اہلکاروں اور پاکستانیوں کے خون کے ساتھ مزید خون کی ہولی کھیل لیں اور بد قسمتی سے ان 23 ایف سی کے اہلکاروں،پشاور کے میجرجہاں زیب اور کراچی کے ایس ایس پی اسلم کی شہادتوں کا بھی سوداکر لیا ہے المیہ یہ ہے کہ گزشتہ ایک ماہ میں سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں نے وہ سرگرمی نہ دکھائی کہ وہ مل کر حکومت کو مجبور کرتے کہ وہ اپریشن فوری شروع کرے لیکن اس کے بل مقابل اندرونی دشمن اور مذہبی جماعتیں خفیہ اور کھل کر جنگ بندی اور حکومت کو پسپائی اختیار کروانے کی کوششوں میں مصروف رہیں اور اس میں وہ کامیاب بھی ہوئیں۔

(جاری ہے)

ایک ماہ کی جنگ بندی کو قبول کرنے کا واضع اور کھلا کھلا مطلب طالبان کی طاقت اوران کے وجود کا اقرار کرنا ہے اور یہی سیاسی غلطی ہے۔ یہاں سے مسلم لیگ کی سیاسی بلوغت کا اندازہ ہوتا ہے۔ چوہدری نثار جو کھیل کھیل رہے ہیں وہ پاکستان اور قوم کے مفاد میں نہیں۔سمیع الحق سعودی عرب سے ڈکٹیشن لے کر وہاں سے ٹیلی فون پر و فاقی وزیر داخلہ کو دیتے ہیں جنہوں نے آئین کا حلف اٹھایا ہے لیکن پاکستان کی بجائے ان کی وفاداری ان لوگوں اور گروپوں کے ساتھ ہے جوپاکستانی اداروں اوراہلکاروں کی گردنیں کاٹ کر ان کے جسموں کی بھی تذلیل کرتے ہیں۔

پیارے ہم و طنوں اور خاص کر پولیس اور قانون نافذ کرنے والے سرکاری اہلکاروں کے اہل خانہ سے شدید ہمدردی ہے کہ جنہوں نے اپنے پیاروں کو اس لئے ان اداروں میں بھرتی کر وایا تھا کہ ملک و قوم کی خدمت کے دوران بوقت ضورت شہادت پائیں لیکن ان حالات میں ان پیاروں کی جانیں بھی جا رہی ہیں اور ان کی شہادتوں کو بھی قبول نہیں کیا جا رہا اور شہادتوں کوسیاسی مفادات اور ذاتی اقتدار کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔

اور سب سے زیادہ مخالفت دیوبند مکتبہ فکر کی جماعتوں کی طرف سے ہے جن کو موجودہ حکومت کی بھر پور سرپرستی حاصل ہے اور ان کا واحد ایجنڈا پاکستان پر قبضہ ہے۔طالبان کی طرف سے ایک ماہ کی جنگ بندی کے نتیجہ میں قوم کو امن کی خوشخبری دینے والے سیاست دان اور جماعتیں احمقوں کی جنت میں بستے ہیں مذہبی جماعتیں، مولوی گذشتہ 65 برسوں سے اپنی حکومت کا خواب دیکھ رہی ہیں جو صرف موجودہ احراری حکومت ہی پورا کر سکتی ہے اور ان کے حامی انسان کش کالم نگار اور انکر پرسن اس انعام کی لالچ میں طالبان کی حمائت کر رہے ہیں کہ ان کے آنے کے بعد وہ انعام و کرام سے نوازے جائیں گے ۔


اپوزیش لیڈر کی طرف سے بار بار ایک بات جو حقیقت پر مبنی ہے کہی جا رہی ہے کہ جناب نواز شریف صاحب آپ طالبان کے حوالے سے فیصلہ لیڈر بن کر کریں نہ کہ وزیر اعظم بن کر۔بہت سنجیدہ اور دور اندیش بیان ہے جو اپوزیشن لیڈر نے دیا ہے۔کاش کہ ایسا ہو جائے لیکن وزیر اعظم کے گرد موجود عقل و فراست سے محروم خوشامدی ان کو وہ فیصلہ کرنے سے روک رہے ہیں جس پر عمل درآمد کے بعد وہ تاریخ میں ہمیشہ کے لئے زندہ رہ جائیں۔

نام تو تاریخ میں بدنامی کے ساتھ بھی موجود رہتا ہے بقول شاعر کے،
بدنام نہ ہونگے تو کیا نام نہ ہو گا
یہی فرق ہوتا ہے لیڈر اور وزیر اعظم کا۔ کہ وہ کونسا راستہ ا ختیار کرتا ہے۔نیلسن منڈیلا ستائیس برس جیل میں رہا اپنی قوم کے لئے ۔آج مرنے کے بعد اس کے مقام و احترام کو دیکھیں۔موجودہ حکومت اگر ا ٹھارہ کروڑ پاکستانیوں اور پاکستا نی فوج کی مر ضی کے خلاف جا کرامن اور خو شحالی کے نام پر طالبان دوستی کا قدم ا ٹھاتی ہے تو پھر اس بات کو تسلیم کر نے میں کوئی عار نہیں ہونا چاہئے کہ ایک منصوبہ بندی کے تحت الیکشن میں حکومتیں بنائی او ر بعد ازاں گرائی جاتی ہیں اسی لئے ہر دور میں عوامی مسائل کو پس پشت ڈالا جاتا رہا ہے اور جاتا ہے۔

کشمیر کا مسئلہ تاحال نہیں کر وایا جا سکا اور اب طالبان کے حوالے سے بھی حکومت سمیت سبھی تمام سیاست دان اور سیاسی جماعتیں گو مگوں کی کیفیت کا شکار ہیں۔موجودہ صورت حال اور تذبذب کی ایک وجہ بیرونی اسلامی حکومتوں کی پاکستانی معاملات میں مداخلت بھی ہے جنہوں نے مشکل وقت میں جان بچائی ہو اب ان کی ماننا بھی پڑے گی اور یہی وہ حالات ہوتے ہیں جو لیڈر بناتے اور پیدا کرتے ہیں دیکھنا یہ ہے کہ آیا نواز شریف لیڈر بنتے ہیں یا کہ وہ آخری تیسرا موقع بھی ضائع کر دیتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :