ذاتی مفادات کا کھیل پھر شروع

اتوار 2 مارچ 2014

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

منتخب ممبران اسمبلی بھی ذاتی مفادات کے کھیل میں لگ گئے۔ خیبرپختونخوامیں پی ٹی آئی کی تبدیلی ذاتی سیاست اور مفادات تلے دبنے لگی۔ عام انتخابات میں ”چینج“ کے نام پر ووٹ دینے والوں کی امیدیں دم توڑنے لگیں۔ مہنگائی اور غربت میں پہلے سے زیادہ اضافہ جبکہ بیروزگاروں کی تعداد بھی سو سے ہزاروں اور ہزاروں سے لاکھوں تک پہنچ گئی۔ ممبران اسمبلی کی ذاتی مفادات اور لالچ کی وجہ سے سرکاری اداروں سے سیاسی مداخلت کا خاتمہ بھی نہ ہو سکا۔ سیاسی اثر و رسوخ پر ایماندار اور فرض شناس آفیسروں کو کھڈے لائن لگانے کا سلسلہ سابق ادوار کی طرح زور و شور سے جاری۔ہریپور سے کوہستان تک ہزارہ کے عوام نے تبدیلی کے نام پر برسر اقتدار آنے والی پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت سے جو امیدیں وابستہ کی تھیں وہ ہزارہ کے نااہل اور مفاد پرست منتخب ممبران اسمبلی کی وجہ سے اب آہستہ آہستہ دم توڑنے لگی ہیں۔

(جاری ہے)

ہزارہ کے عوام نے پی ٹی آئی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں م کے امیدواروں کو ووٹ دے کر اس لئے منتخب کیا تھا کہ ان کے مسائل حل ہو سکیں گے۔ لیکن ایسا اب ممکن دکھائی نہیں دے رہا۔ کیونکہ ممبران اسمبلی کے پاس اب انہی عوام کیلئے کوئی ٹائم نہیں، اس وقت تمام ممبران اسمبلی نے پبلک ڈے کے ذریعہ ”ٹھپہ لگاؤ، جان چھڑاؤ“ کا فارمولا اپنایا ہوا ہے۔ جو اب زیادہ دیر کارگر ثابت ہونے والا نہیں کیونکہ ممبران اسمبلی پبلک ڈے کے موقع پر تمام مریضوں کو ایک ہی دوادے رہے ہیں۔مہنگائی ،عربت ، بیروزگاری کا مسئلہ ہو، پولیس و ڈاکٹروں کی شکایت کا رونا ہو یا پھر دیگر کوئی مسئلہ ممبران اسمبلی تمام مسئلوں کو اپنے سائن اور مہر سے ایک ہی لمحے میں ہوائی طور پر حل کررہے ہیں۔ پبلک ڈے پر جانے اور منتخب ممبران اسمبلی تک اپنی آواز اور مسائل پہنچانے والوں کے کہاں تک کام ہوتے ہیں اس کا اندازہ لگانا ہرگز مشکل نہیں ۔کیونکہ موجودہ دور حکومت میں مہنگائی غربت و بیروزگاری کے ساتھ ساتھ دیگر عوامی مسائل میں بھی حد سے زیادہ اضافہ ہو گیا ہے جس سے یہ اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ موجودہ ممبران اسمبلی نے پبلک ڈے کے ذریعے کتنے تیر مارے ہیں۔ ہریپور سے کوہستان تک ہزارہ کے تمام اضلاع میں آج بھی ہزاروں نوجوان ڈگریاں ہاتھ میں لئے روزگار کیلئے ممبران اسمبلی سمیت ہر در پر دستک دے رہے ہیں لیکن ان کو کوئی امید کی کرن نظر نہیں آرہی کیونکہ پی ٹی آئی کا میرٹ بھی سونامی میں غرق ہو چکا ہے کسی سرکاری محکمے میں اگر کوئی آسامی خالی ہوتی ہے تو منتخب ممبران اسمبلی سب سے پہلے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے ان پر اپنے ہی لوگ بھرتی کر دیتے ہیں اگر کسی ادارے کا افسر اے سی ایبٹ آباد اسامہ وڑائچ اور سابق ڈی پی او مانسہرہ عبدالغفور آفریدی جیسا کوئی ایماندار اور سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری جیسا جرأت انکار کا حامل ہو تو اسے راستے سے ہٹانے کے لئے کوئی بھی قدم اٹھانے سے گریز نہیں کیا جاتا۔ اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت نے برسر اقتدار آنے کے بعد صوبے میں تھوڑی نہیں بڑی تبدیلی لائی ہے ،کرپشن اور لوٹ مار کے کئی دروازے بند ہو چکے ہیں اور غریبوں و مظلوموں کو انصاف ملنے لگا ہے ۔لیکن ایک بات معذرت کے ساتھ کہ مفاد پرست ممبران اسمبلی کی وجہ سے پہلے کی طرح آج بھی ایماندار افسروں کو عزت بچانے کی فکر لاحق ہے۔ سرکاری اداروں کے سربراہان کے گلے سے جب تک غلامی کا سیاسی طوق اتارا نہیں جاتااس وقت تک میرٹ کی بالادستی قائم نہیں ہو سکتی اور اسی طرح جب تک ممبران اسمبلی چاہے ان کا تعلق پی ٹی آئی سے ہو یا مسلم لیگ ن یا پھر کسی اور جماعت سے ۔وہ جب تک ذاتی مفادات کا کھیل کھیلنا بند نہیں کرتے اس وقت تک ہزارہ کے عوام کے مسائل حل نہیں ہو سکتے اورنہ ہی حقیقی معنوں میں تبدیلی آسکتی ہے۔ کیونکہ اگر منتخب ممبران اسمبلی کی سیاست اگر ذاتی مفادات کے گرد ہی گھومتی رہے گی تو پھر عوامی حقوق کا تحفظ کون کرے گا۔۔۔۔؟ اگر سرکاری اداروں میں ممبران اسمبلی کے لوگ اور چہیتے ہی بھرتی ہوں گے تو پھر بیروزگاری کا خاتمہ کیسے ہوگا۔۔؟ ممبران اسمبلی کو ایک بات یاد رکھنی چاہیے کہ قریبی رشتہ دار اور چہیتوں سے ان کے لئے ایک ووٹ دینے والا غریب زیادہ اہم ہے۔ دنیا میں غریب ووٹر کا حق مارنے والے ممبران اسمبلی کل قیامت کو اللہ کے سامنے کیا جواب دیں گے۔۔؟ اس بارے میں ہزارہ کے تمام ممبران اسمبلی کو ٹھنڈے دل سے سوچنا چاہیے۔ ادھر بلدیاتی انتخابات کے لئے بھی نظریاتی کارکنوں اورعہدیداروں کو نظرانداز کرکے من پسندافراد اور قریبی رشتہ داروں کو آگے لانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں جو کسی ظلم سے کم نہیں۔ کیا سیاست کرنا صرف امیروں کا حق ہے، کیا غریب لوگ صرف سیاسی پارٹیوں کے کارکن اور وہ دوسروں کو اقتدار تک پہنچانے کیلئے ہمیشہ سیڑھی کا کردارہی ادا کرتے رہیں گے۔۔؟ حکمران جماعت تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو بلدیاتی انتخابات کیلئے ٹکٹوں کی تقسیم میں میرٹ کو زندہ رکھنا ہوگا ورنہ پھر ان سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں شکست اور بکھرنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہزارہ کے سیاستدان اور ممبران اسمبلی بھی ہوش کے ناخن لے کر ہزارہ کی تعمیر و ترقی کیلئے غریب طبقے کو سیڑھی سمجھنے کی بجائے سہارا دیں۔تاکہ ہزارہ بھی ترقی کی راہ پرگامزن اوریہاں کے غریب عوام بھی خوشحال زندگی بسرکرسکیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :