شراب، چرس اور لڑکیاں!

اتوار 2 مارچ 2014

Nabi Baig Younas

نبی بیگ یونس

جیو نیوز کے پروگرام جرگہ کے سینئر پروڈیوسراور میرے دوست خالد عمر رکن قومی اسمبلی جمشید دستی کو پک کرنے کیلئے قومی اسمبلی پہنچے تو جمشید دستی پارلیمنٹ لاجز کے پاس پہلے سے موجود میڈیا سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو شراب کی بہت ساری بوتلیں اکھٹا کر کے دکھا رہے تھے۔ خالد عمر چونکہ بہت شارپ ہیں اور پیشے کے اعتبار سے تجربہ کار اور انہوں نے موقع کو غنیمت جان کر ایک بوری کا بھی فوری طور پر بندوبست کرلیا اور شراب کی خالی بوتلیں بوری میں ڈالنے لگے۔ کیا کر رہے ہو خالد صاحب، جمشید دستی نے پوچھا۔ سر جو آپ میڈیاکو ادھر دکھا رہے ہیں آپ یہ ہمارے اسٹوڈیو میں بھی دکھا سکتے ہیں۔ بوری میں ڈالنے اور اسٹوڈیو تک پہنچانے کی زحمت میں خود اٹھاؤں گا، خالد صاحب نے مسکراتے ہوئے جواب دیا اور بوتلیں بوری میں ڈالتے گئے۔

(جاری ہے)

اس کے بعد جمشید دستی صاحب نے خود بھی خالد کی مدد کی اور بوری کو بوتلوں سے بھر دیا۔ خالد صاحب نے خالی شراب کی بوتلوں سے بھری بوری گاڑی کی پچھلی سیٹ پر رڈال دی اور جمشید صاحب کو گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بٹھا کر جرگہ پروگرام میں مہمان بنانے کیلئے پروگرام کے میزبان سلیم صافی کے پاس لے آئے اور یوں پروگرام شروع ہوا تو جمشید دستی صاحب نے اپنے منفرد انداز میں عوامی ووٹوں کے ذریعے پارلیمنٹ تک پہنچنے والے ارکان قومی اسمبلی کے کارنامے بیان کرنا شروع کردیئے۔

جمشید دستی نے ایک روز قبل ہی قومی اسمبلی میں ایک ایسا انکشاف کیا تھاجس سے پوری قوم ششدر ہوکررہ گئی۔ جمشید دستی نے سپیکر سے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ قومی اسمبلی لاجز میں نہ صرف شراب اور چرس کا استعمال ہورہا ہے بلکہ مجرے بھی ہوتے ہیں اور باہرسے لڑکیاں بھی یہاں راتیں گزارنے آتی ہیں۔ اگرچہ اسپیکر صاحب نے جمشید دستی کا مائیک بند کروادیا لیکن اس وقت تک وہ بہت کچھ کہہ چکے تھے۔ اسی شام کو دستی صاحب نے ایک ٹی وی پروگرام میں کہا کہ ایسی سرگرمیوں میں ملوث ارکان قومی اسمبلی کی تعداد بہت زیادہ ہے اور ایسی منفی سرگرمیاں یہاں معمول کا کام ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے پاس بہت سارے ثبوت بھی ہیں جن میں ویڈیو ریکارڈنگ بھی شامل ہے۔
جمشید دستی صاحب کے دل کو ہلا دینے والے انکشافات ایک ایسے وقت پر سامنے آئے جب صرف ایک روز قبل ہی وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے قومی سلامتی پالیسی کا مسودہ پارلیمنٹ میں پیش کیا تھا تو وزیر اعظم نے اس کے فوراً بعد انکی کاوشوں کو خوب سراہا اور کہا کہ چند ماہ میں وزیرداخلہ اور انکی ٹیم نے ایک بہت بڑا کام سرانجام دیا۔ وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ قومی سلامتی پالیسی پر حکومت میں کوئی کنفیوژن نہیں۔ بھئی! حکومت میں کنفیوژن ہو یا نہیں،لیکن یہ پالیسی خود ایک کنفیوژن کا پلندا ہے، باقی رہے پاکستانی عوام انہوں نے توحکومتی کاموں پر سوچنا ہی چھوڑ دیا ہے، وہ اگر سوچ رہے ہیں تو صرف اس پر کہ دو وقت کی روٹی کیسے پوری کی جائے؟ محدود وسائل میں یوٹیلٹی بل ، گھر کا کرایہ اور دیگر اخراجات کیسے پورے کئے جائیں؟ اگر کوئی اور مصیبت آن پڑی تو اس کے خرچے کہاں سے آئیں گے؟ وزیر اعظم ، وفاقی وزیر داخلہ اور انکی ٹیم کو معلوم ہے کہ عام لوگوں کو کیا پتہ کہ یہ پالیسی کیا ہے، اور 94صفحات پر مشتمل جو انگریزی لکھی گئی ہے اس میں کیا کچھکہا گیا ہے! پوری قوم تو پہلے ہی کنفیوژن کا شکار ہے اور روز مرہ کے واقعات اسے مزید کنفیوژن کے گہرے بادلوں میں دھکیل دے رہے ہیں۔ دہشت گردی، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری، مخدوش معاشی حالات، بے یقینی کی صورتحال اس سے بڑھکر جان اور مال کے عدم تحفظ جیسے مسائل نے لوگوں کو پریشان کر کے رکھ دیا ہے۔ ایسے حالات میں جب قومی سلامتی پالیسی کے بل کا مسودہ پیش کیا جائے تولوگ ایسی پالیسی کو مذاق سمجھنے میں حق بجانب ہیں۔
چوہدری نثار علی خان نے پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے یہ انکشاف بھی کیا کہ امریکہ کے بعد پاکستان میں سب سے زیادہ 26انٹیلی جنس ادارے
ہیں لیکن ان اداروں کے درمیان رابطے کا فقدان ہے۔ بدقسمتی کی انتہا دیکھئے کہ ہمارے حکمرانوں کو پاکستان بننے کے67سال بعد اور دہشت گردی میں پچاس ہزار سے زائد افراد کے قتل کے بعد پتہ چلا کہ ہمارے انٹیلی جنس اداروں کے درمیان رابطے کا فقدان ہے، صرف اتنا ہی نہیں اب ریپڈ رسپانس فورس بھی تشکیل دی جارہی ہے۔ جناب والا! پاکستان میں پہلے سے ہی اتنی زیادہ فورسز ہیں تو کیا وہ ریپڈ نہیں ہیں۔اگر وہ ریپڈ کے بجائے سست ہیں تو ان سب کو گھر کیوں نہیں بھیج دیاجاتا ؟
ہاں! ایسے ارکان قومی اسمبلی کو قومی خزانے یا ملکی مسائل سے کیا دلچسپی ہوگی جن کا اپنا ایک ساتھی سرعام یہ کہتا ہے کہ قومی اسمبلی کے لاجز میں تو شراب اور چرس کا کثرت سے استعمال ہوتا ہے اور بعض قومی اسمبلی ارکان کے کمروں میں مجرے ہوتے ہیں۔ بھئی، یہ ارکان جمشید دستی کے الزامات کو کیسے مسترد کرسکتے ہیں، شراب کی یہ ڈھیروں بوتلیں پارلیمنٹ لاجز کے سامنے کوئی عام آدمی تو پھنک کر نہیں جاسکتا۔ یہ تو ان لوگوں کا ہی کام ہے جو ادھر رہتے ہیں۔ قومی اسمبلی کے کتنے ارکان غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہیں ، کتنے چور اور کتنے پیر ہیں، یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے، لیکن میں یہ بات وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ جس قوم کے نمائندے شراب، چرس اور لڑکیوں میں کھوئے رہتے ہوں وہ قوم کبھی ترقی نہیں کرسکتی۔اگر بات بری لگے تو معاف کرنا، میراعلم اور میرا ضمیر تو اسی بات کی صدا دے رہا ہے!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :