قوم کو یکسو ہو کر اب اس امتحان سے گزرنا ہی ہو گا

ہفتہ 1 مارچ 2014

Younas Majaz

یونس مجاز

صاحبو ! امریکہ جا رہا ہے مگر اپنی آگ پاکستان کی جھولی میں ڈال کر ، جس کو نہ چاہتے ہوئے بھی امریکی ڈالروں کے رسیا پاکستانی حکمرانوں نے بالا آخر پاکستان کی جنگ بنا ہی ڈالا یہی وجہ ہے کہ اس جنگ میں فائدہ حکمرانوں کا نقصان پاکستان کا ہوا جس کا خمیازہ عوام نے بھگتا اور آنے والے کئی برسوں تک بھگتے گی طالبان کے ساتھ سوات کی طرح امن مزاکرات کی بیل منڈے چڑھی تھی نہ چڑھے گی تب اگر معائدے کا سر خیل فضل ا للہ تھا تو آج بھی ڈور فضل اللہ کے ہاتھ میں ہے جو اس وقت بھی امریکی پشت پناہی سے افغان انٹیلی جنٹ اور بھارت کی را کا مہرہ تھا وہ آج بھی امریکہ کی پشت پناہی سے افغان حکومت کی میزبانی کے مزے لوٹ رہا ہے جس کی ڈور بھارت کے ہاتھ میں ہے سوات میں امریکہ اور عالمی منصوبہ سازوں کو اگر پاک آرمی کا امتحان مطلوب تھا تو شمالی وزیرستان میں بھی پاک آرمی کو ایک منظم منصوبہ کے تحت کڑے امتحان سے دوچارکر دیا گیا ہے” شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن “ کی داعی پاک فوج سوات میں بھی سرخرو ہوئی تھی اور فضل اللہ بھاگ کر اپنے آقاوٴں کے چرنوں جا بیٹھا تھا اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج وزیر ستا ن میں بھی کامیابی ان کے قدم چومے گی اصل امتحان قوم کی یکسوئی کا ہے جو دو انتہاوٴں میں کنفیوژ ہوئی بیٹھی ہے ایک طرف مذہبی شدت پسندوں کی حمایت میں مذہبی جماعتیں خم ٹھونک کے کھڑی ہیں جو ووٹ کے ذریعے اسلام لانے سے مایوس ہو کر شدت پسندوں کے بلٹ پرو اسلام کو ہی اپنی خواہش کی تکمیل کا ذریعہ سمجھنے لگی ہیں اور عوام میں مزید اپنی ساکھ کھو بیٹھی ہیں عوامی رائے تقسیم کرنے پہ تلی ہیں حالانکہ ان کی آنکھیں کھولنے اورمذاکرات کو سبو تاژ کرنیکے لئے مذاکرات کے دوران کراچی میں 13پولیس اہلکاروں کی شہادت پر طالبان کی ذمہ داری قبول کرنا ہی کافی تھا چہ جائے کہ ایف سی کے 23 اہلکاروں کو شہید کر کے پھر اس پر اترایا گیا جس پر مذہبی جماعتوں کو طالبان کی حمایت سے اٹھا لینا چائیے تھا اوپر سے طالبان نے اس آئین کو غیر اسلامی قرار دے دیا جس پر ان مذہبی جماعتوں کے پیشواوٴں کے دستخط موجود ہیں اور مولانا عبد العزیز کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے قرآن و سنت کی آڑ لے لی جس کے تحت ایک بے گناہ کو قتل کرنا پوری انسانیت کے مترادف ہے چہ جائے کہ چالیس ہزار بے گناہ معصوم پاکستانیوں کو خون میں نہلا دیا گیا مسجدوں کو بخشا گیا نہ مزاروں کو بازاروں کو چھوڑا گیا نہ گوردواروں کو کیا یہی ان کا اسلام ہے خدا یسی بینائی نہ دے ،،،کہ اپنے سوا کوئی دکھائی نہ دے ،راقم نے ہمیشہ جماعت اسلامی کو اس کی حب الوطنی اور اسلام پسندی و منظم ہونے کی وجہ سے قدر کی نگاہ سے دیکھا لیکن ان کے امیر منور حسن کے متنازعہ موقف اور جماعت کی حالیہ پالیسی نے جہاں مجھ جیسوں کو مایوس کیا ہے وہاں جماعت نے اپنی رہی سہی ساکھ بھی داوٴ پر لگا دی ہے جس کا مداوا شائد ہی ممکن ہو ،دوسری جانب امریکی ڈالروں کے پروردہ لبرل فسادی قوم کے سامنے اپنا فلسفہ جھاڑ کر شکو ک و شبہات پیدا کر رہے ہیں عوام اسے امریکی جنگ سمجھ کر (جو کبھی تھی ) طالبان اور مذہبی جماعتوں کی طرف دیکھنے لگ جاتے ہیں بظاہر دونوں طرف کے موقف اور دلائل اتنے جاندار ہیں کہ عام آدمی کی کنفیوژن انتہا کو چھونے لگتی ہے دونوں طرف اپنے اپنے اہجنڈے ہیں اپنے اپنے مفادات ، ایسے میں درمیانی راستہ قوم کی اشد ضرورت بن کر سامنے آیا ہے کہ سانپ بھی مر جائے اور سوٹی چھل جائے مگر ٹوٹنے نہ پائے ، دو انتہاوٴں کے اس نقار خانے میں عمران خان کی آواز بھلی معلوم ہوتی ہے مذاکرات کا ڈھول اس وقت تک ڈالے رکھو جب تک مذاکرات کے حامی اور مخالف طالبان کی نشاندھی نہیں ہو جاتی سو حکومت نے بھی اس پالیسی کو اپنا کر اچھا کیا ہے جو لڑے گا اس کے ساتھ لڑو جو بات کرے اس کے ساتھ بات کرو حالیہ فضائی کاروایوں نے جہاں لبرل فسادیوں کو شادیانے بجانے کا موقع فراہم کیا کہ وہ جو کہتے تھے سچ وہی ہے ،وہاں اس نسخہ سے امریکی ایجنڈے کے حامل طالبان کی بیماری میں بھی کچھ افاقہ ہوا ہے
صاحبو ! میں نے قبل ازیں اپنے کالم ”فضل اللہ کی انٹری گریٹ گیم کا حصہ “ میں لکھا تھا ”حکیم اللہ محسود کی ڈراوٴن حملے میں اس وقت ہلاکت جب حکومت پاکستان کی طرف سے مبینہ طور پر مذاکرات کے لئے تین رکنی وفد کی روانگی کی تیاریاں آخری مراحل میں تھیں جہاں امریکہ کی منافقت اور پاکستان کے خلاف دوستی کی آڑ میں دشمنی کو واضح کر دیا ہے وہاں طالبان پاکستان کے نئے امیر ملا فضل اللہ اور نائب امیرشیخ خالد حقانی کے چناوٴنے طالبان ،امریکہ افغانستان اور بھارت کے آئندہ لائحہ عمل کو واضح کر دیا تھا پہلی بار طالبان قیادت قبائلی علاقوں سے نکل کر پاکستان کے سیٹل علاقوں کے رہائشی طالبان کے ہاتھوں میں منتقل ہو ئی اور یہ وہ طالبان رہنما ہیں جو پاکستان اور مذاکرات کے مخالف ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستانی فوج دفاعی اثاثوں اور اہم تنصیبات کو نقصان پہنچا نے کا نہ صرف برملا اعتراف کرتے چلے آرہے ہیں بلکہ منتخب ہوتے ہی جہاں مجلس شوریٰ سے مذاکرات نہ کرنے کا فیصلہ لے لیا گیا تھا وہاں فضل اللہ قبل ازیں اپنے ایک انٹرویو میں اس بات کا عندیہ بھی دے چکے ہیں کہ ان کا اگلا ٹارگٹ آرمی چیف اور کور کمانڈر پشاور ہیں غیر ملکی ایجنڈے پر گامزن ملا فضل اللہ کی کنٹر میں موجودگی اور امریکہ کی پناہ میں مولوی فضل اللہ کی امارت کیا معنی رکھتی ہے جبکہ حکومت پاکستان اور عسکری قیادت فضل اللہ کی حوالگی کے لئے افغان حکومت اور امریکہ سے متعدد بار مطالبہ بھی کر چکی ہے راقم نے ان ہی کالموں میں متعدد بار کہا ہے کہ پاکستانی طالبان کے پیچھے افغان خفیہ ایجنسی جو انڈیا کی را کے زیر اثر ہے سمیت امریکہ کا ہاتھ ہے نیک محمد ،بیت اللہ محسود،ولی الرحمان اور اب حکیم اللہ محسود کی ڈراوٴن حملہ کے نتیجہ میں ہلاکت کے بعد ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت پاکستانی طالبان کی سربراہی ملا فضل اللہ کو سونپنا اس حقیقت کو آشکار کرنے کے لئے کافی ہے ،سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ اگر امریکہ پاکستانی طالبان کی سر پرستی کر رہا ہے تو پھر اسے طالبان کمانڈروں کو ڈراوٴن حملوں میں ہلاک کرنے کی کیا ضرورت تھی ،جی ہاں ! اس کا جواب بڑا آسان ہے کیونکہ وزیر ستان میں طالبان کی اکثریت اور قیادت محسود قبائل کے ہاتھ میں تھی جنھیں امریکہ کی واپسی کے اعلان کے ساتھ ہی اس بات کو سمجھنے میں ذرا دیر نہ لگی کہ امریکہ ڈبل گیم کر کے اپنا مطلب نکال رہا ہے سو انھوں نے امریکہ کی ہاں میں ہاں ملانے کے بجائے حکومت پاکستان کے ساتھ مذاکرات کو ہی اپنے لئے محفوظ راستہ خیال کیا لیکن جب بھی جس کمانڈر نے نے مذاکرات کے لئے حامی بھری امریکہ نے سازش کر کے ڈراوٴن حملوں کے ذریعے اسے ختم کر دیا وہ یہ نہیں چاہتا تھا کہ پاکستان کے ساتھ بر سر پیکار شدت پسند فارغ ہو کر افغانستان کی طرف متوجہ ہو جائیں اور اس کی افغانستان سے محفوظ واپسی خواب بن کر رہ جائے سو اب کی بار اس نے ذرا مضبوط اور محتاط چال چلتے ہوئے طالبان کی قیادت ہی اپنے ہاتھ میں رکھ لی کیونکہ فضل اللہ افغانستاں میں بطاہر افغان خفیہ ایجنسی کی حراست میں ہے لطیف اللہ محسود کی گرفتاری بھی اسی منصوبے کا حصہ تھی لیکن بیل منڈے نہ چڑھتی دیکھ کر حکیم اللہ محسود کو ڈراوٴن حملہ کے ذریعے ہلاک کر کے طالبان کی قیادت ہی یرغمال بنا لی ، لطیف اللہ محسود کو بطور ضمانت رکھ کر امریکہ نے سید خالد سجنا سمیت محسود قبائل کو امارت سے ہاتھ دھونے کے ساتھ ساتھ چپ سادھنے پر مجبور کر دیا یہ خاموشی کب ٹوٹتی ہے؟ اس کا جواب تا حال مطلوب ہے ،کیونکہ محسود قبائل زیادہ دیر تک خاموش نہیں رہیں گے امریکہ نے جہاں پہلی ترجیح کے طور پر نیٹو سپلائی کی محفوظ واپسی کو یقینی بنا لیا ہے اب طالبان اس کے کنٹینروں کو نقصان نہیں پہنچا سکیں گے ؟ وہاں پاکستان کے اس مطالبے کو بھی پذیرائی بخشنے کی پوزیشن میں آگیا ہے کہ ڈراوٴن حملے بند کئے جائیں،یعنی فضل اللہ کا مہرہ ہاتھ آنے سے اسے خر اور خصم دونوں کو راضی رکھنے کو موقع مل گیا ہے“ یہی وجہ ہے حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد سے اب تک کوئی ڈرون حملہ نہیں ہوا ماسوائے ہنگو میں حقانی نیٹ ورک پر حملہ کے ، میں نے آگے چل کر یہ بھی لکھا تھا،امریکہ کی واپسی تک کے درمیانی عرصہ میں جہاں پاکستان کے لئے نرم گرم صورت حال رہے گی وہاں فضل اللہ کی امارت میں طالبان کی عسکری طاقت کو مضبوط بنایا جانے کے ساتھ ساتھ پاکستان اور طالبان کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کر کے مذید بڑھاوا دیا جائے گاتا کہ امریکہ کی واپسی کے بعد عراق، افغانستان، لیبا ،شام اور مصر کی طرح پاکستانی بھی ایک دوسرے کو مار مار کر اس نہج پر پہنچ جائیں تا وقتکہ امریکہ کو اپنے حواریوں سمیت پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر قبضہ کرنے کا موقع مل جائے،اور پھر نہ طالبان محفوط رہیں گے نہ پاکستان کیونکہ امریکہ کا ریکارڈ تو یہی بتا تا ہے ، ، اس سارے قضیہ میں ایک بات طے ہے امریکہ پاک فوج کو اس نج پر لے آیا ہے جہاں وہ چاہتا تھا اور یہ وہ امتحان ہے جس ے نبرد آزما ہو نا پاک فوج کا مقدر ٹھہر گیا ہے پاک فوج کو یہاں تک لانے میں جہاں امریکی سازشوں نے کام دکھایا ہے وہاں اس جال میں پھنسانے کے لئے ہوس کے پجاری حکمرانوں کا بھی پو را پورا ہاتھ ہے سو اب قوم کو یکسو ہو کر اس امتحان سے گزرنا ہی ہو گا
نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جس جنگ کا آغاز امریکہ نے نائن الیون کے پری پلین منصوبے سے کیا تھا لیکن انجام اس کی مرضی کے مطابق نہیں ہو رہا اس کے اپنے ہی مہرے اس کا ساتھ چھوڑتے چلے جارہے ہیں کرزئی کو ہی لے لیں امریکی آشیر باد کے بل پوتے پر دوبار منتخب ہونے اور افغانستان میں سیاہ سفید کا مالک رہنے کے باوجود کرزئی امریکہ کے ساتھ ا س معائدے پر دستخط کرنے کو تیار نہیں جس کے تحت نیٹو افواج کے جانے کے بعد امریکہ مزید ایک عرصہ تک ایک مخصوص تعداد میں اپنی فوج افغانستان میں رکھ سکے گا امریکی سپورٹ کے باوجود کرزئی کو نیٹو کی واپسی پر پانی میں جو چھری دکھائی دے رہی ہے اس بارِ گراں کو کرزئی کے بعد آنے والا بھی اٹھانے کی ہمت نہیں کر سکے گا سو جنجھلاہٹ میں یا دکھاوے کے نخرے میں اوباما کہہ رہے ہیں کہ کرزئی نے دستخط نہ کیے تو امریکہ افغانستان سے اپنی فوجیں مکمل طور پر نکال لے گا ؟”کم خس جہاں پاک “حالاں کہ کوئی ان سے پوچھے جا نا ہی تھا تو آنے کا شوق کس گمنڈ میں پالا تھا اپنی مٹی بھی پلیت کی جو پہلے ہی کیچڑ بنی ہوئی تھی اوروں کو بھی رسوایوں کی دلدل میں دھکیل دیا ان رسوایوں کے باوجود یہ خس اتنی آسانی سے نہیں نکلے گا کیو نکہ امریکہ کی اسپیشل آپریشنز کمانڈ ز نے افغانستان سے مکمل امخلا خطرناک قرار دے دیا ہے سو افغا نستان میں موجودگی کے لئے کوئی بہانہ تراش ہی لیا جائے گا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :