مذاکرات کہانی

جمعہ 28 فروری 2014

Molana Shafi Chitrali

مولانا شفیع چترالی

حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے دوبارہ آغاز پر تمام قومی حلقوں میں اطمینان اور مسرت کا اظہار کیا جارہا تھا اور توقع ظاہر کی جاری تھی کہ مذاکرات کے نتیجے میں ملک میں امن واستحکام کے قیام کی راہ ہموار ہوگی اور بدامنی اور انتشار کے اس فتنے کا خاتمہ ہوجائے گا جس میں وطن عزیز گزشتہ ایک عشرے سے مبتلا ہے۔ بہت سے قومی حلقے ان مذاکرات کے نتیجے میں ملک میں شرعی قوانین کے نفاذ کی امید بھی ظاہر کررہے تھے جوکہ پاکستان کے عوام کی غالب اکثریت کا ایک دیرینہ مطالبہ ہے مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔

معلوم ہوا کہ یہاں ساری کہانی ہی اور کچھ اور ہے۔
مذاکرات کے عمل کا باقاعدہ آغاز ہوا اور حکومتی وطالبان کمیٹیوں کے درمیان باضابطہ ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا تو ایک عمومی توقع یہ ظاہر کی جارہی تھی کہ دونوں فریق پہلے مرحلے میں جنگ بندی کا اعلان کریں گے۔

(جاری ہے)

اس حوالے سے مذاکراتی کمیٹیوں کا دارالعلوم حقانیہ میں ہونے والا دوسرا اجلاس بہت اہم تھا اور خود دونوں کمیٹیوں کے ارکان کی جانب سے اس اجلاس میں جنگ بندی کے مشترکہ اعلان کا عندیہ دیا گیا تھا۔

مگر اس دوران ایک دن پہلے کراچی میں پولیس اہلکاروں پر حملے کا واقعہ پیش آیا اور پھر مذاکراتی کمیٹیوں کے اجلاس سے صرف ایک روز قبل مہمند میں ایف سی اہلکاروں کے قتل کی لرزہ خیز ویڈیو منظرعام پر آگئی اور حیرت انگیز طور پر تحریک طالبان کی جانب سے دونوں واقعات کی ذمہ داری بھی قبول کرلی گئی اور اس کا یہ جواز بتایا گیا کہ چونکہ ریاستی اداروں کی جانب سے ان کے ساتھیوں کو جیلوں سے نکال کر مارا جارہا ہے، اس لیے یہ کارروائیاں ردّعمل کے طور پر کی گئی ہیں۔

ان واقعات کو جواز بناکر حکومت نے مذاکرات کے عمل سے ہاتھ کھینچ لیا اور قبائلی علاقوں میں جوابی کارروائیوں کا آغاز ہوگیا۔
اگر واقعات کی ترتیب پر غور کیا جائے تو مہمند میں ایف سی اہلکاروں کے قتل کے واقعے نے حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کو سبوتاژ کرنے میں بالکل وہی کردار ادا کیا جو اس سے قبل شروع ہونے والے مذاکراتی عمل کو ختم کرنے میں حکیم اللہ محسود پر ہونے والے ڈرون حملے نے کیا تھا۔

یہاں اگر یوں کہا جائے کہ مذاکرات کے عمل کے موجودہ تعطل کی کہانی اسی واقعے کے گرد گھومتی ہے تو شاید بے جا نہ ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کارروائی نے نہ صرف طالبان کی مذاکراتی کمیٹی بلکہ خود طالبان کی مرکزی قیادت کو بھی ایک طرح سے آزمائش میں ڈال دیا۔ اس واقعے پر طالبان کے مرکزی ترجمان شاہداللہ شاہد کے بیان سے یہ امر واضح ہوا تھا کہ اس واردات کے منصوبے کا طالبان کی مرکزی قیادت کو بھی پیشگی علم نہیں تھا۔

شاہد اللہ شاہد نے کہا ”ہم مہمند کے ساتھیوں سے رابطہ کررہے ہیں۔“اس کا مطلب یہ ہے کہ اس حوالے سے کوئی رابطہ موجود نہیں تھا۔یہاں یہ سوال بہت اہم ہے کہ پھر کیا وجہ ہے کہ تحریک طالبان نے اس واقعے سے لاتعلقی کا اظہار نہیں کیا؟ حکمت کا تقاضا تو یہی تھا کہ حکومت سے مذاکرات کرنے والی طالبان قیادت اس واقعے کی مذمت کرکے حکومت کو مذاکراتی عمل سے نکلنے کا جواز فراہم نہ کرتی ،مگر طالبان کے نام پر کارروائیاں کرنے والے مختلف گروپوں کا باہمی تعامل ہی شاید کچھ اس انداز کا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے زیادہ اختلاف یا تصادم کا خطرہ نہیں مول لے سکتے اور یہی وہ نکتہ یا کمزوری ہے جس سے خطے میں سرگرم طاقتیں فائدہ اٹھا رہی ہیں اور انہوں نے اس سے بھرپور فائدہ اٹھا بھی لیا ہے۔


غور کرنے کی بات یہ ہے کہ ایف سی اہلکاروں کے قتل کے واقعے کے بارے میں اچانک ایک ویڈیو سامنے آگئی، بالکل ایسے ہی جیسے سوات آپریشن سے کچھ عرصہ قبل ایک لڑکی کو کوڑے مارنے کی ویڈیو سامنے لائی گئی تھی، چناں چہ حالیہ ویڈیو نے بھی اسی طرح طالبان کے خلاف آپریشن کے لیے رائے عامہ ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کیا جس طرح سوات والی ویڈیو نے کیا تھا۔

نہایت حیرت انگیز امر یہ ہے کہ تازہ ویڈیو کے بارے میں بھی کسی کو معلوم نہیں ہے کہ یہ کب اور کہاں بنائی گئی؟ ایف سی اہلکاروں کو کہاں قتل کیا گیا اور کہاں دفنایا گیا؟اس ویڈیو میں جو مناظر دکھائے گئے ہیں اسلام اور جہاد کے بنیادی احکام سے واقف کوئی بھی مسلمان یہ تسلیم نہیں کرسکتا کہ یہ کسی حقیقی جہادی گروپ کی کارروائی ہوسکتی ہے۔ پھر اس ویڈیو کو منظرعام پر لانے کی ٹائمنگ سے ادنیٰ شعور رکھنے والا شخص بھی بآسانی یہ نتیجہ نکال سکتا ہے کہ یہ سیدھی سیدھی مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرنے کی واردات ہے۔

اگر یہ اطلاع درست ہے کہ ایف سی اہلکاروں کے قتل کا واقعہ افغانستان میں پیش آیا تو اس سے یہ شک مزید پختہ ہوجاتا ہے کہ یہ ایک بڑی سازش کا حصہ ہے۔
اس کے باوجود تحریک طالبان کی جانب سے مذکورہ واردات سے اظہارِ لاتعلقی سامنے نہ آنے کے باعث ایک طرح سے پورا منظرنامہ ہی تبدیل ہوکر رہ گیا۔ اور اس کے نتیجے میں وہ جماعتیں اور میڈیا میں موجود چند افراد بھی سخت دفاعی پوزیشن میں جانے پر مجبور ہوئے جو اس سے قبل طالبان کے خلاف آپریشن کے سخت مخالف تھے۔

اس سے ایک عام آدمی کو یہ تاثر ملا کہ طالبان کے بعض گروپ بھی اس گریٹ گیم میں دانستہ یا نادانستہ طور پر استعمال ہورہے ہیں جو پاکستان کے خلاف خطے میں جاری ہے۔ اس پس منظر میں تحریک طالبان کو خود اپنی صفوں کا جائزہ لے کر ایسے عناصر سے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرنا چاہیے جو خطے میں سرگرم عالمی طاقتوں کے ہاتھوں کھیل رہے ہیں۔
ہمیں اس حقیقت کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے کہ اس وقت پاکستان کے قبائلی علاقوں میں انٹیلی جنس کی ایک جنگ چل رہی ہے جس میں دنیا کی بہترین انٹیلی جنس ایجنسیاں اور کم ازکم ایک درجن کے قریب ممالک شریک ہیں۔

بظاہر یہاں دو فریق یعنی ریاست اور طالبان باہم بر سر پیکار ہیں جبکہ در حقیقت یہ ایک ہمہ جہت جنگ ہے جس میں اصل فریق منظر عام پر نہیں ہیں۔ ہمارے ہاں کے بعض طبقات اپنی سادہ لوحی میں اس جنگ کا چارہ بن رہے ہیں۔ ہمارے ریاستی اداروں اور سیاسی و عسکری قیادت کو یقینا اس صورت حال کا اندازہ ہوگا۔ہمیں اب اس جنگ کو اپنی سرزمین سے باہر دھکیلنے پر توجہ دینا ہوگی۔ورنہ یہاں نہ مذاکرات ہونے دیے جائیں گے اور نہ آپریشن سے کسی مسئلے کا حل نکلے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :