ریاست اور سیاست کی ذمہ داریاں

بدھ 26 فروری 2014

Munawar Ali Shahid

منور علی شاہد

ہر کوئی ریاست پابند ہوتی ہے ا پنے شہریوں کی جان و مال اور عزت کی حفاظت کرنے کی،یہ اس کا اولین ذمہ داری ہوتی ہے۔خواہ شہری کا عقیدہ و مذہب کچھ بھی ہو، چونکہ عقیدہ اور مذہب صرف زندہ انسانوں کے لئے ہوتے ہیں نہ کہ ریاستوں کے لئے، کیونکہ ریاست انسان تو نہیں ہوتی جس کا کوئی مذیب یا عقیدہ ہو اس لئے ریاست کی نظر میں سب شہری مساوی حقوق کے حامل ہوتے ہیں گویا ایک ریاست جب اپنے شہریوں کے ساتھ مساوی سلوک کرتی ہے اور ان کو زندگی کی تمام سہولتیں فراہم کرتی ہے تو اس کے نتیجہ میں وہ شہری بھی تعلیم یافتہ ہوکر ملک قوم کا وفادار بن کر خدمت کرتا ہے یوں ایک ریاست ترقی کی منزلیں طے کرتی ہے ۔

اس کی وفاداری اس وقت متاثر ہوتی ہے جب اس کے ذاتی معاملات میں مداخلت ہوتی ہے اس میں سب سے بڑی اور واحد سبب عقیدہ اور مذہب کے معاملات میں ریاست کا عمل دخل کا ہونا۔

(جاری ہے)

اسی لئے بانی پاکستان نے بھی پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے اپنے تاریخ ساز خطاب میں جو منشور قوم کو دیا تھا اس کی بنیاد بھی یہی نکتہ تھا کہ ریاست افراد کے عقائد اور مذہبی معاملات میں کوئی مداخلت نہیں کرے گی۔


اب جب ہم دنیا میں دیکھتے ہیں تو ہمارے سر شرم سے جھک جاتے ہیں اسلامی ممالک میں امن آمان ۔عدل و انصاف،خوراک،صحت ،تعلیم اور انسانی آزادی اور حقوق کی صورت حال شرمناک حد تک خراب ہے عورتوں کا معاملہ ہو یا لڑکیوں کی تعلیم کا،یا پھر غیر مسلموں کے عقائد و حقوق کا،سبھی کا بیڑہ غرق ہوا ہے،شام کی مثال لے لیں مرنے اور مارنے والے کون ہیں اور سبب کیاہے اس سے بھی سبھی واقف ہیں یعنی عقیدہ و مذہب میں مداخلت۔

لاکھوں مرچکے،لاکھوں بے یارو مدد گار ہو کر غیر مسلموں کی امداد پر زندگی بسر کر رہے ہیں۔لیبیا میں کیا ہو ا، عراق میں کیا ہوا تھاپاکستان میں کراچی اور پنجاب سمیت خیبر پختون خواہ میں دس برسوں میں پچاس ہزار کے قریب مسلمان ہلاک ہو چکے ہیں اور سلسلہ ابھی جاری ہے اور یہاں بھی سبب مذہب و عقیدہ ہی ہے۔ اپنے اپنے اسلامی ملکوں سے بھاگ بھاگ کر جانے والے غربت و افلاس اور بھوک کے مارے مسلمان سمندروں اور بیابانوں دم توڑ رہے ہیں،سینکڑوں کی تعداد میں روٹی اور خوشحالی کی امید میں اپنے ہی وطن سے نکلنے والو ں کو موت مختلف شکلوں میں نگل رہی ہے۔

یورپی یونین کی تازہ رپورٹ کے مطابق پاکستان سمیت دیگر اسلامی ممالک سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ غیر قانونی طریقوں سے یورپی ممالک کی طرف بھاگ رہے ہیں اور ان تمام مسلمانوں کو انہیں غیر اسلامی ملکوں نے نہ صرف پناہ دی ہو ئی ہے بلکہ ان کو اپنے شہریوں کے مساوی حقوق بھی دیئے ہوئے ہیں اور تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پاکستان کو ان ممالک میں شامل کیا جانے کا امکان بڑھ گیا ہے جو انسانی سمگلنگ کی مانیٹرنگ کی زد میں آتے ہیں۔

لوگ کیوں وطن سے بھاگ ر ہیں؟اس کی بنیادی وجہ ان اسلامی ممالک میں نا انصافی ہے۔ اور قدم قدم پر مذہب کے نام پر استحصال اور تعصب نے سوسائٹی کی جڑوں کو کھوکھلا کردیا ہے خاندانی میراثی سیاست اور حکمرانی نے غریب اور امیر کے فرق کو آسمان تک بلند کردیا ہے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی اعلی تعلیمی ادارے اور پاکستان سے ہر سال ہزاروں طالب علموں کو ان کی قابلیت کی بناہ پر اپنے اپنے ملکوں میں لے جا رہی ہیں،ان کو داخلے دے رہی ہیں ان کا عقیدہ یا مذیب سے کوئی سروکار نہیں،وہ اہلیت و قابلیت اور ذہانت کی تلاش میں ہیں وہ ان کو کہیں سے بھی مل جائے وہ حاصل کر رہی ہیں جو بعد میں انہیں ہی ملکوں کے ہو کر رہ جاتے ہیں، پاکستان میں نہ بجلی،نہ پانی، نہ گیس، نہ عزت ،نہ روزگار اور نہ انصاف۔

اور تو او ر عبادت کے لئے خانہ خدا جاؤ تو جان ہی سے ہاتھ دھو بیٹھو۔جس قسم کا بھی فارم آپ نے بھرنا ہے وہاں مذہب اور عقیدہ کا سب سے لازمی جز ہوتا ہے جعلی ڈگریوں والے ا سمبلیوں میں بیٹھے ملک و قوم کے لئے قانون سازی کرتے ہیں۔۔سمندر پا کستانیوں کو طرز زندگی تو دیکھیں۔ اسلامی ملکوں سے نکل کر کافروں کے ملک میں جاتے ہی وہ پہلی مرتبہ انسانی احترام،مساوات،عدل اور انصاف سے آگاہ ہوتے ہیں۔

اس کا بنیادی فرق کیا ہے یہ ان پاکستانیوں سے پوچھنے کی ضرورت ہے جو اب انہی کافروں کے ملک میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔پاکستان کے آئین کو مذہبی بنا کر پاکستان اور اس کے لوگوں نے کیا پایا اور کھو یا ہے وہ سب کے سامنے ہے اسلامی ملکوں کی تعداد 56 ہے، اور ان سب کو چھوڑ کر صرف چین ہی ایسا واحد ملک ہے جس پر دینی و سیاسی تمام جماعتوں کا متفقہ فیصلہ ہے کہ چین ہمارا سب سے زیادہ قابل بھرو سہ دوست ملک ہے اور چین وہ ملک ہے جو خدا ہی کو نہیں ما نتا۔

۔اس سے زیادہ مضحکہ خیز فارن پالیسی اور اندرونی سیاست کیا ہو سکتی ہے؟اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مذہب اور سیاست الگ الگ ہیں
کیا قائد اعظم نے منع نہیں کیا تھا؟ کہ پاکستان کا مستقبل تھیوکریسی ریاست نہیں ہو گی؟چین سمیت آج کی ترقی یافتہ اقوام نے اسی بانی پاکستان کے نظریہ ریاست پر عمل کر کے بڑی طاقتوں کا روپ ڈھال لیا اور ہم نے اپنے ہی گھونسلے کوتنکا تنکا کرنے کی اجتماعی قسم کھا رکھی ہے انہی مذہبی گر گٹوں نے مذہب کو سیاسی اور اپنے ذاتی مقاصد کے لئے استعمال کر کرکے غیر شرعی نظریات اور ملائیت کو فروغ دے دیا ہے اورآج پاکستانی لوگوں کو اس گروہ میں ڈھال دیا گیا ہے اسی طرح قائد اعظم کو بھی مانتے ہیں،یوم پیدائش دھوم دھام سے مناتے ہیں لیکن ان کی نہیں مانتے، بلکہ مکمل نافرمانی کا ذمہ قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی ا سمبلیوں نے اٹھا رکھا ہے۔

ہماری اپنی اخلاقی حالت کی یہ حالت ہوچکی ہے کہ ایماندار اور قابل بھروسہ لوگ ہی نہیں ملتے، گورنر پنجاب کو بر طانیہ سے لانا پڑاس سے قبل ایک وزیر اعظم بھی باہر سے لائے گئے تھے ۔ہمارے اس اپنے ملک میں نیب ایسا ادارہ موجود ہے جس کا کام ہی سیاسی بھائیوں کی کرپشن کو پکڑنا ہے عدالتوں میں موجود کیسوں کی تعداد دیکھیں،قتل،چوری، ڈکیتی، رشوت خوری،کرپشن،زنا بازی، بدکرداری لاکھوں کی تعداد میں اور ان میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ چین کی ہی مثال کو لیکر پاکستان کی اصلاح کریں اور اس کے لئے مذہب کو ریاست اور سیاست دونوں سے الگ تھلگ کرنا ہو گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :