اللہ تعالیٰ کا حقیقی تصور وجود

بدھ 26 فروری 2014

Mir Afsar Aman

میر افسر امان

”اللہ وہ زندہ جاوید ہستی،جو تمام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے اُس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔“(البقر ة۲۵۵) اللہ تعالیٰ کے کن فیکون کہنے سے سب کچھ وجود میں آ جاتا ہیجب کچھ بھی نہیں تھا اللہ تھا۔ اب سب کچھ ہے اللہ ہے۔ جب سب کچھ فنا ہو جاے گاتب بھی اللہ ہی ہو گا۔ اللہ کا نام جب سے دنیا بنی ہے انسان کے دل میں ہے۔جب دوسرا جہاں قائم ہو گا تب بھی اللہ ہی ہو گا۔

اے اللہ کی دنیا میں رہنے والے لوگو اللہ کی پکڑ سے بچو اور ذمہ دارانہ زندگی بسر کرو۔ اللہ اپنی نشانیوں سے پہچانا جاتا ہے انسان جب اللہ کی بنائی ہوئی کائنات پر غور کرتا جائے گا اللہ کے وجود کا قائل ہوتا جائے گا۔
بنی اسرائیل کاتصورِخدا:۔اسرائیل حضرت یعقوب  کا لقب تھا جو اللہ کی طرف سے عطا ہوا تھا ان ہی کی نسل کو بنی اسرائیل کہتے ہیں بنی اسرائیل کی روایت ہے کہ ان کے مورث اعلیٰ حضرت یعقوب  نے اللہ تعالیٰ سے کشتی لڑی ،رات بھر کشتی ہوتی رہی ،صبح تک لڑ کر بھی اللہ تعالیٰ ان کو نہ بچھاڑ سکا،اللہ تعالیٰ نے کہا مجھے جانے دو انہوں نے کہا جب تک مجھے برکت نہیں دے گا نہیں جانے دوں گا۔

(جاری ہے)

اللہ تعالیٰ نے پوچھا تیرا نام کیا ہے انہوں نے کہا یعقوب  ۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا آئندہ تیرا نام یعقوب نہیں بلکہ اسرائیل ہو گا کیونکہ تو نے خدا اور آدمیوں کے ساتھ زور آزمائی کی اور غالب ہوا۔ذرا غور فرمائیں یہودیوں کے ناقص تصور خدا کا۔وہ اللہ جس کے حکم کے بغیر پتہ بھی اپنی جگہ سے نہیں ہل سکتا وہ بنی اسرائیل کے پیغمبر سے ہار گیا۔(نعوذ باللہ)یہود اور نصاریٰ نے اللہ تعالیٰ کواپنا والد تصور کیا تھا” قرآن شریف میں ہے”یہُود اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں“(المائدہ۱۸) اس سوچ کی اللہ تعالیٰ نے اسی آیات میں نفی کی اور کہا ”ان سے پوچھو: پھر وہ تمھارے گناہوں پر تمھیں سزا کیوں دیتا ہے ؟ درحیقت تم بھی ویسے ہی انسان ہو جیسے اور انسان خدانے پیدا کیے ہیں وہ جسے چاہتا ہے معاف کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے سزا دیتا ہے“(المائدہ۱۸)
یہودیوں کا تصورِ خدا :․ یہودیوں کے اعتقادات میں اللہ تعالیٰ کے بارے میں اس حد تک خرابی پیدا ہو گئی کہ حضرت عزیر  کویہو دیوں کے کچھ حصے نے اللہ کا بیٹا تسلیم کیاجو شرک کی ایک انتہا ہے۔

قرآن میں ان کی سوچ کو اس طرح بیان کیا گیا ہے”یہودی کہتے ہیں عزیر اللہ کا بیٹا ہے“(التوبہ۳۰)
نصرانیوں کا تصورِ خدا:۔ عیسائیوں نے عقیدہ گھڑا کہ اللہ کی ذاتی صفت نے مریم  کے بطن میں داخل ہو کر وہ جسمانی صورت اختیار کی جو مسیح   کی شکل میں ظاہر ہوئی اس طرح عیسائیوں میں مسیح  کی الوہیت کا فاسد عقیدہ پیدا ہوا۔ عیسائیوں نے” عقیدہ اُلُہیّتِ مسیح“اس طرح گھڑا یعنی اللہ تین میں سے ایک ہے اللہ کی ایک خدائی کو تین حصوں میں بانٹ دیایعنی باپ، ماں اور بیٹا۔

اس عقیدے کو قرآن اس طرح رد کیا۔”یقیناً کفر کیا اُن لوگوں نے جنھوں نے کہا کہ اللہ تین میں کا ایک ہے“(المائدہ۷۳)دوسری جگہ قرآن میں اسطرح کہا گیا ”اورجب( یہ احسا نات یاد دلا کر)اللہ فرمائے گا کہ اے عیسیٰ  ابن مریم  کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ خدا کے سوا مجھے اور میری ماں کوبھی خدا بنا لو؟ تو وہ جواب میں عرض کرے گا سبحان اللہ میرا یہ کام نہ تھا کہ وہ بات کہتا جس کے کہنے کا مجھے حق نہ تھا اگر میں نے ایسی بات کہی ہوتی تو آپ کو ضرور علم ہوتا آپ ساری پوشیدہ حقیقتوں کے عالم ہیں “(المائدہ ۱۱۶) عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ  کو اللہ کا بیٹا بنا دیا یہ عقیدہ باطل ہے جو اللہ مٹی سے حضرت آدم  کو بنا سکتا ہے وہ بغیر باپ کے حضرت عیسیٰ کو بھی پیدا کر سکتا ہے وہ تو صرف کہتا ہے ہو جا اور چیزیں ہو جاتیں ہیں ۔

”در حقیقت عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم جیسی ہے جسے اللہ نے مٹی سے بنایا پھر فرمایا کہ ہو جا اور بس وہ ہو گیا“(آل عمران ۵۹)مجوسیوں کا تصور خدا:۔مجوس دنیا کے دو(۲)خالق مانتے ہیں یزدان اور اہرمن ۔یزدان کو خالقِ خیر اور اہرمن کو خالقِ شرقرار دیتے ہیں۔ جس چیز یعنی خیراورشر کواللہ نے پیدا کیا ہے وہی اس کا حقیقی خالق ہے۔ان کے ہاں بھی اللہ کا حقیقی تصور وجود نہیں ہے۔


عرب مشرکوں کا تصور ِ خدا:۔جُہلائے عر ب فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہتے تھے۔اِسی طرح دُنیا کی دُوسری مشرک قوموں نے بھی خدا سے سلسلہ نسب چلایا تھا اور پھر دیوتاؤں اور دیویوں کی ایک پُوری نسل اپنے وہم سے پیدا کر دی تھی عرب کے مشرک اللہ کی ہستی کے منکر نہیں تھے۔انہوں نے خانہ کعبہ میں ۳۶۰ بت بنا رکھے تھے۔ فتح مکہ کے بعد خانہ کعبہ
۲
میں رکھے ہوئے ان بتوں کو رسول نے خود توڑا۔

جب رسول ان سے کہتے تھے کہ یہ زمین، آ سمان اور کائنات کس نے بنائی تو وہ کہتے تھے اللہ نے بنائی ہے رسول ان سے کہتے جس
نے یہ سب کچھ بنایاتو پھر ایک اللہ کی عبادت کیوں نہیں کرتے اس کے ساتھ دوسروں کو، جنہوں نے کچھ بھی نہیں بنایا کیوں شریک کرتے ہو؟کہتے تھے یہ بت اللہ کے حضور ہمارے سفارشی ہیں اسی مشرکانہ تصور کو اللہ کے رسول نے ختم کیا اور ایک اللہ کے تصور کو عربوں کے اندر راسخ کیا۔


کمیونسٹوں کا تصور خدا:۔کمیونسٹ تحریک یہودیوں نے چلائی تھی انہوں نے اپنی پُرانی روش کے مطابق لوگوں کے دلوں میں یہ عقیدہ راسخ کیا کہ (نعوذبا اللہ) خدا کا خیال
دلوں سے نکال دو، مذہب ایک افیون ہے بس مادی جانور بن جاولیکن کمیونسٹوں کے دلوں سے خدا کے خیال کو نکالنے والا کارل مار کس یہودی جو کمیونزم کا بانی تھا جب مرنے لگا تواس نے کہا تھا ”خدایا میری مدد کر اگر تو ہے“ یعنی ایک طرف تو لوگوں کو قائل کیا کہ (نعوذ بااللہ) اللہ تعالیٰ کا خیال دل سے نکال دو اور دوسری طرف اسی اللہ سے دعاء بھی مانگتا
ہے کتنا تضاد ہے ۔


ہنددوں کا تصورِ خدا:۔ ہنددؤں کا تصور خدا عجیب و غریب ہے اللہ کے بندوں نے اپنے ذات پات کے فائدے کے لیے اللہ تعالیٰ کو بھی مختلف خانوں میں بانٹ دیا ہے ۔ ان کا تصور خدا یہ ہے کہ برہمن اللہ کے سر سے پیدا ہوا ہے کہشتری اللہ تعالیٰ کے کے سینے سے پیدا ہوا ہے ویش اللہ تعالیٰ کے دھڑ سے پیدا ہوا ہے اور شودر اللہ تعالیٰ کے پیروں سے پیدا ہوا ہے ہندو مورتیوں کی پوجا کرتے ہیں ان مورتیوں کو سفارشی سمجھتے ہیں اور شرک کرتے ہیں دولت کو خدا بنایا ہوا ہے اپنے لوگوں لکشمی(دولت کی دیوی) کی پوجا کے پیچھے لگا دیا یعنی دولت کی پوجا۔


باقی دنیا کے مشرکوں کا تصورِ خدا:۔ دنیا کی آبادی کے باقی حصے نے بھی مشرکانہ نظریے اختیار کئے ہوئے ہیں اللہ تعالیٰ کا خیال دل سے نکال دیا ہے اور غیر ذمہ دارا نہ زندگی گزار رہے ہیں اور مختلف بت اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں بنا لیے ہیں کہیں وطن کا بت ہے تو کہیں دولت کا،جا ہ و حشمت ہے تو کہیں سرداری و ناموری وغیرہ کا اور ان کی پوجا کر رہے ہیں اور غفلت میں مبتلا ہیں اسی غفلت کے اندر جب مر جائیں گے پھر جب حساب کتاب ہو گا تو اللہ تعالیٰ سے کہیں گے ہمیں دنیا میں واپس کر دیا جائے اب کے ہم صحیح زندگی گزاریں گے مگر اللہ تعالیٰ فرمائے گا میرا پیغام میرے پیغمبروں کے ذریعے تم تک پہنچ گیا تھا مگر تم نے اس پر عمل نہیں کیا اب جہنم کا ایندھن بنوتمہاری یہی سزا ہے اگر ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے ایک ہونے کے تصور اور اِسی ہی کی عبادت کی ہوتی اور اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کے تحت زندگی گزاری ہوتی تو یہ انجام نہ دیکھتے۔


اللہ کا حقیقی تصورِ وجود:۔ ”کہو،وہ اللہ ہے،یکتا۔اللہ سب سے بے نیاز ہے اور سب اس کے محتاج ہیں۔نہ اس کی کوئی اولادہے اور نہ وہ کسی کی اولاد۔اور کوئی اس کا ہمسفر نہیں ہے۔“(سورة اخلاص) اُس کے علاوہ اللہ کے تصورِوجود کی اطلاع انسانوں کو اللہ کے پیغمبروں نے دی ۔انہوں نے انسانوں سے کہا ہم ا للہ کے نمائندے ہیں اللہ نے ہمیں اپنا خبر رساں مقرر کیاہے ا للہ نے ہمیں ار ض و سماں کی سیر کرا ئی ہے ۔

ہم وہ کچھ جانتے جو تم نہیں جانتے اللہ ہمیں احکام دیتا ہے تاکہ ہم انسانوں تک اس کا پیغام پہنچائیں۔ ہم امین ہیں ہمیں تم سے کوئی اجر نہیں چاہیے ہے ہمارا اجر ہمارے رب کے پاس ہے ۔اللہ ایک ہے۔ وہی عبادت کے لائق ہے اسی کی تمام مخلوق عبادت کرتی ہے تم بھی اللہ کو ایک مانو اور اس کی عبادت کرو۔ اللہ ہی اطاعت کے لائق ہے اے اللہ کے بندوں ہم بھی اللہ کی اطاعت کرتے ہیں تم بھی اللہ کی اطاعت کرو۔

صحیح بخاری کی آخری حدیث ہے حضرت ابوہریرہ  نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دو کلمے ایسے ہیں جو خداوند کریم کو بہت پسند ہیں زبان پر ہلکے ہیں (قیامت کے دن)اعمال کے ترازو میں بوجہل اور وزنی ہوں گے وہ کیا ہیں۔ سُبْحَانَ ا للہ ِ و بِحَمْدِ ہِ دوسرا سُبْحَانَ اللہ ِ الْعَظِیْمِ “ سارے سمندر سیاہی بن جائیں سارے درخت قلم بن جائیں مزیدسات سمندر لے آئیں تب بھی ہم اپنے ربّ کی نعمتوں کا شمار نہیں کر سکتے۔یہ ہے اللہ تعالیٰ کا حقیقی تصور وجود۔ ہمارا ․․․تمہارا․․․ سب کا․․․اللہ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :