فیصلہ آپ کا۔۔۔۔۔!

اتوار 23 فروری 2014

Farrukh Shahbaz Warraich

فرخ شہباز وڑائچ

میخائل کلاشنکوف دس نومبر 1919 میں روس التائی کے علاقے میں واقع ایک چھوٹے سے گاوٴں قریا میں کسان کے گھر پیدا ہوا۔

1938 میں میخائل کو ریڈ آرمی میں شامل کیا گیا۔ وہ اسلحے کے ڈیزائن میں ماہر تھے اور اسی لیے ان کو روسی ٹینک رجمنٹ میں اسلحے میں بہتری کی ڈیوٹی سونپی گئی۔
اکتوبر 1941 میں جس ٹینک کی وہ کمانڈ کر رہے تھا جرمن گولہ لگنے سے شدید زخمی ہوا۔زخمی ہونے کے بعد ہی اس نے کلاشنکوف رائفل کے ڈیزائن پر کام شروع کیا۔جرمنی نے ایک رائفل تیار کی تھی جس میں عام رائفل کی خصوصیات کے ساتھ سب مشین گن کی خصوصیت بھی تھی۔جرمنی کے ساتھ جنگ میں روسی فوج کو اکثر شدید فائرنگ کا سامنا کرنا پڑتا تھا جس کا توڑ ان کے پاس نہیں تھا۔زخمی حالت میں جب وہ ہسپتال میں تھا تو ایک فوجی نے اس سے پوچھا کہ” کیوں روس کے پاس ایک ایسی بندوق نہیں ہے جو جرمنی کی نئی بندوق کا مقابلہ کر سکے“۔

(جاری ہے)

میخائل کلاشنکوف کا کہنا ہے ‘میں نے اس فوجی کے لیے ایک مشین گن تیار کی۔ اس کو ایوٹومٹ کلاشنکوف کا نام دیا گیا جس کا مطلب ہے کلاشنکوف کا خودکار ہتھیار۔‘شروع میں اس ہتھیار میں کچھ خرابیاں سامنے آئیں لیکن 1947 میں ایوٹومٹ کلاشنکوف کا ماڈل مکمل کیا اور بہت جلد یہ رائفل اے کے 47 کے نام سے مشہور ہوگئی۔میخائل کلاشنکوف کی خودکار رائفل کلاشنکوف کرہ ارض کی مشہور ترین رائفل ہے۔ اس رائفل کو درجنوں ممالک کی فوجیں استعمال کر رہی ہیں ۔
لیکن کلاشنکوف یا اے کے 47 دنیا بھر میں انقلاب کی علامت بھی بنی۔ اے کے 47 کو انگولا سے لے کر ویتنام اور الجیریا سے لے کر افغانستان تک استعمال کیا گیا۔جہاں اس رائفل کو فلسطینیوں نے کثرت سے استعمال کیا تو دوسری جانب القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی اسی رائفل کے ساتھ لی گئی تصویر دنیا کی مقبول ترین تصاویر میں سے ایک ہے۔اگرچہ روس میں میخائل کلاشنکوف کو ہیرو مانا جاتا ہے لیکن اس کو اس رائفل سے زیادہ کمائی نہیں ہوئی اور اس بارے میں ایک بار شکایت کرتے ہوئے کلاشنکوف نے کہا تھا ” اگر وہ رائفل کی بجائے گھاس کاٹنے کی مشین ایجاد کرتے تو وہ زیادہ کمائی کرتا“۔
میخائل کلاشنکوف نے انپنی کی ایجاد کی ہوئی رائفل سے ہلاک ہونے والے بے شمار لوگوں کی ہلاکت کی ذمہ داری قبول کرنے سے ہمیشہ انکار کیا۔
پنی 90 ویں سالگرہ کے موقع پر کریملن میں منعقدہ ایک تقریب میں ایک اعلیٰ اعزاز وصول کرتے ہوئے میخائل کلاشنکوف نے کہا تھا، ”میں نے اپنے وطن کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے ایک ہتھیار تیار کیا تھا۔ یہ میری غلطی نہیں ہے کہ اسے کبھی کبھی وہاں بھی استعمال کیا گیا، جہاں اسے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے تھا۔ یہ سیاستدانوں کی غلطی ہے۔“
کلاشنکوف رائفل کا باقاعدہ نام AK-47 ہے، جس میں AK سے مراد Kalashnikov's Automatic ہے اور 47 سے مراد 1947،ہے جب اس مہلک ہتھیار کے ڈیزائن کو اس کی حتمی یعنی موجودہ شکل دی گئی تھی۔ آج تک دنیا بھر میں ایسی 100 ملین سے زائد کلاشنکوف رائفلیں فروخت کی جا چکی ہیں۔
میخائل کلاشنکوف کو سوویت دور کا تقریباہر اعلیٰ اعزاز دے دیا گیا تھا۔ ان اعزازات میں ’ہیرو آف سوشلسٹ لیبر‘، لینن پرائز اور سٹالن پرائز بھی شامل تھے۔ 2009ء میں کلاشنکوف کو جدید روس کے اعلیٰ ترین اعزاز سے بھی نوازا گیا تھا، جو ’ہیرو آف رَشیا‘ کہلاتا ہے۔مشہور خودکار رائفل کلاشنکوف یا اے کے 47 کا موجد میخائل کلاشنکوف 94 برس کی عمر میں انتقال کر گیا۔
کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی تصویر کے دونوں رخ دیکھنے کے لئے تھوڑی دیر کے لئے امریکا میں پیدا ہونے والے ایک بچے کی طرف دیکھیے یہ بچہ امریکہ کے شہر میلان میں 11 فروری 1847ء کو پیدا ہوا۔ ابھی بچہ ہی تھا کہ اس کے ماں باپ چل بسے اس نے سب سے پہلے گرینڈ ٹرنک ریلوے پر ایک اخبار فروش کی حیثیت سے کام شروع کیا۔ کچھ مدت گزرنے کے بعد وہ ایک مال گاڑی میں اپنا ذاتی اخبار نکالنے اور چھپانے لگا۔
اس کے بعد تار برقی کی طرف توجہ کی وہ چیزوں کی ہیئبت پر دن رات گور کرتا تھا۔لیکن اس کو اطمینان نہ حاصل ہوا۔ یہاں تک کہ اس نے ایک آلہ ایجاد کیا جس سے کسی رکاوٹ کے کے بغیر دوسری لائن پر بھی پیغامات بھیجے جا سکتے تھے۔اس کے بعد اس نے ایک چار رخ کا تار ایجاد کیا اور چلتی ہوئی ٹرینوں کو پیغام پہنچانے کا طریقہ بھی دریافت کر لیا۔
1886ء میں اس نے اپنے گھر اور لیبارٹری سے ملحق ضروری آلات بنانے کا ایک کارنامہ نیو جرسی میں قائم کیا جس کو بڑی شہرت حاصل ہوئی یہاں 45 سال تک مسلسل اس نے محنت مشقت سے زندگی گزاری۔ اس نے کوئی ایک ہزار ایجادیں کیں جن میں چند مشہور یہ ہیں۔
فونو گراف،مائیکروفون،میمیورک گراف ،ٹیلی فون کے لئے کاربن کا پیغام رساں اور سب سے بڑی نعمت جو اس نے بنی نوع انسان کو دی وہ بجلی کا بلب ہے جس کے لئے اس نے سال ہا سال نہایت صبر سے کام کیا اورآخر کار بجلی کا بلب بنانے میں کامیاب ہوا۔اس نے کینٹوک سکوپ بنایا جو ترقی پا کر آج کل سینما بن گیا اور ہم متحرک تصوریں دیکھنے لگے۔ اس نے اپنی ایجاد فونوگراف کو ترقی دے کر دونوں کو باہم ملاکر بولتی چلتی تصویریں بنا ڈالیں اکیسیویں صدی کی ٹیکنالوجی اسی کی ریسرچ کی ماڈرن شکل ہے۔ نکل اور لوہے کی سٹوریج بیٹری بھی اس نے ایجاد کی اور اس کا آخری کارنامہ یہ ہے کہ اس نے مصنوعی ربڑ بنانے کا طریقہ معلوم کر لیا۔۔دنیا آج اس بچے کو تھامس ایڈیسن کے نام سے جانتی ہے جس نے 1847ء سے لیکر 1931تک کی اپنی زندگی کے دوران فونو گراف سے لیکر بجلی کے بلب تک ہزاروں ایجادات کیں اور صنعتی ترقی کی بنیاد رکھی۔ ایڈیسن کے نام پر ایک ہزار سے زائد ایجادات پیٹنٹ کروانے کا ایک زبردست ریکارڈ بھی موجود ہے اور یہ تعداد ناقابل یقین لگتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایڈیسن کو مارکونی اور گراہم بیل جیسے سائنسدانوں سے بھی زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔۔۔ایک طرف میخائل کلاشنکوف کو دیکھ لیجیے جس کی تخلیق نے سینکڑوں جانیں لے لیں دوسری طرف تھامس ایڈیسن ہے جس کی ایجاد نے سینکڑوں اندھیری زندگیوں میں اجالے بھر دیے۔۔۔زندگی میں ہمیشہ دو راستے ہوتے ہیں اچھائی کا اور برائی کا انتخاب آپ نے خود کرنا ہوتا ہے یہ آپ پر منحصر ہے آپ خیر کے راستے پر چل کر لوگوں کی زندگیوں میں خوشیاں بکھیرتے ہیں یا شر کی راہ پر چلتے چلتے انسانیت کے لئے جان لیوا ثابت ہوتے ہیں۔یہ دنیانے نہیں آپ نے طے کرنا ہوتا ہے کہ آپ کا نام تاریخ کن لفظوں میں یاد رکھتی ہے۔تو فیصلہ آپ کا ہے دونوں راستے آپ کے سامنے ہیں۔۔۔۔!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :