مجھے یقین ہے

جمعرات 20 فروری 2014

Prof.Riffat Mazhar

پروفیسر رفعت مظہر

میں نے ابھی تک اَمن کی فاختہ کو مُنہ میں زیتون کی شاخ دبائے محوِ پرواز تو نہیں دیکھا پھر بھی مجھے یقین ہے کہ بہار آفریں موسم قریب آلگا ہے ۔میرے یقیں کا محور، مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی بے لَوث کارکردگی اور شبانہ روز محنت ہے۔اگر ایک طرف نوجوان بلاول زرداری نے موہنجوداڑو سے سندھ کی پانچ ہزار سالہ بوڑھی ثقافت کو کھود کر نکال باہر کیا ہے تو دوسری طرف حمزہ شہباز جیسے جوان کی سرپرستی میں ہمارے اُنتیس ہزار سے زیادہ نوجوانوں نے شدید بارش اور ژالہ باری کے باوجود سب سے بڑا انسانی پرچم بنا کر گینیز بُک آف ورلڈ ریکارڈ میں اپنا نام لکھوا لیا ہے ۔

پاکستانی نوجوانوں نے سابقہ (مشرقی)پاکستانی نوجوانوں سے یہ ریکارڈ چھین کر دسمبر 1971ء کے سکوتِ ڈھاکہ کا بدلہ چکا دیا اور یہ بھی ثابت کر دیا کہ مشرقی پاکستان اگر بنگلہ دیش نہ بنتا تو آج بنگلہ دیشی نوجوانوں کو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا ۔

(جاری ہے)

خیبرپختونخواہ میں سونامی امریکیوں کا راستہ روکے کھڑی ہے اور تِلملاتے امریکی اُس کا ”کَکھ“ نہیں بگاڑسکتے ۔

جتنے طویل عرصے سے ”سونامیے“ نیٹو سپلائی روکے ہوئے ہیں وہ بھی ایک عالمی ریکارڈ ہے ۔تحریکِ انصاف کو چاہیے کہ وہ اپنی اولین فُرصت میں گینیز بُک آف ورلڈ ریکارڈ سے رجوع کریں ۔بلوچستان کے وزیرِ اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک کی گرفت اتنی مضبوط ہے کہ اب وہاں راوی چین ہی چین لکھتا ہے ۔اگر بی آر اے ، ہزارہ کمیونٹی کے زائرین کو شہید کرتی ، ریلوے ٹریک دھماکے سے اُڑاتی اور گیس کی پائپ لائینوں کو تباہ کرتی رہتی ہے تو اِس میں ڈاکٹر عبدالمالک صاحب کا کوئی قصور نہیں کیونکہ ”کَلّی کَلّی جِند، دُکھ لَکھ تے کروڑ“ کے مصداق شریف النفس ڈاکٹر عبدالمالک اکیلے کِس کِس کے دانت کھٹے کر سکتے ہیں ؟۔

لیکن اتنا ضرور ہے کہ وہ احتجاج کرنے والوں کے ساتھ خود بھی دَھرنا دے کر بیٹھ جاتے ہیں ۔ اُمیدِ واثق ہے کہ بی آر اے ڈاکٹر صاحب کے ”شریفانہ احتجاج“ پر صدقے واری جاتے ہوئے خود ہی ہتھیار پھینک دے گی اور وہ کام جو طاقت سے نہیں ہو سکا ”شرافت“ سے پایہٴ تکمیل تک پہنچ جائے گا۔ شرافت کا دامن تو خیر ہماری مرکزی حکومت نے بھی بڑی مضبوطی سے پکڑ رکھا ہے لیکن مقابل میں طالبان کچھ ”اَکھڑ“ واقع ہوئے ہیں ۔

وہ دھماکوں کی ذمہ داری بھی قبول کرتے ہیں اور ساتھ ہی جنگ بندی کا عندیہ بھی دے دیتے ہیں ۔اُنہوں نے ایف سی کے 23 مغوی اہلکاروں کو شہید کرکے یہ کہا ہے کہ وہ اگلے 24 گھنٹوں میں جنگ بندی کا اعلان کر سکتے ہیں بشرطیکہ جنوبی وزیرستان سے فوج واپس چلی جائے ۔محترم عمران خاں تو یہی چاہتے ہیں کہ فوج کا انخلاء ہو تاکہ طالبان بھی ہتھیار پھینک دیں لیکن وزیرِ اعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ قومی سلامتی کے منافی کسی مطالبے پر غور نہیں ہو گا ۔

اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ امن مذاکرات کی کامیابی کے لیے وہ جائز اور مناسب اقدامات کے لیے ہر وقت تیار ہیں ۔پتہ نہیں فوج کے انخلاء کا مطالبہ جائز ہے یا نا جائز لیکن مولانا سمیع الحق نے یہ کہہ دیا ہے کہ قوم ایک دو روز میں خوشخبری سُنے گی اِس لیے اچھّے کی اُمید ہی رکھنی چاہیے ۔
اِس تمام تر حکومتی تگ و دَو کے بعد بھی اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ حالات بہتری کی طرف نہیں جا رہے تو وہ فاترالعقل ہے ۔

پنجاب یوتھ فیسٹیول اور ”سندھی ثقافت“ کی تابناک کامیابی کے بعد مجھے تو یقین ہو چلا ہے کہ اب امریکی ریشہ دوانیاں بھی بند ہو جائیں گی ، معیشت کا پہیہ بھی چلنے لگے گا ، کرپشن اور مہنگائی کا خاتمہ بھی ہو جائے گا ، قبضہ گروپ بھتہ مافیہ ٹارگٹ کلرز بھی اپنے بلوں میں گھُس جائیں گے ، آمر مشرف کو قرار واقعی سزا بھی مل جائے گی ، ڈالر بھی پچاس روپے کی سطح تک پہنچ ہی جائے گا اور بم دھماکے ، خود کش حملے تو ختم ہونے ہی والے ہیں ۔

کوئی اور یقین کرے نہ کرے مجھے تو بہرحال یقین ہے اور اِ س یقین کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اب ہماری اسمبلیوں میں مفلس و نادار لوگ بھی منتخب ہو کر پہنچنے لگے ہیں ۔ہم تو یہی سمجھ بیٹھے تھے کہ اسمبلیوں میں ”ہم جیسوں“ کی کوئی گنجائش نہیں لیکن اللہ بھلا کرے وزیرِ خزانہ جناب اسحاق ڈار کا جنہوں نے تمام تر مخالفت کے باوجود اراکینِ اسمبلی کی ٹیکس ڈائریکٹری شائع کرکے نئی تاریخ رقم کر دی جس سے ہمیں بھی پتہ چل گیا کہ ہماری اسمبلیوں میں بیٹھے اراکین بیچارے تو ”نانِ جویں“ کے بھی محتاج ہیں اور ہم ”ایویں خوامخواہ“ اُن پر گرجتے برستے رہے۔

اِس تاریخی ٹیکس ڈائریکٹری کے مطابق قومی اسمبلی کے 319 میں سے 315 ارکانِ پارلیمنٹ کے پاس کار ، بینک اکاوٴنٹ ، زیورات اور شیئرز نامی کوئی چیز نہیں ۔پنجاب اسمبلی کے 345 ارکان اور خیبر پختونخواہ کی18خواتین ارکان کے پاس نقدی ہے نہ جیولری ۔100 میں سے 86 سینیٹر ز بیچارے بھی ”بے“ کار ہیں اور اُن کے پاس بھی بینک اکاوٴنٹ ، زیورات اور شیئرز کی مَد میں ”کَکھ“ نہیں ۔

152 ارکانِ سندھ اسمبلی کے اثاثے ”کھودا پہاڑ ، نکلا چوہا“ کے مصداق چھ لاکھ سے بھی کَم نکلے اور ہمارے 100 ارکانِ پارلیمنٹ تو ایسے ہیں جو نا دہندہ ہیں ۔ جن ارکان کو ہم ارب کھرب پَتی سمجھتے تھے وہ بھی بس ”ایویں ای“ نکلے اور محض چند ہزار روپے ٹیکس ہی دے سکے ۔اِس تاریخی ٹیکس ڈائرکٹری میں لکھا تو اور بھی بہت کچھ ہے لیکن کالم میں اتنی گنجائش نہیں اِس لیے یہیں تک محدود رہتے ہوئے عرض ہے کہ جس ملک کی اسمبلیوں میں اتنے ”عام آدمی“ بیٹھے ہوں اُس ملک کو ترقی کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا کیونکہ مفلس کا درد آشنا کوئی مفلس ہی ہو سکتا ہے اور ہماری اسمبلیوں میں تو مفلسوں کا ”مینا بازار“ لگا ہوا ہے ۔

جب ارکانِ اسمبلی پیدل ، رکشوں ، سائیکل رکشوں ، ویگنوں اور بسوں میں دھکے کھاتے اسمبلیوں میں پہنچتے ہونگے تو کیا اُنہیں قومی عُسرت کا خیال نہیں آتا ہو گا؟۔ ہم تو یہی سُنتے آئے ہیں کہ خواتین کو زیورات سے بے پناہ پیار ہوتا ہے لیکن ہماری خواتین ارکان نے یہ ثابت کر دیا کہ اصل سکون تو ملک و قوم کی بے لَوث خدمت میں ہے ، زیورات میں نہیں ۔لیکن ہمارا ”شرارتی“ الیکٹرانک میڈیا کسی کو چین سے رہنے نہیں دیتا اور کیمرے لے کر CIA کے ایجنٹوں کی طرح اسمبلیوں کے باہر گھات لگا کر بیٹھ جاتا ہے ۔

ہمارے کیمرہ مینوں کی نظر اُن خواتین پر تو پڑتی نہیں جو پڑوسنوں سے اُدھار کپڑے مانگ کر اسمبلیوں میں آتی ہیں لیکن قوم کو گُمراہ کرنے کے لیے ”چمکارے مارتی“ خواتین کو ضرور فوکس کرتے ہیں ۔یوں تو ہمارا الیکٹرانک میڈیا بہت تیز و طرار بنتا ہے لیکن اُسے اتنا بھی نہیں پتہ کہ اسمبلیوں میں آنے والی 90 فیصد سے زائد گاڑیاں” مانگے تانگے “کی ہوتی ہیں یا کرائے کی ۔

سچی بات تو یہ ہے کہ اراکینِ اسمبلی کی اِس حالتِ زار کو دیکھ کر میرا جی لہو سے بھَر گیا ہے اور میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ ایک ایسی NGO بناوٴں گی جو ”اندر کھاتے“ اِن مفلس ارکانِ اسمبلی کی مدد کرتی رہے ۔ میں جانتی ہوں کہ مجھے NGOبناتے وقت بہت سی گھاٹیاں سَر کرنی ہونگی کیونکہ NGO's بیرونی ممالک کی امداد کے سہارے چلتی ہیں اور میرا تو فی الحال کسی سے رابطہ نہیں ۔اگر زکواة ، عطیات اور قُربانی کی کھالیں اکٹھی کرنے کا پروگرام بنایا تو مولوی حضرات کے ساتھ ساتھ محترم عمران خاں اور ایم کیو ایم والوں کی ناراضی کا خطرہ ہے ۔اِس کے باوجود بھی میں یہ کام ضرور کروں گی کیونکہ اسی میں ملک و قوم کا بھلا ہے اِس لیے ”مجھے یقیں ہے “کہ کامیابی میرے قدم چومے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :