پولیو کے قطرے اور متبادل انتظام

بدھ 19 فروری 2014

Sabookh Syed

سبوخ سید

پاکستان میں پولیو ٹیموں پر بڑھتے ہو ئے حملوں کے پیش نظر یہ سوال اہم ہو گیا ہے کہ کیا پولیو کے قطرے پلانے کے لیے کوئی متبادل نظام نہیں ؟اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے نہایت اہم ہیں اور اس وقت پاکستان ، افغانستان اور بھارت کے علاوہ دنیا بھر میں پولیو وائرس پر قابو پالیا گیا ہے۔ ان حالات میں جب عالمی ادارہ صحت پشاور کو پولیو کو گڑھ قرار دے چکا ہے ،اس سے بڑھ کر خوف کا سبب اور کیا ہو سکتا ہے کہ پشاور سے حاصل کئے گئے پا نی کے ہر نمونے میں پولیو وائرس موجود تھا۔ اسی پشاور میں گذشتہ ایک برس میں دس پولیو ورکرز کو محافظوں سمیت قتل کر دیا گیا۔ سیکورٹی ٹیموں کی موجودگی کے باوجود بھی پولیو ورکرز میں خوف اور ڈر ہے۔ کوئی بھی اڑھائی سو روپے یومیہ کے لیے اپنی جان ہتھیلی پر رکھنے کو تیار نہیں لیکن پولیو ٹیموں کے بہادر اور فرض شناس ورکرز نے اس کے باوجود بھی اپنی مہم ترک نہیں کی۔

(جاری ہے)

پولیو ٹیمیں بندوبستی علاقوں میں اپنی مہم کو ساٹھ فیصد تک بھی مکمل نہیں کر سکتیں۔ماہرین کے مطابق نومبر سے لیکر اپریل تک پولیو وائرس کے پھیلاو کی شدت کم ہو تی ہے ،یہ وقت پولیو کے پھیلاو کو کنٹرول کرنے کے لیے انتہائی مناسب ہے۔ اگر اس وقت پولیو مہم ٹھیک طریقے سے نہیں چلایا گیا تو پھر گرمیوں میں مہم چلانا اتنا مفید نہیں ہوگا۔
کئی ممالک نے پاکستان سے سفارتی سطح پر یہ شکایات کی ہیں کہ ان کے ممالک میں پولیو کا مسئلہ پاکستانی شہریوں کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔دنیا بھر میں پاکستانی حصول روزگار کے سلسلے میں کئی ممالک میں موجود ہیں اور ان کا وہاں رہنا ان ممالک کی حکومتوں کے لیے ایک چیلنج بنتا جا رہاہے۔اگر یہ لوگ بے روزگار ہو کر پاکستان واپس آگئے تو ملک میں بے روزگاری کا سیلاب کنٹرول کرنا کسی کے بس میں نہیں ہو گا۔ذرائع کے مطابق سعودی حکومت نے پاکستان سے کہا ہے کہ وہ پولیو وائرس کو کنٹرول کریں ورنہ ان کے لیے حج اور عمرے کے لیے پاکستانیوں کو وزے جاری کرنا مشکل ہو جائے گا۔
پولیو مہم کی ناکامی میں صرف سیکورٹی کا مسئلہ ہی نہیں بلکہ پولیو ورکرز کو تنخواہیں نہیں مل رہیں۔ ان کی ملازمت کا بھی غیر مستقل ہے اور معاوضہ بھی کم دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے پولیو مہم پر برے اثرات پڑتے ہیں۔پولیو ورکرزکو یومیہ اڑھائی سو روپیہ دیا جاتاہے لیکن اکثر اوقات معاوضے کی ادائیگی میں تاخیر کی جاتی ہے۔
پولیو مہم کی ناکامی کی دوسری وجہ عوامی سطح پر پھیلائی جانے والی گمراہی ہے جس میں کہا جاتا ہے کہ پولیو کے قطرے پینے سے بچوں میں افزائش نسل کی صلاحیت معدوم ہو جاتی ہے۔پاکستان کے تمام مکاتب فکر کے جید علما ء جن میں مفتی رفیع عثمانی ، مفتی منیب الرحمان ،مفتی تقی عثمانی ،علامہ ساجد میر ،مولانا سمیع الحق، مولانا فضل الرحمان ، مولانا محمد احمد لدھیانوی ، علامہ ساجد نقوی اور علامہ امین شہیدی سمیت سب
اس بات پر اتفاق کر چکے ہیں کہ ان کی تحقیق کے مطابق پولیو قطروں میں ایسی کوئی دوا شامل نہیں کی گئی جس سے افزائش نسل کو روکنا مقصود ہے۔علماء نے پولیو قطروں کو پلانا لازمی قرار دیتے ہوئے فتویٰ بھی دیا ہے۔
طالبان نے واضح طور پر کہا ہے کہ انہیں پولیو قطروں کے بارے میں شکوک شبہات ضرور ہیں تاہم انہوں نے کبھی بھی پولیو ٹیموں پر کوئی حملہ نہیں کیا۔یہ بات ضرور ذہن میں رہنی چاہیے کہ کہیں پاکستان کو عالمی برادری میں تنہا کر نے کے لیے پاکستان مخالف قوتیں تو اس سازش میں ملوث نہیں۔کیونکہ پاکستان عالمی برادری میں پولیو کے حوالے سے ایک حساس ملک بن چکا ہے۔
پولیو مہم کو ڈاکٹر شکیل آفریدی کی جانب سے مبینہ طور پر چلائی گئی جعلی پولیو مہم نے سب سے زیادہ متاثر کیا۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ پولیو مہم اصل میں غیر ملکی خفیہ اداروں کی جانب سے معلومات کے حصول کے لیے چلائی جاتی ہے۔ اس کے بعد پولیو ورکرز پر حملے بھی کئے گئے۔ سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ اس مسائل سے کیسے نمٹا جا سکتا ہے۔
میری رائے میں پولیو کے خطرے سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم پولیو کے قطرے تمام ڈاکٹرز ،اسپتالوں اور کلینک میں لازمی بنیادوں پر فراہم کئے جائیں۔ ابتدائی عمر میں والدین بچوں کو ڈاکٹرز کے پاس ضرور لیکر جاتے ہیں۔ڈاکٹرز کو پابند کیا جائے کہ وہ ہر بچے کو قطرے ضرور پالئے جائیں۔
مساجد ،دینی مدارس ،اسکولوں میں بھی پولیو کے خاتمے کی مہم لازمی قرار دی جائے اور بچے کے اسکول اور مدرسے میں داخلے کو پولیو کے قطرے پلانے کے ساتھ ہی مشروط کیا جائے۔
فارم ”ب “کے اندارج کے وقت بھی پولیو کے قطرے پلائے جا سکتے ہیں۔
یہ تشہیر کر دی جائے کہ جس بچے کو پولیو کے قطرے نہیں پلائے گئے ،ان کو کسی مدرسے ،اسکول میں داخلہ نہیں دیا جائے گا۔
اس کا قومی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ نہیں بن سکے گا۔
عصری اور مذہبی تعلیمی اداروں میں ان بیماریوں کے خلاف کلاس روم میں تعلیم دی جائے۔
دینی مدارس کے رسائل و جرائد میں پولیو سمیت تمام متعدی بیماریوں کے خلاف تحقیقی مضامین شائع کرائے جائیں۔
پولیو سمیت مختلف بیماریوں سے متاثر ہونے والے مریضوں کی کہانیاں بھی مستقل شائع کی جا سکتی ہیں۔
ارکان قومی اسمبلی و صوبائی اسمبلی ،سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے دفاتر میں بھی پولیو کے قطرے پلانے کا اہتمام کیا جائے۔
پولیو کے قطرے علماء کی نگرانی میں مساجداور دینی مدارس کے طلباء کی ذریعے بھی پلائے جا سکتے ہیں ۔
علماء اپنے دینی اجتماعات میں پولیو مہم کو کامیاب بنانے کے لیے عوام کو آگاہ بھی کر سکتے ہیں۔
علماء اور سیاست دانوں کو پابند کیا جائے کہ اپنی انتخابی مہمات اور مذہبی تقریبات کے جلسوں کے لیے شائع کئے جانے والے اشتہارات پر پولیو کے خلاف شعور اور آگاہی کو لازمی قرار دیا جائے۔
سگریٹ ،لائٹر اور ماچس کی ڈبیا پر بھی پولیو کے خلاف شعور پیدا کیا جائے۔
جب علماء اور سیاسی جماعتوں کے قیادت عوام میں موجود ہو گی تو لوگوں کا اس مہم پر اعتماد بڑھے گا۔لوگوں کو مذہبی اور خفیہ اداروں کے حوالے سے جو شکوک شبہات ہیں ،وہ بھی ختم ہو جائیں گے۔اس کے علاوہ بھی پولیو کے خاتمے کے لیے محفو ظ اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :