سعودی ولی عہد کا دورہٴ پاکستان

منگل 18 فروری 2014

Muhammad Younas Qasmi

محمد یونس قاسمی

گزشتہ دنوں سعودی عرب کے 71سالہ ولی عہد، نائب وزیراعظم اور وزیر دفاع شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز السعود اعلیٰ سطحی وفد کے ہمراہ پاکستان کے تین روزہ دورے پر آئے۔ وہ وزیراعظم پاکستان کی خصوصی دعوت پر تشریف لائے تھے۔ وفد میں سعودی عرب کے معیشت ومنصوبہ بندی کے وزیر، صنعت وتجارت کے وزیر اور اطلاعات وثقافت کے وزیر بھی شامل تھے۔ ولی عہد مقرر ہونے کے بعد یہ ان کا پہلا دورہ تھا۔ اس سے قبل وہ گورنر ریاض کی حیثیت سے بھی شریف برادران کے سابقہ دور میں ایک دورہ کرچکے ہیں۔ شہزادہ موصوف کو انتظامی، تجارتی اور سفارتی امور میں تجربہ کار سمجھا جاتا ہے۔ اس دورے سے توقع کی جارہی ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی وتجارتی رشتوں میں نئی وسعت اور گہرائی آئے گی۔ سعودی عرب کے ساتھ تجارت کا حجم پاکستان کی مجموعی تجارت کا نو فیصد ہے۔

(جاری ہے)

بیس لاکھ پاکستانی وہاں کام کرتے ہیں اور زرمبادلہ کی ترسیل کے معاملے میں سعودی عرب پہلے نمبر پر ہے۔ اقتصادی امداد کے معاملے میں سعودی عرب کا شمار پاکستان کے اہم ترین معاونین میں ہوتا ہے لیکن ان مادی رشتوں سے بڑھ کر دونوں ملک ایک ایسے روحانی رشتے میں بندھے ہوئے ہیں، جو ابدی ہے اور جس کی طاقت دنیاوی پیمانوں سے کسی صورت نہیں ناپی جاسکتی۔ سعودی عرب کے وزرائے دفاع ہمیشہ پاکستان کے دوروں پر رہتے ہیں اور باہمی مشاور ت سے دفاعی امور طے کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 1980ء کے اواخر میں شہزادہ سلمان کے والد پرنس سلطان بن عبدالعزیز مرحوم نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ ان دنوں بھی خطے کے حالات ابتر تھے، سوویت یونین افغانستان میں گھس چکا تھا، ایران اور عراق کے درمیان جنگ ہورہی تھی۔ انہی دنوں چند شرپسندوں نے اسلحہ کے زور پرکعبة اللہ پر قبضہ کرنے کی جسارت کی تھی۔ پرنس سلطان بن عبدالعزیز کے دورے سے پاک سعودی تعلقات کو ایک نئی جہت ملی اور پاکستان نے مقامات مقدسہ کے خلاف ہونے والی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے سعودی عرب کا بھرپور ساتھ دیا۔
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہمیشہ برادرانہ اور بہت خوشگوار تعلقات رہے ہیں۔ سعودی عرب نے ہمیشہ بڑے بھائی کی حیثیت سے پاکستان کا خیال رکھا ہے اور مکمل سرپرستی کی ہے۔ ہرمشکل گھڑی میں سعودی عرب کی حکومت اور وہاں کے عوام ہمارے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ ہماری ہر مصیبت کو وہ اپنی مصیبت اور ہر مشکل کو اپنی مشکل سمجھتے ہیں۔ سعودی عرب نے ہماری تکلیف کو ہمیشہ اپنی تکلیف سمجھ کر یہ ثابت کیا ہے کہ ہم دومختلف ملکوں میں رہنے والے اور عرب وعجم کے واضح فرق کے باوجود ایک ہیں۔ قدرتی آفات ہوں یاہمارے حکمرانوں کا پیدا کیا ہوا کوئی بحران، سعودی حکومت سب سے پہلے اہل پاکستان کی خبر گیری کرتی ہے اور سب سے پہلے دست تعاون دراز کرتی ہے۔ جب بھی پٹرول کی قلت کا مسئلہ پیش آیا سعودی عرب نے بلا قیمت پٹرول فراہم کرکے پاکستان کو سہارا دینے کی کوشش کی۔ 1971ء میں بھارتی سازشوں کے نتیجے میں پاکستان دولخت ہوا تو پاکستان نے بنگلا دیش کو ایک مملکت کے طور پر تسلیم کرلیا مگر سعودی عرب نے ہماری محبت میں بنگلا دیش کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ پاکستان کو نفسیاتی طور پرسہارا دینے کے لیے اسلامی سربراہی کانفرنس کا پاکستان میں انعقاد محبت کی ایک بڑی مثال تھی۔ شاہ فیصل مرحوم نے ذوالفقار علی بھٹو کا ہاتھ تھاما اور بنگلا دیش سے تعلقات استوار کرنے میں مدددی۔ شاہ فیصل کی ان کوششوں نے ہمیں بحیثیت قوم کئی الجھنوں سے نکال دیا۔ 1973ء میں سیلاب اور 1975ء میں سوات میں آنے والے زلزلے میں بھی سعودی عرب کا تعاون مثالی رہا۔
پاکستان کو بھارت کے ایٹمی دھماکے کا چیلنج درپیش ہوا تو پاکستان کا خزانہ خالی تھا۔ جوابی دھماکوں کی صورت میں عالمی طاقتوں کی طرف سے معاشی ناکا بندی کا خدشہ تھا۔ اگر سعودی عرب اس وقت تیل کی دوستانہ فراہمی کا یقین نہ دلاتاتو پاکستان کے لیے ایٹمی دھماکا کرناشاید ممکن نہ رہتا یا اس کے منفی اثرات کا مقابلہ کرنا ناممکن ہوجاتا۔ کارگل کی جنگ میں جب ہماری فوج بری طرح پھنس گئی تھی تو سعودی حکومت کی مداخلت پر ہی صدر کلنٹن نے چھٹی کے دن وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو ملنے کا ٹائم دیا، جس کے بعد یہ مسئلہ خوش اسلوبی سے نمٹادیا گیا۔ جب 1999ء میں جمہوریت پر شب خون ماراگیا اور منتخب وزیراعظم کو جیل میں ڈالا گیا تو سعودی حکمرانوں کی مداخلت پر ہی پرویز مشرف نے شریف برادران کو باہر جانے کی اجازت دی، میزبانی کی ذمہ داری بھی سعودی حکمرانوں نے لی۔ 2005ء کے زلزلے کے دوران یہ سعودی عرب ہی تھا جس نے بڑے بھائی کاکردار ادا کیا اور پاکستانیوں کے ساتھ مل کر متاثرین زلزلہ کی بحالی کے لیے ہر ممکن تعاون کیا۔ 2011ء میں آنے والے سیلاب کے دوران بھی سعودی حکومت نے گرانقدر خدمات انجام دیں اور سعودی سفیر ملک کے مختلف حصوں میں خود جا جاکر متاثرین سیلاب کی مدد کرتے رہے۔ سعودی سفیر عزت مآب عبد العزیز ابراہیم الغدیر اور ان کی اہلیہ محترمہ نے پاکستان کے مختلف علاقوں میں پسماندگی کے خلاف علم اٹھایا، غرباء کی صحت، تعلیم، دستکاری اور روزگار کے لیے فنڈز مہیا کیے۔
پاکستان گزشتہ تیس سال سے دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے، یہاں پر عبادت گاہوں، تعلیمی و حساس اداروں اور سفارت خانوں پر حملے ہوئے جس سے پاکستان کا بڑا نقصان ہوا۔ یہ حالات ابھی تک جوں کے توں ہیں، بلکہ کُل عالم اسلام میں یہی کیفیت ہے، عراق میں بدامنی ہے، شام کی خانہ جنگی تیسرے سال میں داخل ہوچکی ہے، مصر میں فوج نے غلبہ تو حاصل کرلیا ہے مگر استحکام نظر نہیں آتا، افغانستان ایک فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکا ہے لیکن امن کے امکانات دور دور تک نظر نہیں آتے۔ گزشتہ چند سالوں سے ہمارا ایک ہمسایہ ملک مسلم ممالک میں بالعموم سعودی عرب اور پاکستان میں بالخصوص مسلسل مداخلت کررہا ہے اور اس ہمسایہ ملک کی ان ممالک میں خانہ جنگی کی خواہش روز بروز شدید ہوتی جارہی ہے۔ ان حالات میں پاک سعودی تعاون کا فروغ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ان دنوں اہم سعودی شخصیات باہمی مشاور ت کے لیے پاکستان آرہی ہیں۔ وزیر خارجہ سعود الفیصل، پرنس سلمان بن سلطان کی قیادت میں اعلی سطحی وفود کے بعد اب شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز کی آمد بھی خطے کی بدلتی ہوئی صورتحال اور اسے درپیش چیلنجز کی وجہ سے ہے۔
خطے کی بدلتی صورت حال اس بات کی متقاضی ہے کہ پاک سعودی تعاون کو مزید فروغ دیا جائے اور ایک دوسرے کے دفاع کے لیے بھرپور اقدامات کیے جائیں۔ امن سعودی عرب اور پاکستان دونوں کی شدید ضرورت ہے۔ عسکریت پسندی اور فرقہ وارانہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے دونوں ممالک کوباہمی مشاور ت سے حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ دوست اور دشمن میں واضح فرق کرنا بھی دونوں ممالک کے لیے ضروری ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :