کمانڈو

منگل 18 فروری 2014

Manzoor Qadir Kalru

منظور قادر کالرو

جس دن عامر علی کا والد فوت ہوا کوئی آنکھ ایسی نہ تھی جو اشک بار نہ ہو۔محمداشفاق کا اخلاق ، گفتگو کالہجہ ہرایک کے بے لوث کام آنے کا رویہ ہر آنکھ کو رونے پر مجبور کر رہا تھا۔نہیں رو رہا تھا تو یہ چودہ پندرہ سال کا بچہ نہیں رو رہا تھا۔میں سوچنے لگا کہ یا تو اِسے یتیمی کا کچھ پتہ نہیں یا اِس میں نیا عزم بیدار ہو رہا ہے۔یا تویہ بہت بہادر ہے یا پھر غبی ذہن کانوجوان ہے۔

آج پندرہ سال بعد میری پہلی رائے درست ثابت ہو رہی تھی جب میں اُسے کمانڈو کے روپ میں اپنے سامنے بیٹھا دیکھ رہا تھا۔وہ کل ہی اقوامِ متحدہ کے مشن سے کانگو سے چھٹی آیا تھا اور آج ایک نوجونِ لڑکی کی تدفین کے سلسلے میں قبرستان میں میرے سامنے بیٹھا تھا۔آج وہ تیرہ چودہ سال کا بچہ نہ تھا بلکہ وہ تیس سالہ کمانڈو تھا جس کی کشادہ چھاتی ، مضبوط ہاتھ اور کشادہ پیشانی تھی۔

(جاری ہے)

اُس کی آنکھوں میں چمک اور باتوں میں عزم جھلک رہا تھا۔اُس کے انگ انگ سے جرات اور بہادری ٹپک رہی تھی۔بات اُس کے چہرے اور جسم کی رگڑوں کے نشانات سے شروع ہوئی۔وہ کہہ رہا تھا جس طرح ماتھے کا محراب ایک نمازی کی پہچان ہوتا ہے اسی طرح جسم کی رگڑیں بھی ایک کمانڈو کی پہچان ہوتی ہیں۔ وہ کہتا چلا جا رہا تھا اور میں منہ کھولے ہونقوں کی طرح سنتا چلا جا رہا تھا۔

ہمیں جنگل میں چھوڑ دیا جاتا ہے ایک رسی اور چھری دے دی جاتی ہے کہ جس طرح جی سکتے ہو ایک ہفتے کے لئے جنگلی خوارک پر جیو۔ہم پتے اور ٹہنیاں کاٹ کاٹ کر کھاتے ہیں۔ہم سانپ کچے بھی کھاتے ہیں۔میرے چہرے کے تاثرات دیکھ کر کہنے لگاہم سانپ کی گردن اور دُم کاٹ دیتے ہیں باقی چربی رہ جاتی ہے وہ پکا لیں تو بڑے مزے کی چیز بن جاتی ہے، کبھی آپ کو کھلاؤں گا۔

مجھے اُس کی بات پر متلی آنے لگی۔ وہ میرے چہرے کے اُتار چھڑھاؤ دیکھ کر کہنے لگا،ویسے میں نے کچا سانپ بھی کھایا ہے۔میں نے کہا بس کر یار میں تو پکے ہوئے سانپ کے گوشت کو بمشکل برداشت کر رہا تھا تم کچے گوشت پر بھی آ گئی ہو۔زور سے ہنسا اور کہنے لگا،پرندوں کوپکڑ کر کوئلوں پر بھوننابہت بڑی عیاشی ہے۔میں نے کہا پرندوں والی بات تو ہضم ہوتی ہے لیکن سانپوں والی بات ہضم نہیں ہوتی۔

کہنے لگا چلو منظر بدل دیتے ہیں۔ہم نے دوسو کلومیٹر تک پیدل سفر کیا ہے۔ہمیں جھیپ کے پیچھے باندھ کر گھسیٹا گیا ہے۔جب جیپ کے پیچھے رسے سے باند کر گھسیٹا جاتا ہے تو کاندھے پر ہُکیں لگی ہوئی ہوتی ہیں ، ایک مقام ایسا آتا ہے جب ہمیں اپنا بیلنس بھی برقرار رکھنا ہوتا ہے اور کاندھوں سے یہ ہُکیں بھی نکالنا ہوتی ہیں۔اگر ہم اپنا بیلنس برقرار نہ رکھ سکیں توہمارا جسم زخموں سے چور چور ہو جاتا ہے۔

مجھ سے رہا نہ گیا، میں نے پوچھ ہی لیا کہ آخر یہ ظلم تم پر کیوں کرتے ہیں اور تم یہ ظلم کیوں سہتے ہو۔کہنے لگا ہیرے کو ہیرا بننے کے لئے سخت رگڑائی کی ضرورت ہوتی ہے۔کمانڈو کی ہیرا بنانے کے لئے یہ رگڑائی ہوتی ہے۔کمانڈو ٹریننگ کے بعد ایسی چیز بن جاتی ہے کہ جب کمانڈو چھٹی جائے تو متعلقہ تھانے کو اطلاع کر دی جاتی ہے وہ اس کی نقل وحرکت پر نگاہ رکھے تاکہ یہ کوئی واردات ہی نہ کر دیں۔

وہ نڈر اور بے خوب ہو جاتا ہے۔اُن کے لئے یہ چھوٹی موٹی دیواریں پھلانگنا تو کوئی مسلہ ہی نہیں رہتا۔جیب کے پیچھے باندھ کر کیوں گھسیٹا جاتا ہے۔کہنے لگے تاکہ فضاؤں میں بکھرے ہوئے نور کو کمانڈو اپنی آنکھوں میں بھر سکتے۔کیا مطلب میں نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے کہا۔اُس نے بتایا کہ جب کمانڈو اڑتے ہوئے طیارے میں سے جنپ لگاتا ہے تو سو کلومیٹر تک طیارے سے بندی ہوئی رسی نہیں ٹوٹتی اور اس وجہ سے چھتری نہیں کھلتی۔

اس دوران کمانڈو کے ساتھ نہ جانے کیا کچھ ہو جاتا ہے۔وہ فضاؤں کے بے تحاشا تھپیڑے کھاتا ہے اُس کے بعدچھتری کھل جاتی ہے اور پھر وہ لمحہ آتا ہے جس کا ایک کمانڈو مدت تک انتظار کرتا رہتا ہے۔بچپن میں میں کبوتروں کو آسمان پر اُڑتے دیکھ کر سوچا کرتا تھا کہ کبھی میں بھی اِن کی طرح فضاؤں میں اڑ سکوں گا۔ میں نے جب اپنے اس خواب کو پورا ہوتے دیکھا تو میرا وجود خوشی سے شرابور ہو گیا۔

جب چھتری کھلتی ہے اور کمانڈو فضاؤں میں پرواز کرتا ہے تو وہ سب دشواریوں سب تکلیفیوں کو بھول جاتا ہے۔واپسی پر میں سوچتا آیا کہ زندگی کی جنگ میں بھی وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو کمانڈو کی طرح حالات سے لڑتے ہیں۔جو زندگی کی رکاوٹوں سے مایوسی کا درس نہیں لیتے بلکہ انہیں تازیانہ سمجھتے ہیں ۔ جو شکست اور ناکامی سے کبھی مایوس بد دل نہیں ہوتے بلکہ استقلال،اور تندہی و تیزی سے حصولِ مقصد کے لئے کوشش کرتے رہتے ہیں۔

زندگی کے دباؤ یا گھٹن پر جب صبر کیا جاتا ہے تو یہ دباؤ ایک نئی دنیا ، نیا سبق اور نیا باب عطا کرجاتا ہے۔قدرت چھوٹے سے دباؤ کے بعد بہت نواز دیتی ہے ۔ انسانی فطرت ہی زندگی کے مختلف چیلنجز سے لڑنے والی بنائی گئی ہے۔اپنے مسائل سے لڑ کر اُن پر فتح پانے والوں کی دنیا معترف بن جاتی ہے۔وہ بار بارناکامیوں سے دوچار ہوتے رہتے ہیں لیکن ہر مرتبہ ٹھوکر کھا کر سنبھل جاتے ہیں ہر ناکامی کے بعدخود کو سنبھالتے ہیں اور ہر محرومی کو صبرو استقامت کے ساتھ برداشت کرتے ہیں لیکن منزل مقصود کی طرف ثابت قدمی کے ساتھ بڑھتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ کامیابی سے ہمکنار ہوجاتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :