رکشہ ڈرائیور کا یقین

منگل 18 فروری 2014

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

ابھی دو ہی دن گذرے تھے روڈ ایکسیڈنٹ ہوئے جس کی وجہ سے جسم کے مختلف حصوں میں آئے زخموں میں شدت کا درد تھا، گھر بیٹھے بیٹھے طبیعت میں بوریت کا احسا س شدت اختیار کر رہا تھا جس کی وجہ سے وسوسوں کی بد بو دار گلی کا مسافر بنتا جا رہا تھا ،ڈپریشن کی طرف لیجاتی اس ذہنی کشمکش سے بچنے کی خاطر فیصلہ کیا کہ کچھ دیر کے لئے دفتر چلا جائے اور اس حالت سے نکلنے کی کو ئی راہ تلاش کرتے ہوئے بوریت کے عذاب سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔

اس خیال کو عمل میں لانے کے لئے گھر کے قریب ہی رکشوں کے سٹینڈ پر کھڑے رکشہ ڈرائیور سے منزل مقصود تک پہنچانے کیلئے سودا بازی کر رہا تھا کہ اچانک نا چاہتے ہوئے بھی سڑک کے اُس پار کھڑے رکشہ ڈرائیور پر نگاہ پڑی جو مجھے ٹکٹکی لگائے دیکھ رہا تھا۔

(جاری ہے)

نا معلو م مجھے کونسی طاقت اُ س کی طرف کھینچ کر لے گئی اور پھر بغیر سودے بازی اور کچھ بات کیے دفتر کا پتہ سمجھا کے اس کے رکشے میں سوار ہو گیا۔

حواس اپنی جگہ آنے کے تھوڑی ہی دیربعد حسب طبیعت میں نے اس کے بارے میں گفتگو شروع کر دی۔ اس کے چہرے سے غمی اورخوشی کے ملے جلے احساسات نمودار ہورہے تھے جس کو دیکھتے ہوئے میں نے اس کی خیریت دریافت کی۔آنکھوں میں بے بسی کے آنسو سجائے اُس نے مجھے بتایا کہ باؤ جی!میری بیٹی جسکی عمر چھ ماہ ہے اور جسے میں نے بہت دوعاؤں سے اللہ سے مانگا ہے ،کی طبیعت بہت خراب ہے۔

اسے دو دن سے شدید بخار ہے اور وہ چلڈرن ہسپتال کی ایمرجنسی میں زیر علاج ہے۔دن بھر رکشہ چلا کے جو پیسے بچتے ہیں وہ اس کے علاج پر خرچ ہورہے ہیں ۔ابھی ہسپتال سے اس کی ماں کا فون آیا تھا کہ ڈاکٹروں نے کچھ دوائیاں بازار سے لانے کو کہا ہے میرے پاس پیسے نہیں ہے لہذا آپ آئیں اور یہ دوائیاں دے جائیں۔ صاحب! میرے پاس اب اتنے پیسے بھی نہیں تھے جن سے میں اپنی بیٹی کی دوائی خرید سکتا،اپنی حاجت کو لے کر لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہوئے شرم آتی ہے ،بس دل ہی دل میں اپنے اللہ سے اس مصیبت کے وقت میں استقامت اور اس سے نکلنے کی خاطر کسی سواری کے مل جانے کی دعا کر رہا تھا کہ اتنے میں آپ آگئے۔

مجھے اپنے رب کی ذات پر کامل بھروسہ تھا کہ وہ میری دستگیری کرے گا۔کتنا مہربان ہے میرا اللہ، کتنا سخی اور کتنا کریم ہے وہ جو مصیبت اور مجبوری میں پھنسے اپنے ایک بندے کی دل سے نکلی فر یاد کو کیسے قبولیت بخشتا ہے۔ قارئین! رکشہ ڈرائیور اپنے رب کے سامنے پورے یقین کے ساتھاپنی حاجت کے پورا ہونے پر ممنونیت کے جذبے سے سرشار خدا تعالیٰ کی حمد و ثنا ء کر رہا تھا اور میں مارے شر مندگی کے اپنے اور اپنے آس پاس رہنے والے لوگوں کا اپنے رب پر ختم ہوتے ہوئے یقین کے بارے سوچتا ہوا ندامت اور شر مندگی کے سمندر میں غوطے کھا رہا تھا۔

وہ رب جوبغیر مانگے پیدائش سے لیکر اب تک اور اب سے لیکر مر نے تک ہماری اوقات سے کئی بڑھ کے پنے انعامات و اکرامات کی بارشیں کر تا رہتا ہے لیکن زندگی کے کئی برس بیت جانے کے بعد بھی ہمارے دل میں اس ذات پاک کا یقین ہی پیدا نہیں ہو تا۔ ہم تما م عمر اپنی تما م کامیابیوں کا ثمر اپنی قابلیت کو سمجھتے ہیں اور پھر کسی ایک جگہ اپنے عزم کے پورا نہ ہونے پر اس کا قصور وار خدا تعالیٰ کو ٹہرا کے اسے اپنی زندگیوں سے ہی نکال دیتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی ہمارے آس پاس انجانے خوف اور اندیشوں کی بھر مارہوتی ہے جن سے ہم فرار کی جتنی کو شش کرتے ہیں اسی قوت کے ساتھ یہ ہم پر حاوی ہوتے ہیں اور ان سے نکلنے کا کوئی بھی رستہ دکھائی نہیں دیتا۔اور رکشہ ڈرائیور کی طرح جو اپنے رب پر مکمل یقین رکھتے ہوئے اپنے تما خوف اور اندیشے اپنے رب کے حوالے کر دیتے ہیں تو وہ رب کچھ ہی لمحوں میں اس کی حاجت روائی کرتے ہوئے آسانیوں کے رستے کھول دیتا ہے۔

صوفی بر کت  نے کیا خوب فر مایا:”جب تک تو اللہ کے لئے رہا ،فتح و نصرت تیرے ساتھ رہی ۔تو جہاں بھی جاتا فتح پاتا،کبھی مار نہ کھاتا،کبھی ہار نا مانتا۔اللہ کا ”کُن“تیرا مشتاق اور تیرے ارادے کی تکمیل کے لئے بے تاب رہتا۔نوری فرشتے تیرے در کی دربانی کیا کرتے ۔رب پر بھروسے کی کمی کی وجہ سے یہ دنیا جو آج تیری امام بنی ہوئی ہے جو تیرے غلاموں کی غلام ہوا کرتی تھی“۔


قارئین محترم!بہت پہلے نظروں سے گذرااشفاق احمد  کا یہ واقعہ یاد آگیا کہ جب اپنے پوتے سے باتوں کے درمیاں چاند نکل آیا۔جسے دیکھ کر وہ بہت خوش ہوااور بولا:”دادا! جس طرح ہم بتیاں بجھا کر سو جاتے ہیں، کیا جب چاند کی یہ بتی بجھے گی تو اللہ میاں بھی سو جائیں گے“؟میں نے کہا:”نہیں، اللہ کونہ نیند نہیں آتی ہے نہ اونگھ،وہ نہیں سوتا“۔

یہ سنتے ہی اُس نے ٹانگ میرے پیٹ پر رکھی اور خراٹے لیتے ہوئے نیند کی وادی میں چلا گیا۔اُس نے سوچا ہو گاکہ جب اللہ جاگ رہا ہے تو پھر مجھے کس بات کی فکر ہے ۔میں ساری رات اس کھڑکی کی طرف نگاہیں کر کے خوفزدہ سا ہو کے صبح کا انتظار کر تا رہا اور اُس لمحے وہ کمسن بچہ خدا پر یقین میں مجھ سا بازی لے گیا“۔ مجھ سے اپنے رب پر یقین میں ایسی ہی ایک بازی وہ رکشہ ڈرائیور لے گیا تھاجسے اپنے رب کے اوپر اتنا مان تھااور رب نے بھی اس کا مان نہیں توڑا، ایک ہم ہیں جو نعمتوں کی فراوانی کے بعد بھی صبح سے شام نا شکری میں لتھڑے لفظوں میں لپٹے بیسیوں قسم کے شکووں کو اپنی زبان پر سجائے رکھتے ہیں ۔کاش ہم اس رکشہ ڈرائیور کی طرح اپنے رب کی ذات پر بھروسہ کر نا شروع ہو جائیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :