پاکستان کا مطلب کیا؟

پیر 17 فروری 2014

Prof.Riffat Mazhar

پروفیسر رفعت مظہر

ہم نے یومِ ولادتِ رسولﷺ مذہبی جوش و جذبے کے ساتھ مناکر آقا ﷺ سے اپنی عقیدتوں کا بھر پور اظہار کیا ۔یومِ قائد پر بھی ہم لہک لہک کر گاتے رہے ”اے قائدِ اعظم ! تیرا احسان ہے ، احسان“۔ جب یومِ اقبال  آیا توفکرِ اقبال کے اسرار و رموز پر محفلیں سجائیں اور یومِ دفاع پر فضائیں ”اے مردِ مجاہد جاگ ذرا اب وقتِ شہادت ہے آیا“ جیسے ترانوں سے گونجتی رہیں۔

پھر ہمیں خیال آیا کہ کہیں اہلِ مغرب ہمیں”رجعت پسند“ ہی نہ سمجھ بیٹھیں اِس لیے توازن قائم رکھنے کی خاطر ہم نے 14 فروری کوروم کے پادری ”ویلنٹائن “ کا دن بھی ایسی دھوم دھام سے منایا جیسے ویلنٹائن بھی عالمِ اسلام کی کوئی بَر گزیدہ ہستی ہو ۔شہروں میں سُرخ گلاب ختم ہو گئے اور شنید ہے کہ سُرخ گلاب کا ایک ایک پھول سو سے دو سو روپے تک فروخت ہوتا رہا ۔

(جاری ہے)

ہمارا باغیچہ تو سُرخ گلابوں سے اَٹا پڑا ہے ،اگر مجھے پہلے پتہ ہوتا تو کسی ”گُل فروش“ سے سودا ہی مار لیتی ۔جوں جوں یہ دِن گزرتا گیا، میرا غصّہ بھی بڑھتا گیا ۔یہ غصّہ کسی اور پر نہیں ، اپنے سُرخ گلابوں پر آ رہا تھا جنہوں نے ہمیں بَر وقت بتلایا ہی نہیں کہ آج کے دن اُن کے نرخ ایسے ہی بڑھ جاتے ہیں جیسے موجودہ دَورِ حکومت میں بجلی کے۔

خیرہم نے بھی طے کر لیا ہے کہ اگلے سال پہلے سے بندوبست کرکے رکھیں گے تاکہ ہمیں ایک دفعہ پھر نہ کہنا پڑے کہ”اب پچھتائے کیا ہوت ، جب چڑیاں چُگ گئیں کھیت“ ۔ اگر اگلے سال ڈھیروں ڈھیر پیسے اکٹھے ہو گئے تو ہم بھی ”ویلنٹائن زندہ باد“ کے نعرے اُسی طرح لگائیں گے جس طرح ہمارے الیکٹرانک میڈیا نے لگاکر خوب ہاتھ رنگے۔
ویلنٹائن ڈے نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ پاکستان ” بستی ہے دِل والوں کی“ اور ہمیں بھی پتہ چل گیا کہ ہماری اسمبلیوں کی روشن خیال خواتین بھی ماشاء اللہ بہت ”دِل والیاں“ ہیں ۔

اُس دِن پنجاب اسمبلی بھی مارے حیا کے اُس وقت سُرخ ہو گئی جب ہماری خواتین ایم پی ایز سُرخ لباس پہن کر اسمبلی میں تشریف لائیں اور مرد حضرات نے بھی ”حسبِ توفیق“ سَروں پر سُرخ ٹوپیاں اور جیبوں میں سُرخ رومال سجائے ۔اتنے” سُرخ لباس“تو کبھی بیاہ شادیوں میں نظر نہیں آئے جتنے پنجاب اسمبلی میں نظر آ رہے تھے لیکن یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ”ہماری رہنماوٴں“کو سُرخ رنگ بہت بھا گیا ہو۔

ہمیں یقین ہے کہ پادری ویلنٹائن کی روح اِنہیں دیکھ دیکھ کر ”صدقے واری“ جاتی رہی ہو گی ۔ ویسے سُرخ رنگ تو خون کا بھی ہوتا ہے جِس کی پاکستان میں بہت اَرزانی ہے اور جو ہر روز پاکستان کے کسی نہ کسی کونے میں بہتا ہی رہتا ہے ۔
ویلنٹائن ڈے پر الیکٹرانک میڈیا بھی خوب مزے اُڑا تا رہا ۔عاشقوں نے محض پانچ روپے کے ایس ایم ا یس کے ذریعے اپنے محبوب کوپیغام بھیجا اور الیکٹرانک میڈیا نے اُسے چوم کر نشر کر دیا۔

میں نے جب بھی ٹی وی آن کیا ، مجھے محبتوں کے پیغام ہی نظر آئے ۔یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے پورے پاکستان پر” مجنوں“ کے خاندان نے قبضہ کر لیا ہو ۔اگر پاکستان کا مطلب ”عشق و عاشقی“ہے تو پھر ہم درست سمت میں جا رہے ہیں لیکن اگر لا اِلٰہ الا اللہ ہے تو پھر بصد ادب مجھے یہ کہنے دیجئے کہ تمام تر خوں ریزی کے باوجود طالبان سچے ہیں اور اِن حالات میں پاکستان کو اگرکوئی طاقت بچا سکتی ہے تو صرف نفاذِ شریعتِ محمدی ﷺ ۔

میں نے لال مسجد کے خطیب مولانا عبد العزیز کو بہت سے ٹی وی ٹاک شوز میں سُنا اور ہر ٹاک شو کے بعد میر ا یہ تاثر بڑھتا ہی چلا گیا کہ مولانا صاحب بہت ضدی اور ہٹ دھرم ہیں ۔ جب مولانا کو یہ بتلایا جاتا کہ آئین میں حاکمیت ِ اعلیٰ اللہ تعالےٰ کی ہے اور ہمارا کوئی بھی قانون قُرآن و سنت کے متضاد نہیں بَن سکتا تو ہمیشہ اور ہر ٹی وی چینل پر اُن کا ایک ہی جواب ہوتا کہ ”میں آئین کو نہیں ، قُرآن و سنت کو مانتا ہوں “۔

مولانا صاحب کی اِس ہٹ دھرمی پر بہت غصّہ آتا لیکن آج کے ”ویلنٹائن ڈے “ کی خرافات نے یہ سارا غصّہ ٹھنڈا کر دیا ہے اور میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گئی کہ مولانا صاحب درست کہتے ہیں کیونکہ جب 1973ء سے اب تک کسی بھی حکومت نے آئین پر عمل ہی نہیں کیا اور اسلامی نظریاتی کونسل کی تمام سفارشات ردی کی ٹوکری کی نظر کی جاتی رہی ہیں تو پھر ایسے آئین کا کیا فائدہ؟۔

اگر بقول ضیاء الحق مرحوم آئین محض سو صفحات کی فضول سی کتاب ہے جسے زور آور جب جی چاہے ردی کی ٹوکری میں پھینک سکتا ہے تو پھر ایسا آئین ”بگڑی نسلوں“ کے سدھار کا سبب بھی نہیں بن سکتا۔ہمارا دین تو پورے کا پورا اسلام میں داخل ہونے کا حکم دیتا ہے ۔ایسا ہر گز نہیں ہوسکتا کہ ہم احکاماتِ الٰہی میں اپنی پسند و نا پسند کو بھی شامل کر لیں لیکن ہم تو قُرآن و سُنت کے صرف ایسے احکامات کو ہی تسلیم کرتے ہیں جو ہماری آزادی کی راہ میں رکاوٹ نہ بنتے ہوں ۔

اِن رکاوٹوں پر قابو پانے کے لیے ہم نے سینکڑوں ایسی NGO's بنا رکھی ہیں جو غیر ملکی فنڈز پر چلتی ہیں اور جن کا کام ہی دینی رکاوٹوں کے خلاف زہر اُگلنا ہے ۔ایسی NGO's پہ ہمارا آئین کوئی پابندی لگاتا ہے ، نہ قانون۔
سُلگتاسوال مگر یہ بھی ہے کہ اگر کوئی بندہ ٴ خُدا آئین کو مکمل اسلامی سانچے میں ڈھال کر پاکستان میں شریعت کا نفاذِ کر بھی دیتا ہے تو کیا بگڑی نسلیں سُدھر جائیں گی؟۔

شائد نہیں کیونکہ جِس قوم کے مقدر میں بلاول زرداری جیسے لیڈر لکھ دیئے جائیں اُس قوم کا اللہ ہی حافظ ہے ۔بلوچستان کے سابقہ وزیرِ اعلیٰ نے ایک بار کہا کہ ”ڈگری ، ڈگری ہوتی ہے ، خواہ وہ اصلی ہو یا جعلی“ ۔ہم نے اِس جملے پر اُن کا خوب مذاق اُڑایا اور ایک عرصے تک اِس جملے سے لوگ محظوظ بھی ہوتے رہے ۔اب نوجوان بلاول زرداری کہتا ہے کہ ”بلاول ، بلاول ہوتا ہے ۔

خواہ وہ بلاول بھٹی ہو یا بلاول زرداری“۔لیکن کوئی اِس جملے سے محظوظ ہونے والا ہے ، نہ مذاق اُڑانے والا کیونکہ آکسفورڈ کا پڑھا بلاول زرداری ذوالفقار علی بھٹو کا نواسہ اور بینظیر شہید کا بیٹا ہے ۔شنید ہے کہ محترم آصف زرداری اپنے وارث کی اِن ”حرکات“ پر بہت نالاں ہیں لیکن کر کچھ نہیں سکتے کیونکہ انٹرنیٹ کی پیداوار یہ نسلِ نَو نیا زمانہ اور نئے صبح و شام پیدا کرنے میں اتنی مَگن ہے کہ اُسے کسی کی بات سُننے کی فُرصت ہی نہیں ۔

یہ انٹر نیٹ بھی ایسی عجیب شے ہے جو بڑے بڑوں کا دماغ خراب کر دیتی ہے ۔ مشرف صاحب اِسی انٹر نیٹ پر اپنے چاہنے والوں کے پیغامات پڑھ کر پاکستان آئے اور ”کِڑّکی“ میں بُرے پھنسے ۔ محترم عمران خاں کی”سونامی“بھی اِسی انٹرنیٹ پر دو تہائی بلکہ تین چوتھائی اکثریت سے جیت گئی لیکن میدانِ عمل میں اُس کے حصّے میں ”کَکھ“ نہ آیا۔

اُسے محض خیبرپختونخواہ کی حکومت پر گزارا کرنا پڑا اور وہ بھی نواز لیگ کی مہربانی سے ۔تحریکِ انصاف چونکہ انٹرنیٹ پر بے مثال کامیابی حاصل کر چکی تھی اِس لیے اُسے یہ غیر متوقع شکست ہضم نہیں ہو رہی اور وہ تا حال دھاندلی کا شور مچا رہی ہے ۔اُسے سوتے جاگتے صرف دھاندلی ہی کے خواب نظر آتے ہیں ۔پی سی بی کے چیئرمین ذکا اشرف کو اُن کے عہدے سے ہٹا کر جب نجم سیٹھی کو چیئر مین بنایا گیا تو تحریکِ انصاف نے کہا کہ نجم سیٹھی نے عام انتخابات میں نواز لیگ کی پینتیس سیٹوں کو ”پنکچر“ لگائے اور نواز لیگ نے محنتانے کے طور پر نجم سیٹھی کو پی سی بی کی چیئرمینی سونپ دی ۔

حقیقت اللہ جانے یا نجم سیٹھی ، ہم تو اتنا جانتے ہیں کہ اِس انٹرنیٹ نے گھر گھر ”سیاپا“ ڈال دیا ہے ۔ اب بلاول بھی اِسی انٹرنیٹ کا سہارا لے کر پاکستان فتح کرنے چلا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اگلی بار سندھ کی حکومت بھی ہاتھ سے نکل جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :