امیدیں اور خدشات

اتوار 16 فروری 2014

Syed Farzand Ali

سید فرزند علی

حکومت اورطالبان کے درمیان مذاکرات جاری ہیں جوں جو ں مذاکرات کا دور آگے بڑھ رہاہے مذاکرات کی مخالفت کرنے والی قوتیں بھی حمایت کرنے پر مجبور ہوتی جارہی ہے تاہم اب بھی پاکستان میں ایسی قوتیں موجود ہیں جو مذاکرات کی کھلم کھلا مخالفت کرتی ہیں لیکن ان قوتوں کی تعداد حمایت کرنے والوں کی تعداد سے بہت کم ہے جبکہ طالبان مخالف پروپگنڈہ کرنے میں وہ بہت آگے ہیں اس کے باوجود مذاکرات جاری ہیں اور امید کی جارہی ہے کہ حکومت اور طالبان کے درمیان کئی نکات پر اتفاق رائے پیدا ہوجائے گا ۔


گذشتہ سال دسمبر کے آخری ہفتے میں وزیر اعظم ہاوٴس میں نوازشریف کی صدارت میں اہم اجلاس منعقد ہوا جس میں آرمی چیف راحیل شریف ،خفیہ اداروں کے سربراہان اور تھینک ٹینک میں شامل افراد نے شرکت کی تھی اجلاس میں امن وامان کے سلسلے میں اہم فیصلے کئے گئے جس میں ایک فیصلہ تحریک طالبان پاکستان کے آپریشن یامذاکرات کے حوالے سے بھی کیاگیا کئی گھنٹوں پر محیط اس اجلاس میں تمام شرکاء نے اپنی اپنی رائے دی تھی اگر قبائلی علاقوں میں طالبان کے خلاف آپریشن کیاجائے تو اس کیلئے لائحہ عمل کیاہوگا؟ اس میں کس حد تک کامیابی ملے گی ؟اور اس میں کتنے فیصد نقصانات کا اندیشہ ہیں ؟اس آپریشن کے حوالے سے دنیا کی طاقتوں کا کیاموقف ہوگا ؟اس ساری صورتحال پر غور وخوض کے علاوہ اجلاس کے شرکاء سے یہ رائے بھی لی گئی کہ اگر تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کئے جائیں تو اس کا طریقہ کار کیاہوناچاہیے ؟وہ کس نوعیت کے ہونگے اور کونسی سیاسی یامذہبی قوت حکومت اورطالبان کے درمیان مذاکرات میں کردارادا کرسکتی ہے ؟ اس اجلاس میں حتمی فیصلہ کیاہوا ؟اس حوالے سے یقینی طور پر کچھ نہیں کہاجاسکتا تاہم میڈیاکے ذریعے یہ تاثر ضروردیاگیاکہ حکومت تحریک طالبان پاکستان کے خلاف آپریشن کرئے گی اجلاس کے اگلے ہی روز وزیر اعظم کی درخواست پر جمعیت علماء اسلام (س)کے قائد مولانا سمیع الحق وزیر اعظم ہاوٴس پہنچ جاتے ہیں اور وزیراعظم نوازشریف سے ملاقات میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کیلئے تبادلہ خیال کیاجاتاہے اس موقع پر وزیر اعظم نوازشریف نے مولانا سمیع الحق سے اپیل کی کہ وہ حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کیلئے اپنا کردار ادا کریں جس کے جواب میں مولانا سمیع الحق نے حکومت سے نہ کوئی وزارت مانگی اور نہ ہی کوئی عہدہ ڈیمانڈ کیا بلکہ ملک میں قیام امن کی خاطر سچااورمحب وطن پاکستانی ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے فوراحامی بھرلی اس پیغام کو شاید حکومت خفیہ رکھنا چاہتی تھی لیکن پاکستان کا بے لگام میڈیا اس ہنگامی ملاقات پر نظر لگائے بیٹھا تھا اور بات اوپن ہوگئی کہ مولانا سمیع الحق کو طالبان سے رابطوں کیلئے ٹاسک دے دیاگیاوفاقی وزراء اور مسلم لیگی عہدیدارمولاناسمیع الحق کو ملنے والے ٹاسک کو تسلیم کرتے رہے اس دوران مولاناسمیع الحق نے بھی طالبان کے عہدیداران سے رابطے کرکے حکومت کو پیغام بجھوادیاکہ طالبان مذاکرات کیلئے تیار ہیں لیکن حکومت کی جانب سے کوئی جواب نہ آیا جس پر مولانا سمیع الحق نے میڈیا پر آکر حکومتی ٹاسک سے علیحدگی کا اعلان کردیا پھر نہ جانے کہاں سے پریشر آیا؟ اور وزیراعظم ہاوٴس کی جانب سے بھی تردید جاری کردی گئی کہ مولانا سمیع الحق کو وزیر اعظم نے طالبان سے مذاکرات کا کوئی ٹاسک نہیں دیا گیاتھایہ معاملہ چلتارہااور دوسری طرف ملک میں امن وامان کی صورتحال بھی ابتر ہوتی جارہی تھی حکومت نے پہلے طالبان کے خلاف آپریشن کیلئے میڈیا میں رائے عامہ ہموار کروائی پھر مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی سے منظوری لی لیکن وزیر اعظم نوازشریف نے اچانک قومی اسمبلی میں آکر طالبان سے مذاکرات کیلئے حکومت کی جانب سے چار رکنی کمیٹی کا اعلان کردیا اور معروف کالم نگار عرفان صدیقی کو اس حکومتی کمیٹی کا سربراہ بنادیا دوسری طرف تحریک طالبان نے بھی حکمت عملی طے کی اور اپنی جانب سے پاکستان تحریک انصاف کے چےئرمین عمران خان ،جمعیت علماء اسلام (س)کے مولانا سمیع الحق،جمعیت علماء اسلام (ف)کے مفتی کفایت اللہ ،جماعت اسلامی کے پروفیسر ابرہیم اور لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز پر مشتمل کمیٹی پر اعتماد کا اعلان کردیا اس کمیٹی میں تحریک انصاف کے چےئرمین عمران خان نے پروٹول کول کو پیش نظر رکھتے ہوئے علیحدگی کا فیصلہ کیاتاہم مذاکرات کی مکمل تائید اور حمایت کا اعلان کیا دوسری طرف جمعیت علماء اسلام (ف)نے ذاتی مفادات کے پیش نظر مذاکرات کا حصہ بننے سے محض اس لئے انکار کردیاکہ انہیں اعتماد میں نہیں لیاگیاجس کے بعد مفتی کفایت اللہ کو پابند کردیا گیاکہ وہ حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں کوئی کردارادا نہیں کریں گے مولانا فضل الرحمن کا موقف ہے کہ جمعیت علماء اسلام (ف)ایک قبائلی جرگہ کرچکی ہے لہذا اس جرگہ کے ذریعے طالبان اور حکومت کے درمیان مذاکرات کروائے جائیں حالانکہ جمعیت علماء اسلام (ف)کے زیر اہتمام پشاور میں ہونے والے جرگہ میں محض ان لوگوں کو اکٹھاکیاگیاجو کافی عرصہ سے قبائلی علاقوں کو چھوڑ کر حیات آباد اور گردونواح میں آباد ہوگئے اور ان لوگوں کا موجودہ قبائلی آباد کاروں پر اب کوئی اثرورسوخ نہیں رہا یہی وجہ ہے کہ دسمبر کے آخری ہفتے میں وزیر اعظم ہاوٴس میں ہونے والے اعلیٰ سطحی اجلاس میں اس جرگہ پر عدم اعتماد کا اظہار کیاگیااور طالبان پر اثر انداز ہونے والی اصل قوت مولانا سمیع الحق کو ہی ٹاسک دینے کا فیصلہ کیاگیااس ساری صورتحال کے باوجود جمعیت علماء اسلام (ف)کے قائد مولانا فضل الرحمن اس خواہش کا اظہار کررہے ہیں کہ حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کامیاب ہوں تاہم انہیں خدشہ ہے کہ ان مذاکرات کی آڑ میں حسب سابق کوئی آپریشن نہ کردیاجائے اسی خدشے کے پیش نظر وہ اس امن عمل کا حصہ نہیں بن رہے ۔

(جاری ہے)


دوطرفہ مذاکرات میں طالبان کی جانب سے پاکستان کے آئین میں تبدیلی کے متعلق کوئی مطالبہ سامنے نہیں آیا ان کے بڑے مطالبات میں ساتھیوں کی رہائی ،قبائلی علاقوں سے فوج کی واپسی ،قبائلی علاقوں میں شریعت کے مطابق زندگی گذارنے دیناشامل ہیں لیکن اس کے باوجود پاکستان کے آئین کو متنازعہ بنانے کیلئے غیر معروف لوگوں کو میڈیا پر بلایاجاتاہے اور لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز بھی لاعلمی کے باعث ان لوگوں سے بحث وتکرار سے دوطرفہ مذاکرات کو متنازعہ بنارہے ہیں لیکن کسی بھی جید عالم دین نے مولانا عبدالعزیز کی رائے سے اتفاق نہیں کیابلکہ آئین پاکستان کو عین شریعت کے مطابق قراردیتے ہوئے اس پر مکمل عمل درآمد اور مزید ترامیم کا مطالبہ ضرور کیاگیااسی سلسلے میں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کراچی کے ایک دورے کے موقع پر دارلعلوم کراچی میں جید علماء کرام سے بھی ملاقات کی جس میں مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی ،جامعہ بنوری ٹاوٴن کے مولانا عبدالرزاق اسکندر ،جامعتہ الرشید کراچی کے سید عدنان کاکاخیل جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی کے مولانا عبید اللہ خالد ،دارلعلوم کراچی کے مولانا عزیز الرحمن ،مفتی محمود اشرف عثمانی ،مفتی زبیر اشرف عثمانی ،مولانا عثمان اشرف عثمانی اوردیگرشامل تھے اس موقع پر بھی علماء نے موقف اختیار کیاکہ آئین پاکستان کے متعلق جو غلط فہمیاں پیدا کی جارہی ہیں وہ درست نہیں ہیں پاکستان کا آئین مکمل اسلامی اور بہتر ہے تاہم اس پر مکمل عمل درآمد کی ضرورت ہے اس ملاقات میں تمام علماء نے مذاکرات کی کامیابی کیلئے اپنے مکمل تعاون کا یقین بھی دلایا۔


موجودہ ملکی صورتحال میں ایک طرف مذاکرات اوردوسری طرف دہشت گردی کی کاروائیاں بھی جاری ہیں گذشتہ ہفتے ہونے والی دہشت گردی کی تین مختلف کاروائیوں سے تحریک طالبان نے لاتعلقی کا اعلان کیاتھالیکن جمعرات کے روز کراچی میں ہونے والی کاروائی کو تحریک طالبان نے تسلیم کیااس سے بھی مذاکراتی عمل کو نقصان پہنچا ہے جس کے نتیجے میں حکومت کی جانب سے بنائی جانیوالی کمیٹی نے طالبان کی بنائی جانیوالی کمیٹی کو تحریری خط ارسال کیا جس کے مندرجات کو خفیہ رکھاگیاتاہم میڈیا میں دعویٰ کیاجارہاہے کہ حکومتی کمیٹی نے تحریک طالبان کی کاروائیوں اوربیانات کو فوری بند کرنے کا مطالبہ کیااورساتھ یہ دھمکی بھی دی ہے کہ اگر تحریک طالبان پاکستان نے کاروائیاں بند نہ کی تو مذاکرات ختم کردئیے جائیں گے ۔


اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کو داخلی عدم استحکام سے دوچار کرنے کیلئے بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“اسرائیلی خفیہ ایجنسی ”موساد“،امریکی خفیہ ایجنسی ”سی آئی اے اور اسکا ٹارگٹ کلنگ یونٹ ”بلیک واٹر “کے جی پی اوردیگرپاکستان میں تخریبی کاروائیاں کرتے رہے ہیں کچھ کاروائیاں ان ممالک سے آنے والے جاسوس ودہشت گرد کرتے ہیں جبکہ کچھ کاروائیوں کیلئے پاکستانی شہریت کے حامل افراد کو استعمال کیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ ملک میں کاروائیاں جاری ہیں پہلے الزام بھارت پر لگادیاجاتاتھااب اسکا الزام فوری طالبان پر لگادیاجاتاہے ۔


دوطرفہ مذاکرات اگر جاری رہے تو کامیابی کے امکانات روشن ہیں کیونکہ تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے اب تک جو مطالبات سامنے آئے ہیں ان میں ایسا کوئی مطالبہ نہیں ہے جسے حکومت پورا نہ کرسکے تاہم امیدیں اور خدشات اب بھی منڈلا رہے ہیں اور محب وطن پاکستانیوں کی یہی دعا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کامیاب ہوجائیں کیونکہ یہ وہی قبائلی طالبان ہیں جنہوں نے ہمیشہ پاکستان کے مفاد میں کام کیا انہی قبائلیوں نے بھارت کے تسلط سے مقبوضہ کشمیر کے کچھ حصے کو آزاد کرواکر آزاد کشمیر بنایاپھر پاکستان پر قبضے کی خواہش رکھنے والی سپر پاور روس کے ٹکڑے کرنابھی انہی مجاہدین کی کاروائیوں کا نتیجہ ہے لیکن گذشتہ کچھ عرصہ کے دوران غیر ملکی ایماپر ان قبائلیوں کے ساتھ جو ظلم وزیادتی کی جاتی رہی آج بھی اگر اسکا ازالہ کردیاجائے تو یقینا یہ قبائلی آج بھی پاکستان کے وفادار ثابت ہونگے اگر ان سے مذاکرات کامیاب ہوگئے تو کم ازکم اتنا ضرور فائدہ ہوجائے گا کہ محب وطن طالبان اور دو نمبر طالبان کو الگ الگ کیاجاسکے گا جس کے بعد پاکستانی فوج اور محب وطن طالبان ملکر غیرملکی ایجنسیوں کیلئے کام کرنے والے طالبان کا لبادہ اوڑھے دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کریں تاکہ پاکستان میں قیام امن کو یقینی بنایاجاسکے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :