اسلام ، جمہوریت اور سکیولر ازم

ہفتہ 15 فروری 2014

Nabi Baig Younas

نبی بیگ یونس

اسلام اور جمہوریت میں زمین آسمان کا فرق ہے، اور جمہوریت ہی سکیولر ازم کو جنم دیتی ہے۔ ہم نے اسلام اور جمہوریت دونوں کو اپنا رکھا ہے شائد اسی لئے ہمارے ملک میں نہ اسلام اور نہ ہی جمہوریت فروغ پا رہے ہیں۔ میں اس کالم میں دلائل کے ساتھ بالکل سادہ الفاظ میں بیان کروں گا کہ اسلام اور جمہوریت دو مختلف چیزیں کیسے ہیں۔
پہلے ہم دیکھتے ہیں کہ جمہوریت کا تعارف کیا ہے۔

ہم بچپن سے پڑھتے آرہے ہیں کہ جمہوریت کا مطلب ہےGovernment by the people, of the people and for the people۔ اس کااردو میں اگر ترجمعہ کیا جائے تو مطلب کچھ یوں بنتا ہے "ایسی حکومت جو لوگوں سے بنتی ہے، لوگوں کی ہوتی ہے اور لوگوں کیلئے ہی ہوتی ہے"۔ اگر اس کو مزید سادہ الفاظ میں بیان کیا جائے تو اس کو انگریزی میں کہتے ہیںSovereignty of Peopleیعنی" لوگوں کی حاکمیت"۔

(جاری ہے)

مطلب حکومت چلانے والے عوامی نمائندے ہوتے ہیں اور عوام جو چاہیں عوامی نمائندے انہیں وہ فراہم کریں، کیونکہ جمہوریت کا اصل سرچشمہ عوام ہیں۔ اگر عوام شراب یا دیگر غیر شرعی چیزوں کا تقاضا کریں تو عوامی نمائندے انکار نہیں کرسکتے ہیں کیونکہ جمہوریت میں لوگوں کی حاکمیت ہوتی ہے۔
دوسری جانب اسلام Soverignty of people کو مسترد کرتا ہے۔ اسلام میں Soverignty of Allahہے، یعنی اللہ کی حاکمیت۔

اللہ کی حاکمیت کا مطلب ہے ہم ہر چیز کا فیصلہ قرآن اور سنت کے عین مطابق کریں اور اپنی خواہشات کو شریعت کے مطابق بنائیں۔ اسلام اور جمہوریت دونوں کو ایک نظر سے دیکھا جائے تو اسلام کا مطلب ہے اللہ کی حاکمیت اور جمہوریت کا مطلب ہے لوگوں کی حاکمیت۔ دونوں چیزیں ایک دوسرے سے متضاد ہیں۔ ہم نے دو پتھروں پر پاؤں رکھا ہے۔ جسکی وجہ سے ہمارے ملک میں اسلامی نظام نہ جمہوری نظام ہے۔

ہم کہیں درمیان میں پھنسے ہوئے ہیں۔
اب ایک اور مسئلہ بھی ہے ، وہ یہ کہ اگر ہمارے ملک میں واقعی اسلامی نظام نافذ ہوتا ہے تو غیر مسلم کس نظام کے تحت زندگی گزاریں گے؟ کیا ان پر بھی شرعی نظام کا اطلاق ہوگا؟ یورپ اور مغرب کی ترقی کا راز شائد اسی میں ہے کہ انہوں نے جمہوریت کو اپنا نظام بنایا اور مذہب کو انسان کا ذاتی فعل قراردیا اور ہر ایک کو ذاتی آزادی کیلئے اپنے مذہب پر چلنے کا اختیار اور حق دیا گیا ہے۔

لیکن ہم ایک دوراہے پر کھڑے ہیں۔ ہمارا ملک اسلامی مملک ہے لیکن اسلامی نظام نہیں۔ جمہوری حکومتیں وجود میں آتی ہیں لیکن ہم جمہوریت کی روح سے محروم ہیں۔
آج کل ہمارے ملک میں ایک اور بحث بھی چل پڑی ہے، وہ یہ کہ ہمارا آئین غیر شرعی ہے یا شرعی؟ اگر ہم اپنے ملکی آئین کا بغور جائزہ لیں تو صاف پتہ چلتا ہے کہ ہمارا آئین اسلام کے عین مطابق ہے لیکن اس کا اطلاق نہیں، یعنی Implementationنہیں ہے، اس پر عمل درآمد نہیں ہے۔

یہاں میں آئین کے چند ایک آرٹیکلز بیان کرنا مقصود سمجھتا ہوں جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے آئین میں اسلامی نظام ہے لیکن اس پر آج تک کبھی عمل درآمد نہیں ہوا۔
آرٹیکل2A: "اسلام پاکستان کا مملکتی مذہب ہوگا"۔ آرٹیکل31-1(اسلامی طرز زندگی) "پاکستان کے مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی اسلام کے بنیادی اصولوں اور اساسی تصورات کے مطابق مرتب کرنے کے قابل بنانے کے لئے اور انہیں ایسی سہولتیں مہیا کرنے کے لئے اقدام کئے جائیں گے جن کی مدد سے وہ قرآن پاک اور سنت کے مطابق زندگی کا مطلب ذہن نشین کرسکیں"۔

آرٹیکل31.2Bاتحاد اور اسلامی اخلاقی معیار اور ترقی کی پابندی کو فروغ دینا ۔ آرٹیکل 227-1"تمام موجودہ قوانین کو قرآن و سنت میں منضبط اسلامی احکام کے مطابق بنایا جائے گا جن کا اس حصہ میں بطور اسلامی احکام حوالہ دیا گیا ہے اور ایسا کوئی قانون وضع نہیں کیا جائے گا جو مذکورہ احکام کے منافی ہو"۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا ہمارے آئین کی ان شقوں کا اطلاق ہمارے نظام پر ہے؟ اگر نہیں تو کیوں ؟
اب آتے ہیں سکیولرازم کی طرف۔

انگریزی میں سکیولرازم کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہےThe right to be free from religious rule and teachingsاس کا ترجمہ اگر کیا جائے تو یوں بنتا ہے"اسلامی قانون اور اسلامی تعلیمات سے آزاد زندگی گزارنے کا حق" واہ جی واہ۔ اب وہ لوگ جو مشااللہ مسلمان ہیں لیکن سکیولرازم کا بول بالا چاہتے ہیں وہ کس دلیل کی بنیاد پر ایک اسلامی مملکت میں سکیولر ازم کی حمایت کرتے ہیں؟ اسلام میں ایک واضح لائن ہے ، واضح حد بندی ہے جس کے اندر رہتے ہوئے ہم نے اپنی زندگی گزارنی ہے۔ لیکن اگر ہم اسلامی حدود کو توڑنے کی آزادی تلاش کرتے رہیں تو کیا ہم خود کو مسلمان کہلانے کا حق رکھتے ہیں؟۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :