غربت اور امارت میں بڑھتا ہوا فرق

جمعرات 13 فروری 2014

Dr Awais Farooqi

ڈاکٹر اویس فاروقی

پاکستان میں بڑھتی ہوئی غربت اور اس کی کوکھ سے جنم لینے والے جرائم کی تعداد میں اضافہ لمحہ فکریہ ہونا چاہے مگر یہاں کوئی اس بات کو سوچنے کے لئے تیار ہی نہیں دولت کی منصفانہ تقسیم کا بندوبست کئے بنا غربت کا خاتمہ ممکن نہیں جبکہ یہ کام کوئی کرنا ہی نہیں چاہتا دولت کے گردش میں رہنا چاہے اور اس کے گردش میں رہنے اک مطلب یہ نہیں کہ یہ صرف ایک ہی طبقے(امراء) میں ہی گردش کرتی رہے بلکہ اسے انسانی جسم میں خون کی طرح گردش کرنا چاہے تا کہ سارا بدن تندرست و توانا رہے ، پاکستان مین ایسا نہیں ہے اس لئے یہاں غربت کی کوکھ سے جنم لینے والی بیماریوں اور جرائم کی تعداد میں اضافہ ہوتا جاریا ہے۔


ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر 57 سیکنڈ کے بعد خود کشی کا ایک واقعہ ہوتا ہے جن میں سے باقائدہ رپورٹ بہت ہی کم ہوتے ہیں۔

(جاری ہے)

جبکہ گزشتہ دنوں پاکستان کمشن برائے انسانی حقوق نے جو رپورٹ جاری کی اس کے مطابق گذشتہ ایک ماہ کے دوران ملک بھر میں ستانوے خواتین سمیت دو سو پچانوے افراد نے خود کشی کر لی خود کشی کرنے والے افراد کے بارے بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے نامساعد حالات اور غربت سے تنگ آکر اپنی زندگیوں کا خاتمہ کیا۔

خودکشی اور اقدام خودکشی کے کل چار سو باون واقعات رپورٹ ہوئے تاہم پولیس نے صرف آٹھ واقعات کی ایف آئی آر درج کیں، پولیس ویسے بھی ایسا کوئی کام نہیں کرناچاہتی جس سے اسے حاصل وصول کچھ نہ ہو اور صرف خواری ہی خواری ملے اس لئے وہ بھی اسے اللہ کا حکم قرار دے کر لواحقین کوصبر کی تلقین کرتی ہی نظر آتی ہے۔لیکن آفرین ہے پوری قوم ، طبقہ اشرافیہ اور حکمرانوں پر کہ روازنہ دس افراد صرف بھوک بیماری بے روزگاری اور غربت کے ہاتھوں تنگ آکر خود کشیاں کر کے ریاست اور معاشرے کے خلاف بغاوت کر رہے ہیں مگر کسی کے کانوں پر جون تک نہیں رینگ رہی ، یہ جو کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں ستر ،اسی ارب روپیہ سالانہ خیرات کی جاتی ہے اس سے بڑا شائد ہی فراڈ کوئی اور ہو جس ملک میں اتنے بڑے پیمانے پر خیرات کی جاتی ہو وہاں تو غریب ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملنے چاہیے جبکہ یہاں تو غربت کے بھنگڑئے جا بجا نظرآتے ہیں ہمارے ہاں ظاہری عبادتوں ریاضتوں پر اس قدر زور دیا جاتا ہے لیکن ایثار قربانی اور خدا کی مخلوق کے دکھوں کے ازالے کے لیے اس طرح کچھ نہیں کیا جاتا جیسا کرنے کا حکم دیا گیا ہے قران میں نیکی اور ثواب کا فرق واضع کرتے ہوئے خالق کائنات نے فرمایا تم ہرگز نیکی کو نہ پہنچو گے جب تک راہِ خدا میں اپنی پیاری چیز نہ خرچ کرو اور تم جو کچھ خرچ کرو اللہ کو معلوم ہے، (3:92) خدا نے انسان کو واضع ہدایت دی کہ نیکی کیا ہے اور اسے کیسے حاصل کیا جاسکتا ہے لیکن ہم جو خیر خیرات کرتے ہیں جس طرح سے بانٹی جاتی ہے اور جس طرح انسانی شرف کو رسوا کیا جاتا ہے اس کی مثال بھی کہیں نظر نہیں آئے گی۔


ہمارے ملک میں تو غربت کا نام و نشان دور دور تک نہیں ہونا چاہے اس لئے کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان دنیابھر میں دودھ ،آم ،پیدا کرنے والے ممالک میں پانچویں نمبر ہے جبکہ پاکستان ان تمام لوازمات، نعمتوں، وسائل اور معدنیات سے مالامال ہے جن کی بدولت یہ صرف خطے ہی نہیں بلکہ یورپین یونین کے انتہائی ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہو سکتا ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ پاکستان کپاس پیدا کرنے والا دنیا کا چوتھا، گندم پیدا کرنے والا آٹھواں اور چاول پیدا کرنے والا دسواں بڑا ملک ہے۔ رقبے کے لحاظ سے دنیا بھر میں اس کا شمار 34ویں، زرخیز زمین کے حوالے سے 52ویں، آبادی کے حوالے سے چھٹا، افرادی قوت کے حوالے سے 10ویں جبکہ گیس کے ذخائر کے حوالے سے 29ویں نمبر پر ہوتا ہے۔ پاکستان میں 185 ارب ٹن کوئلے کے ذخائر ہیں جن کی اندازاً مالیت تین ٹریلین ڈالر ہے اور ان ذخائر سے 100 سال تک ایک لاکھ میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے، اسی طرح سونے، چاندی، تانبے اور دیگر قیمتی دھاتوں کے وسیع ذخائر ہیں جن کی مالیت بلاشبہ کھربوں ڈالر ہے۔

پاکستان کی بندرگاہوں کا شمار دنیا کی بڑی پورٹس میں ہوتا ہے اور یہ وسطی ایشیائی ریاستوں تک کا گیٹ وے ہے۔ اس لحاظ سے تو ہمیں دنیا کے ترقی یافتہ ترین ممالک میں شامل ہونا چاہئے، برآمدات، توانائی کی پیداوار، جی ڈی پی، صنعتوں کی ترقی، تعلیم اور صحت سمیت ہر حوالے سے ہمارا شمارا کم از کم 20 ٹاپ ممالک میں ہونا چاہئے لیکن ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔

فی کس جی ڈی پی کے حوالے سے ہم دنیا میں 135ویں، شرح خواندگی کے حوالے سے 159ویں، برآمدات کے حوالے سے 61ویں، ماحولیات کے حوالے سے 131ویں درجے پر ہیں، آسان کاروباری ماحول والے ممالک میں ہمارا شمار 76ویں نمبر پر ہوتا ہے۔ پانی ہمیں بے تحاشا میسر ہے لیکن ذخیرہ کرنے کیلئے بڑے ڈیموں کی قلت ہے، چنانچہ ہر سال ساڑھے تین کروڑ ایکڑ فٹ سے زائد پانی سمندر میں گر کر ضائع ہو جاتا ہے، دوسری طرف نو ملین ہیکٹر زرخیز زمین پانی نہ ہونے کی وجہ سے بیکار پڑی ہے۔


کیا یہ ظلم عظیم نہیں کہ کروڑوں پاکستانیوں کے معصوم اور کم سن بچوں کو دو وقت پیٹ بھر کر کھانا بھی دستیاب نہیں ہے، جن کے بچے شدید گرمی اور سردی میں تن ڈھا نپنے کے لیے دو گز کپڑوں کے لیے بھی ترستے ہیں۔ جو چھت اور چار دیواری سے بھی محروم ہیں۔ جو علاج معالجے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ جن کے بچے حصولِ تعلیم کے خواب دیکھنے کے بھی روادار نہیں ہیں،پاکستان کی لے پالک اشرافیہ اور حاکموں کی کرتوتوں کی وجہ سے ایک ایسے ملک میں جہاں قدرت کی فیاضی پر دنیا بھر کی مملکتیں انگشت بدنداں ہیں وہاں اس ملک کی اکثریتی آبادی کو اپنے ہی ملک کی پیداوار میسر نہیں، یہاں ارض وطنِ میں ایک بہت بڑی تعداد ایسے افراد پر مشتمل ہے جن کا کوئی پرْسان حال نہیں ہے۔

جن کی حالت کیڑے مکوڑوں سے بھی بد تر ہے۔ تنگ وتاریک گلیوں ،کچی بستیوں اور جھونپڑیوں کے یہ مکین، کہنے سننے اور دیکھنے کی حد تک تو پاکستانی اور انسان ہیں، لیکن کھلی اور وضح حقیقت تو یہی ہے کہ ان کا پاکستان کے وسائل اور پاکستان کی دولت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ ان کا نصیب ہے؟ اگر یہ ان کا نصیب نہیں ہے تو پھر یہ اپنا نصیب بدلتے کیوں نہیں،،،کسی نے کہا تھا کہ غریب پیدا ہونا کوئی جرم نہیں مگر غریب مرنا جرم ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :