ویلنٹائین ڈے ۔اندھی تقلید

جمعرات 13 فروری 2014

Zahid Raza Chaudhry

زاہد رضا چوہدری

دنیا میں عقائد و تہذیب کا باہم رشتہ قوموں کی بقا کی ضمانت ہوتا ہے ۔کوئی بھی قوم اپنی تہذیب وثقافت اور طرز تمدن سے ہی دنیا میں اپنی امتیازی شان برقرار رکھ سکتی ہے اور عقائد و نظریات کی بنیادوں پر ہی تہذیب و ثقافت کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ اس طرح اگر کوئی بھی قوم اپنی تہذیب و روایات کو چھوڑ کر دوسروں کے طرز حیات اور رہن سہن کے طریقے اپنا تی ہے تو و دنیا میں جہاں اپنی شان کھو بیٹھتی ہیں وہاں اپنی روایات بھی داؤ پر لگا دیتی ہیں۔

ہماری قوم کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے ۔ نظریے کی بنیاد پر قائم ہونے والا ملک آج ایسی کئی قسم کی خرافات کا شکار ہے ۔ غیر اسلامی اور غیر تہذیبی بیماریوں نے قوم کو ایسے جکڑ رکھا ہے گویا ا حساس سود و زیاں تو شائد ختم ہی ہوگیا ہے۔

(جاری ہے)


ہر سال14فروری کو دنیا بھر میں خواتین و حضرات Valentine's Day یا محبت کے اظہار کا دن مناتے ہیں۔اور محبت کے اظہار کیلئے کسی سے شناسائی ضروری نہیں۔

اس دن شریف غیر شریف ، خاص و عام ، فنکار، اداکار، طالب علم استاد غرضیکہ ایک معزز کو دوسرے معزز سے محبت کے اظہار کا گویا بین الاقوامی اجازت نامہ مل گیا ہو۔ چھوٹا بڑا، نوجوان لڑکے لڑکیاں،کالج و یونیورسٹی کے طلبا ء وطالبات اس دن ایک دوسرے کو محبت کے اظہار کیلئے پھول ،تحفے تحائف اور کارڈز بھیجتے ہیں۔محبت کے اظہار کا یہ کھیل میاں بیوی یا شادی شدہ رشتوں کی بجائے غیر شادی شدہ افراد کے مابین زیادہ زور شور سے کھیلا جاتا ہے۔

اس دن منچلوں اور دل پھینک عاشقوں کی جانب سے نہ صرف رقص و سرور کی محافل کا انعقاد کیا جاتا ہے بلکہ فحش اور غیر اخلاقی سرگرمیوں کا بھی باقائدہ انتظام کیا جاتا ہے۔یعنی اس دن بے شرمی اور بے حیائی کے وہ مظاہرے کئے جاتے ہیں کہ غیرت و حمیت سر پیٹ کے رہ جاتی ہے۔
ویلنٹائین ڈے کی Promotions میں جہاں میڈیا اور لبرل فاشٹ بڑا کردار ادا کرتے ہیں وہاں ملکی و غیر ملکی کمپنیاں بھی کارڈز اور پھولوں کی فروخت کی مد میں ملک سے برا سرمایا سمیٹنے میں مصروف عمل ہوتے ہیں اور آج کے اس comercialised دور میں اس دن کو ایک تجارتی source کے طور پر پروموٹ کر کے معاشرے کے اخلاقی پہلو کو تباہ کرتی ہیں۔

غرضیکہ یہ تمام عوام مل کرمحبت کے اظہار کے نام پردراصل معاشرے کی بربادی کا سبب بنتے ہیں۔۔۔ اور ستم ظریفی اس قوم کی جسکا ایک ایک بال غیر ملکی قرضوں میں جکڑا ہو، جو قوم دہائیوں سے جنگ کی حالت میں ہو، جسے بنیادی ضروریات زندگی کی چیزیں با آسانی دستیاب نہ ہوں، جسے پینے کیلئے صاف شفاف پانی تک میسر نہ ہو۔جو صحت کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہو اورجو تعلیمی میدان میں بھی دنیا سے پیچھے ہو۔

۔۔۔کیا وہ قوم اس قسم کی فضولیات اور خرافات کی متحمل ہو سکی ہے؟؟۔ کیا اس قوم کی تہذیب اور روایات اسکی اجازت دیتی ہیں؟؟۔ کیااس قوم کا مذہب اسلام اس فحش ، غیر اخلاقی اور فضول رسم یا تہوار کی اجازت دیتا ہے؟؟؟۔بقول شاعر،
ہر کوئی مست مے ذوق تن آسانی ہے
تم مسلمان ہو؟ یہ انداز مسلمانی ہے؟
مذہب اسلام جو کہ مکمل ضابطہ حیات ہے کسی بھی قسم کی فضولیات، خرافات اور بے حیائی پر مبنی سرگرمیوں کی سرحا نفی کرتا ہے۔

اللہ قرآن کی سورہ نور میں فرماتا ہے،
’ مسلمان مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں،یہی انکے لئے پاکیزگی ہے،لوگ جو کچھ کریں،اللہ سب سے باخبر ہے۔اور مسلمان عورتوں سے بھی کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور عصمت میں فرق نہ آنے دیں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں۔
سورہ نور کی ایک اور آیت کے مطابق،
”وہ لوگ جو ایمان والوں میں بے حیائی پھیلانا چاہتے ہیں،انکے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے“
حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ نے روائت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا” جب لوگوں کا یہ حال ہو جائے کہ وہ برئی دیکھیں اور اُسے بدلنے کی کوشش نہ کریں،ظالم کو ظُلم کرتے ہوئے پائیں اور اُسکا ہاتھ نہ پکڑیں،تو قریب ہے کہ اللہ اپنے عذاب میں سب کو لپیٹ لے، قسم تُم پر لازم ہے کہ بھلائی کا حُکم دو اور برائی سے روکو،ورنہ اللہ تُم پر ایسے لوگ مسلط کریگا جو تُم میں سے بدتر ہونگے،اور وہ تُم کو سخت تکلیف دیں گے۔

پھر تہارے نیک لوگ اللہ سے دعا مانگیں گے مگر وہ قبول نہ ہوگی۔ “
صحیح بخاری کی ایک اور حدیث کے مطابق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ” تم لوگ اپنے سے پہلی قوموں(یہود و نصاری) کی قدم بقدم پیروی کروگے۔اگر وہ لوگ گوہ کے سوراخ میں داخل ہونگے تو تم لوگ اس میں بھی داخل ہونے کی کوشش کرو گے۔۔
اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب میں بھی ایسی غیر اخلاقی حرکات کی قطا اجازت نہیں۔

۔۔۔عیسایت کے پیروکار ممالک بھی ایسے شرمناک اور تہذیب کے قاتل تہوار کو رواج دینے میں ہچکچاہٹ کا شکار رہے۔ فرانس نے ایک موقع پر اس لغو تہوار کو1776 میں ممنوع قرار دے دیا اور اٹلی،ہنگری، آسٹریا اور جرمنی نے بھی اس فحش رسم سے پیچھا چھُڑا لیا جبکہ انگلینڈ میں puritans کے دور حکمرانی تک اس پر پابندی رہی مگر چارلس دوئم نے اپنے رُمانوی ذوق کی بنا پر اسے دوبارہ ہوا دی۔

۔ایک عیسائی روائیت کے مطابق،
For this is the will of God, even your sanctification, that ye should abstain from fornication" (Thessalonians 4:3)
ترجمہ:۔ چنانچہ خدا کی مرضی یہ ہے کہ تم پاک بنو یعنی حرامکاری سے بچے رہو(تھسلینکیوں باب4آیت3)
دوسری روائیت،
"But fornication, and all uncleanness, or covetousness, let it not be once named among you, as becometh saints;" (Ephesians 5:3)
ترجمہ:۔اور جیسا کہ مقدسوں کو منسب ہے تم میں حرام کاری اورکسی طرح کی ناپاکی یا لالچ کاذکر تک نہ ہو۔

(افسیوں باب5آیت3)
تیسری روائیت،
"Even as Sodom and Gomorrha, and the cities about them in like manner, giving themselves over to fornication, and going after strange flesh, are set forth for an example, suffering the vengeance of eternal fire." (Jude 1:7)
ترجمہ:۔اسطرح ’سدوم اور عمورہ‘ اور انکے آس پاس کے شہر جو انکی طرح حرامکاری میں پڑ گئے اور غیر جسم کی طرف رغب ہوئے، ہمیشہ کی آگ میں گرفتار ہو کر جامی عبرت ٹھہرے ہیں۔

(یہودہ باب1آیت7)
مندرجہ بالا روایات سے پتا چلتا ہے کہ دنیا کا ہرمذہبی حلقہ کسی فحش اور لغو پر مبنی سرگرمیوں کی قطعی نفی کرتا ہے۔یہ مذہب سے مفرور ،اخلاق کے دشمن اور روایات سے باغی اور تخریبی اذہان کی کاروائیاں دنیا کی مثبت تہذیب اور طرز حیات کے خلاف کُھلی جنگ ہے۔۔۔۔۔ اگرچہ مغرب نے اپنی الحامی کتابوں کے برعکس اپنے مذہب سے بیگانگی اختیار کرتے ہوئے خرافات پر مبنی دنیا میں ایک نئی تہذیب کی بنیاد ڈال دی ہے۔

۔۔تو کیا ہم بھی انکی پیروی میں اندھے ہو کر اپنی سماجی و مذہبی روایات اور طرزوتمدن سے رُوگردانی کریں گے؟؟؟ کیا ہم بھی انکی اندھی تقلید کرتے ہوئے اخلاقیات کا جنازہ نکالیں گےء ؟؟؟؟ کیا ہم بھول گئے ہُم دنیا کے عالمگیر مذہب دین اسلام کے داعی اور دنیا میں آنے والے تمام نبیوں کے سردار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمتی ہیں۔۔کیا اتنی شان و شوکت کے حامل ہم اس قدر غلیظ اور گھٹیا کام میں اپنی جوانی اور بڑھاپا سرف کریں گے۔

۔۔اللہ نے عقل و خُرد جیسی بڑی نعمت سے نواز کر انسان کو جہاں دیگر مخلوقات سے بلند کیا ہے وہاں نبی آخر الزماں کا اُمتی بنا کر مسلمان کو ممتاز مقام دیا ہے۔۔۔۔اب دینی غیرت کا تقاضا ہے کہ ہم شرم و حیا کا مظاہرہ کرتے ہوئے نبی کے اُمتی ہونے کی لاج رکھیں۔وگرنہ بخاری شریف میں نبی اکرم کا قول ہے کہ، ”جب تجھ میں شرم نہ رہے تو جو چاہے کر“۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :