قبائل میں آپریشن اور مذاکرات … ایک تاریخی کہانی

منگل 11 فروری 2014

Molana Shafi Chitrali

مولانا شفیع چترالی

یہ 1936ء کا واقعہ ہے۔ بنوں کی ایک ہندو لڑکی ”رام کوری“ نے اسلام قبول کر لیا اور ”اسلام بی بی“ بن گئی۔ امیر نور علی نام کے ایک نوجوان کے ساتھ اس کی شادی ہوگئی۔ لڑکی کی ہندو ماں نے انگریزوں کے ماتحت انتظامیہ کو درخواست دی کہ اس کی بیٹی نو عمر ہے اور اسے ورغلا کر زبردستی مسلمان کیا گیا ہے۔ عدالت نے لڑکی کی ماں کی درخواست پر کارروائی کرکے لڑکی اس کے حوالے کردی اور امیر نور علی خان کو اغواء کے مقدمے میں دو سال کے لیے قید کی سزا سنادی۔

بنوں اور وزیرستان کے قبائل نے اس فیصلے کے خلاف جرگہ بلایا اور جرگے نے نومسلم لڑکی کی بازیابی اور اس کے شوہر کی رہائی کے لیے جہاد کرنے کا فیصلہ کیا۔فقیر صاحب کو جو اپنی دینی حمیت کے لیے معروف تھے، امیر مقرر کرکے جہاد کا آغاز کردیا گیا۔

(جاری ہے)

یہ ”فقیر صاحب“ معروف مجاہدِ حریت فقیر آف ایپی تھے۔ ان کا اصل نام مرزاعلی خان تھا اور وہ شمالی وزیرستان کے طوری خیل وزیر قبیلے سے تعلق رکھتے تھے، درویشانہ و مجاہدانہ زندگی گزارنے کی وجہ سے” فقیر آف ایپی“ کے نام سے مشہور تھے۔


فقیر ایپی نے سب سے پہلے محسود قبائل کی حمایت حاصل کرنے کی خاطر شمالی وزیرستان کا سفر کیا۔ انگریز سرکارنے فقیر ایپی کی سرکوبی کی خاطر نومبر1936ء میں دوبریگیڈ فوج بھیجی اورخسورا اور داور کے علاقے میں اس فوج کی غیور قبائلیوں کے ساتھ جنگ ہوئی، جس میں انگریزوں کو سخت مزاحمت کا سامنا ہوا۔ صرف چار دن میں انگریز فوج کے بیسیوں فوجی مارے گئے، جس کے بعد انگریز سرکار نے یہ آپریشن ملتوی کرکے فوج واپس بلالی لیکن بعد میں مختلف علاقوں میں چھوٹے چھوٹے دستے بھیج کر کارروائیاں کی جاتی رہیں۔

بہت سے قبائلی مجاہدین گرفتار کیے گئے۔ انگریزوں نے اس دوران اپنی فضائی طاقت کا بھر پور استعمال کیا اور کئی علاقوں پر بمباری کرکے قبائلیوں پر اپنی دھاک بٹھانے کی کوشش کی۔اپریل1937ء میں جنوبی وزیرستان میں شور تنگی کے مقام پر انگریز دستے پر قبائلیوں نے یکبارگی حملہ کردیا، جس میں53 انگریز سپاہی مارے گئے۔ مرنے والوں میں7 اعلیٰ افسران بھی شامل تھے۔

اس واقعے نے انگریز سرکار کے ہوش اڑادیے اور اس نے فقیر ایپی کے ساتھ مذاکرات کا ڈول ڈالا۔ فقیر ایپی نے مذاکرات کے لیے3 شرائط رکھیں:
1۔ اسلام بی بی کو مسلمانوں کے حوالے کیا جائے۔
2۔انگریز فوج قبائلی علاقوں سے نکل جائے
3 ۔گرفتار مجاہدین رہا کیے جائیں۔
انگریز سرکار نے یہ شرائط تسلیم کرنے سے ا نکار کردیا اور لڑائی جاری رکھی، اس دوران متعدد قبائلی علاقوں پر بمباری بھی کی گئی۔

فقیر ایپی نے گرویک کے مقام کو اپنا مستقر بنالیا اور انگریزوں کے خلاف جدوجہد جاری رکھی۔اس دوران 1939ء میں جب دوسری جنگِ عالمگیر شروع ہوئی تو جرمنی اور اٹلی کی حکومتوں نے فقیر ایپی سے رابطے کیے اور انہیں انگریزوں کے خلاف جنگ جاری رکھنے میں مدد کی پیش کش کی۔ اس کا مقصد انگریز فوج کو دوسری جنگ عظیم کے دوران قبائلی علاقوں میں مصروف رکھنا تھا، انگریز اس بات کو بخوبی سمجھتا تھا، اس لیے اس نے فقیر ایپی کو مزید چھیڑنے سے گریز کیا۔

فقیر ایپی نے گرویک میں اپنی ایک الگ ریاست تشکیل دی تھی۔
1947ء میں جب پاکستان بن گیا، فقیر ایپی نے اسے تسلیم نہیں کیا اور رزمک کے مقام پر منعقدہ ایک جرگے میں”آزاد پختونستان“ کے نام سے چند قبائلی دیہات پر مشتمل ریاست بنائی اور فقیر ایپی اس کے سربراہ بن گئے۔ فقیر ایپی نے پاکستان کی فوج کو انگریز فوج کا تسلسل قرار دے کر کچھ عرصے تک اس کی مزاحمت کی، تاہم بعد میں قبائلی عمائدین نے ایک ایک ہوکر پاکستان میں شمولیت اختیار کرلی اور فقیر ایپی تنہا رہ گئے۔

1960ء میں ان کا انتقال ہوگیا۔
قارئین! اس کہانی کا حاصل یہ ہے کہ1936ء میں انگریز سرکار نے جس کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا، صرف ایک ”دہشت گرد“ فقیر ایپی کو شکست دینے کی خاطر قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن شروع کردیا تھا، جس کے دوران ہر طرح کی زمینی و فضائی طاقت استعمال کرنے کے باوجود انگریزوں کو فتح نہ مل سکی۔اس زمانے میں فضائی طاقت ایک نئی ایجاد تھی اور دنیا میں صرف چند ممالک کے پاس یہ طاقت موجود تھی۔

مجاہدین کے پاس اس طاقت کا کوئی توڑ نہیں تھا، اس کے باوجود انگریزایک فقیر ایپی کو شکست نہ دے سکا۔ اس سے قبل 1920ء کی دہائی میں حاجی صاحب ترنگ زئی نے قبائلی علاقوں میں انگریزوں کو تگنی کا ناچ نچا ئے رکھااور ان کے خلاف بھی کئی بھر پور زمینی و فضائی آپریشن ناکامی سے دوچار ہوئے۔ فقیر ایپی کی طرح حاجی ترنگ زئی بھی انگریزوں کے ہاتھ نہ لگ سکے۔


آج جولوگ آپریشن آپریشن کی رٹ لگارہے ہیں اور عالمِ مد ہوشی میں امریکا سے مزید ڈرون حملے کرنے کی التجا کر رہے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے قبائلی علاقوں کی تاریخ نہیں پڑھی، ورنہ وہ پاکستانی فوج اور حکومت کو قبائلیوں سے لڑنے کی تاریخی غلطی دہرانے پر کبھی نہ اکساتے۔ قبائل کی صدیوں کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت زور، زبردستی اور جبر وتشدد کے ذریعے انہیں رام نہیں کرسکی ہے۔

خود امریکا گزشتہ چھ سات برسوں سے قبائل میں آتش و آہن کی بارش بر سا رہا ہے،اس کے باوجود وہ طالبان کی طاقت کو ختم نہ کرسکا۔امریکا نے قبائل میں جتنے ڈرون حملے کیے ہیں، ان کو دیکھتے ہوئے اب تک کم ازکم وزیرستان کو تو مکمل طور پر خالی ہوجانا چاہیے مگر آخر کیا وجہ ہے کہ آج بھی طالبان کی پوری قیادت اسی وزیرستان میں موجود ہے، جہاں اس وقت بھی رات دن موت بانٹنے والے ڈرون طیارے پر واز کرتے ہیں۔

یہ بات طے ہے کہ قبائلی علاقوں میں طالبان کا وجود مقامی قبائل کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ قبائل پر امریکی ڈرون حملے طالبان کی نفری میں اضافے کا ہی باعث بنتے ہیں۔ بدلہ لینا قبائلی کلچر کے بنیادی عناصر میں شامل ہے اور اگر اس وقت قبائلی علاقوں میں شورش کے بنیادی اسباب تلاش کیے جائیں تو در حقیقت وہاں عمل و رد عمل اور انتقام و جوابی انتقام کی جنگ جاری ہے۔

ایک طالبان رہنما کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ ایک ڈرون حملے کے نتیجے میں انہیں دس فدائی بمبار میسر آجاتے ہیں۔
آج جولوگ امریکا کو مزید ڈرون حملوں کی دعوت دے رہے ہیں، کیا ہی اچھا ہو اگر امریکا ان کی التجا پر عمل کرتے ہوئے ڈرون طیاروں سے چند”فرینڈلی “ ڈرون میزائل اسلام آباد اور کراچی میں قائم ان کے محلات پر بھی گرادے تاکہ انہیں اندازہ ہو کہ میزائلوں سے جب ہنستے بستے گھر اجڑتے ہیں، انسانی چیتھڑے فضاوٴں میں اڑتے ہیں، بچوں اور خواتین کی لاشیں نکلتی ہیں اور فضا میں بارود کی بو پھیل کر دل و دماغ کو مسموم کرکے رکھ دیتی ہے ، تویہ کیسا ”روح افزا“ منظر ہوتا ہے اور اس سے ڈرون حملوں کی التجا کرنے کی”حس مزاح“ کو کتنی بالیدگی ملتی ہے۔

شنید ہے کہ امریکا میں کسی کے ساتھ سڑک کا معمولی حادثہ بھی ہوجائے تو اسے اس وقت تک دوبارہ گاڑی چلانے کی اجازت نہیں ہوتی جب تک وہ کسی نفسیاتی معالج سے اس بات کا سرٹیفکیٹ لاکر پیش نہ کردے کہ وہ اس حادثے کے نفسیاتی اثرات سے باہر آچکا ہے۔ قبائلی علاقوں میں خاندانوں کے خاندان تباہ کیے گئے،ہزاروں بے گناہ لوگوں کو مارا گیا اور لاکھوں بے خانماں کر دیے گئے، اب ان قبائلی عوام کے دکھوں کا مداوا کرنے اور زخموں پر مر ہم رکھنے کی بجائے ان پر مزید قہر برسانے کی کوشش کی گئی تو اس کے نتائج تاریخ کے آئینے میں بالکل واضح ہیں۔

فقیر ایپی کا ”آزاد پختونستان “اس وقت تو عوام کی خوش امیدیوں کے باعث نہیں بن سکا، اب اگر امید کاگلا گھونٹ دیا گیا، تو اس کے نتیجے میں پاکستان اور افغانستان کے قبائلی خطے میں وہ کچھ ہوسکتا ہے جس کی پیش گوئی ایک امریکی ادارے نے اپنی تازہ رپورٹ میں کردی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :