سب سے پہلے پاکستان !

اتوار 9 فروری 2014

Nabi Baig Younas

نبی بیگ یونس

اگر آپ سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی کتاب "سب سے پہلے پاکستان"پڑھیں تواس میں دو ہی چیزیں نظر آرہی ہیں، پہلی یہ کہ مشرف بہت نڈر اور بہادر ہیں اور وہ کسی سے ڈرتے ورتے نہیں ہیں اور وہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر موت کا سامنا کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ دوسری یہ کہ مشرف صاحب کو اپنا ملک پاکستان جان سے بھی زیادہ عزیز ہے اور وہ ہر چیز پر اپنے ملک کو ترجیح دیتے ہیں۔

لیکن یہ صرف مشرف کے الفاظ ہیں جو شائد الفاظ تک ہی محدود ہیں، کیونکہ انہوں نے ثابت کردکھایا کہ وہ عملی طور پر ایسے نہیں ہیں۔ ہم کتاب میں لکھی جانے والی انکی باتوں پر کیسے یقین کریں کہ وہ بہادر ہیں اور اپنے ملک کو سب سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں، کیونکہ ہمارے سامنے تو انہیں پہلی مرتبہ دشواری کا سامنا کرنا پڑا تو وہ عدالت میں حاضر ہونے کے بجائے ایک ہسپتال میں چھپ کر بیٹھ گئے ہیں۔

(جاری ہے)

جس شخص کو عدالت کے بلائے جانے پر دل کا دورہ پڑے تو اس کے بارے میں کون احمق کہے کہ وہ نڈر ہیں۔
پرویز مشرف کتاب کے صفحہ پندرہ پرلکھتے ہیں کہ "میری تربیت نے مجھے پاکستان کی خدمت میں مستعد رہنے کیلئے تیار کیا ہے۔" صفحہ ۳۲ پاکستان میری منزل، صفحہ۳۰ اس ارض پاک کی حفاظت کیلئے اپنی جان کی بازی لگادوں گا، صفحہ۵۰پراپنے بچپن میں نڈر ہونے کے بارے میں لکھتے ہیں کہ میں اکثر لڑائی جھگڑوں میں شامل ہوتا تھا اور ایک مرتبہ کنیئرڈ کالج میں ایک لڑکے کو باہر لا کر صرف اس وجہ سے خوب ٹھکائی کی کہ وہ میری کرسی کو بار بار ٹھوکریں مار رہا تھا، اس کے بعد" بادی پہلوان"کے اکھاڑے سے تعلق رکھنے والے اس کے دوست بھی میرے سامنے نہیں آئے۔

مشرف صفحہ۷۵پر لکھتے ہیں کہ انہوں نے نفسیاتی دباؤ سہنا، اپنی جسمانی قوت برداشت کو بڑھانا اور مشکل مرحلوں میں فوری فیصلے کرنابھی سیکھا، خصوصاً ایسے مرحلے جن کے فیصلوں کے نتائج پر ہماری زندگی اور موت کا انحصار ہو۔صفحہ ۵۹ پر لکھتے ہیں کہ "میں نے اپنے سینئر کیڈٹس کو صحیح ڈرل کرنے کا طریقہ دکھانے کی جرات کی تھی"۔مشرف ۶۴پر یہ بھی لکھتے ہیں کہ وہ جنگ کے دوران ایک مرتبہ جلتی ہوئی توپ گاڑی میں گھس گئے۔

اسی صفحہ پر وہ فخرسے کہتے ہیں کہ سامان حرب بچانے کے انعام میں انہیں بہادری کا تمغہ بھی ملا۔سابق جرنیل پرویز مشرف صفحہ۶۵ پر لکھتے ہیں "کمانڈو کو جنگل، پہاڑوں اور ریگستانوں میں زندہ رہنے کے طریقے سکھائے جاتے ہیں"۔ہا ہا ہا ہا۔۔۔ مجھے کوئی مزاحیہ کتاب پڑھتے ہوئے بھی کبھی اتنی ہنسی نہیں آئی جتنی ہنسی مجھے مشرف کی کتاب پڑھتے ہوئے آئی۔

کیونکہ یہ کتاب تضادات سے بھری پڑی ہے۔کتاب میں انفارمیشن کم لیکن انپی تعریفیں زیادہ ہیں۔پرویز مشرف نے جنگل ، پہاڑوں اور ریگستانوں میں زندہ رہنے کے طریقے سیکھے ہیں لیکن عدالت کے سامنے پیش ہونے کیلئے ہمت نہیں سیکھی۔ انکی کتاب کا ہر فکرہ مجھے مذاق سے کم نہیں لگا۔ ایک طرف سے میں انکی اپنے نڈر اور بہادہونے کے دعوے پڑھتا جارہا تھا تو دوسری طرف عدالت میں روانہ ہونے پر انہیں دل کا دورہ پڑھنے اور عدالت کے بجائے ہسپتال پہنچنے کا واقعہ ذہن میں گردش کررہا تھا۔

مشرف صفحہ ۱۳۵پر لکھتے ہیں"موت کے بارے میں بھی میرا یقین ہے کہ اگر آنی ہے تو ضرور آئے گی"۔ کہا جاتا ہے کہ کہنا آسان ہوتا ہے عملی طور پر کردکھانے سے۔ موت کی تو دور کی بات ہے جو شخص عدالت میں حاضر ہونے سے گھبرائے تو اس کو ایسے بلند و بانگ دعوے نہیں کرنے چاہئیں۔ وہ کہتے ہیں کہ تربیت نے مجھے یہ بھی سکھایا کہ سختیاں اور صعوبتیں جھیلنے میں جسمانی قوت سے زیاہ دماغی لچک کا ہاتھ ہے۔


پرویز مشرف معرکہ کارگل کا ذکر کرتے ہوئے صفحہ۱۲۰پر لکھتے ہیں کہ "عالمی دباؤ کی وجہ سے نواز شریف نے ہمت ہاردی "ہاں، اگر یہ بات مان لیتے
ہیں کہ عالمی دباؤ نواز شریف برداشت نہیں کرسکے اور انہوں نے کارگل سے فوجیں واپس بلانے کا فیصلہ کرلیا ۔ دوسروں کو بزدل کہنا آسان ہوتا ہے لیکن جب اپنی آزمائش کا وقت آتا ہے تو گھٹنے جواب دیتے ہیں۔

کیونکہ پرویز مشرف کتاب میں آگے چل کر خود اعتراف کرتے ہیں کہ اگر وہ نائن الیون کے بعد امریکہ کا ساتھ نہ دیتے تو ہمیں خطرہ تھا وہ ہمیں پتھر کے دور میں پہنچاتے۔مشرف ۲۵۴ پر لکھتے ہیں کہ"اگر ہم امریکہ کا ساتھ نہ دیتے تو اس کا رد عمل غیظ و غضب سے بھر پور ہوتا، سوال یہ تھا کہ اگر ہم امریکہ کا ساتھ نہ دیتے تو کیا ہم اس کے حملے کا مقابلہ کرسکتے تھے؟ "یہاں وہ کیوں بھول گئے کہ انہیں عالمی دباؤ قبول نہیں کرنا چاہئے تھا، یہاں ان کے اللہ پر یقین اور موت اٹل ہونے کے دعوے کہا گئے ؟ میرے ناقص رائے کے مطابق "سب سے پہلے پاکستان"کے دعویدار پرویز مشرف جس نے اپنی کتاب میں پاکستان کی وفاداری اور بہادر ہونے کے دعوے کئے ہیں کو انپے الفاظ کی لاج رکھنی چاہیے اور ملک سے باہر جانے کا ارادہ ترک کرتے ہوئے آئین اور قانون کی پاسداری کرنی چاہیے اور عدالتوں میں پیش ہونے سے نہیں گھبرانا چاہیے!۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :