مذاکرات … موضوع کیا ہو؟

جمعہ 7 فروری 2014

Molana Shafi Chitrali

مولانا شفیع چترالی

کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے۔ حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا باقاعدہ آغاز ہوگیا ہے اور پوری پاکستانی قوم سانس روکے مذاکرات کے مثبت نتائج نکلنے کی منتظر ہے۔ مذاکراتی کمیٹیوں کے لیے حکومت اور تحریک طالبان کے انتخاب پر بہت بحث ہوچکی ہے ، اب اس پر مزید بات کرنے کا شاید وقت نہ رہا۔ اس وقت سب سے اہم سوال یہ ہے کہ مذاکرات کن امور پر ہوں گے اور ایسا کون سا فارمولا ہوسکتا ہے جس پر دونوں فریق ممکنہ طور پر متفق ہوسکتے ہیں اور جس پر عمل کرکے ملک کو موجودہ کشت وخون اور انتشار وخلفشار سے بچایا جاسکتا ہے۔

ممکن ہے کہ راز داری کی تمام تر دوطرفہ کوششوں کے باوجود ان سطور کی اشاعت تک مذاکرات کے لیے تحریک طالبان کی شرائط ومطالبات اور ان پر حکومتی کمیٹی کے ردّعمل کی کچھ تفصیلات سامنے آجائیں تاہم یہ بات طے ہے کہ مذاکرات کے دوران کمیٹیوں کے ارکان کے سامنے کئی سخت مقامات آئیں گے اور یہ دونوں کمیٹیوں کے تجربہ کار وجہاں دیدہ ارکان کی صلاحیت پر منحصر ہے کہ وہ دو انتہاوٴں کے درمیان مصالحت اور مفاہمت کا پل تعمیر کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں۔

(جاری ہے)

اس کامیابی سے ملک کا مستقبل وابستہ ہے اور اگر خدانخواستہ یہ مرحلہ بھی بد اعتمادیوں، سازشوں اور بیرونی دباوٴ کی نذر ہوگیا تو شاید مستقبل کا موٴرخ اس کے دیگر ذمہ داروں کی طرح مذاکراتی کمیٹیوں کے ارکان کو بھی معاف نہیں کرے گا۔
جہاں تک طالبان کی جانب سے قیدیوں کی رہائی، نقصانات کے ازالے، شورش زدہ علاقوں سے فوج کی واپسی اور غیرملکیوں کو قبائلی علاقوں میں پرامن طریقے سے رہنے کی اجازت دینے کے ممکنہ مطالبات کا تعلق ہے جن کی بازگشت قومی حلقوں میں سنی جارہی ہے،، تو اگرچہ ان میں سے بعض مطالبات کی منظوری بھی موجودہ معروضی حالات میں حکومت کے لیے آسان نہیں ہوگی تاہم اگر وہ مسئلے کا پر امن حل تلاش کرنے میں سنجیدہ ہوتوکچھ جوابی مطالبات اور شرائط کے ساتھ ان میں سے اکثر مطالبات کی منظوری کی صورت بن سکتی ہے۔

باخبر ذرائع کے مطابق حکیم اللہ محسود پر ڈرون حملے سے قبل ہونے والے بیک ڈور رابطوں میں ان میں سے کچھ امور پر اصولی اتفاق ہوگیا تھا، اور اب بھی ان پر غور ہورہا ہے۔ حکومت کے پاس ان اقدامات کا دفاع کرنے کے لیے بہت سارا مواد موجود ہوگا کیوں کہ داخلی شورشوں سے نمٹنے کے لیے اس طرح کے سمجھوتے اور معاہدات دنیابھر میں ہوتے رہے ہیں۔جو قوتیں پاکستان پر طالبان سے مذاکرات نہ کرنے کے لیے دباوٴ ڈال رہی ہیں، خود ان کی جانب سے بھی اس طرح کے متعدد معاہدے ریکارڈ پر ہیں۔

اس لیے ایسے کسی سمجھوتے پر عالمی قوتوں کے اعتراض یا منفی دباوٴ کوئی حقیقی مسئلہ نہیں ہوگا۔
اصل سوال تحریک طالبان کی جانب سے پاکستان میں نفاذشریعت کے مطالبے کا ہے جس پر پوری دنیا کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔ اس مطالبے کو ترک کرنا طالبان کے لیے ممکن نہیں ہے کیوں کہ یہ اب اس تحریک کے اساسی فکر کا حصہ بن چکا ہے اور اس کے لیے تحریک نے بہت قربانیاں بھی دی ہیں۔

اسی طرح اس مطالبے کو مجردتصورمیں منظور کرنا بوجوہ حکومت کے بس میں نہیں ہے۔ البتہ تحریک طالبان نے اپنی مذاکراتی کمیٹی میں آئین کے دائرے میں پرامن سیاسی جدوجہد کرنے والی دینی جماعتوں کے راہنماوٴں کو شامل کرکے عملی طور پر یہ پیغام دے دیا ہے کہ وہ حکومت سے آئین پاکستان کے دائرے میں رہ کر مذاکرات کرنا چاہتی ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جس سے مذاکرات کی کامیابی کی ایک امید ضرور بن جاتی ہے۔

اگر حکومت تحریک طالبان کے مطالبے پر ملک میں مکمل شرعی نظام کے قیام پر آمادہ ہوجاتی ہے تو اس سے بہتر بات اور کیا ہوسکتی ہے ،مگر معروضی حالات میں ہم اس کی صرف خواہش اور تمنا ہی کرسکتے ہیں۔ جس حکومت پر مختلف طاقت ور داخلی وخارجی قوتیں آپریشن کے لیے دباوٴ ڈال رہی ہوں اور جس پر مذاکرات کی آڑ میں فوجی کارروائی کی تیاریاں کرنے کے الزامات بھی لگ رہے ہوں، اس سے اس بات کی توقع نہیں رکھی جاسکتی کہ نفاذ شریعت کے حوالے سے وہ کچھ زیادہ لچک یا جرأت کا مظاہرہ کرسکے گی۔


تاہم تحریک طالبان کے پاس یہ اچھا موقع ہے کہ وہ ان مذاکرات کے دوران حکومت کو کم ازکم ان امور پر لانے کی کوشش کرے جو خود آئین پاکستان کے مطابق اس کی ذمہ داری بنتے ہیں۔ مثال کے طور پرتحریک طالبان کو مسلم لیگ ن سے اس شریعت بل کے نفاذ کا مطالبہ کرنا چاہیے جو خود میاں نوازشریف نے اپنے گزشتہ دور حکومت میں قومی اسمبلی میں پیش کیا تھا۔

اس بل کے نفاذ سے موجودہ آئینی ودستوری ڈھانچے کے اندر ایسی اصلاحات ممکن ہیں جن سے پاکستان کے عوام کو اسلام کی عادلانہ تعلیمات کے مطابق انصاف کی فراہمی ممکن ہو سکے گی اور انگریزوں کے فرسودہ نظام سے بہت حد تک نجات ملے گی۔یہ بل چونکہ مسلم لیگ ن کا اپنا تیار کردہ تھا،اس لیے اس کے نفاذ پر کوئی حکومت کو یہ الزام نہیں دے سکے گا کہ وہ ”طالبان کی شریعت“ نافذ کرنے جارہی ہے۔


تحریک طالبان کو دوسرا مطالبہ ملک میں سودی نظام معیشت کے خاتمے کا کرنا چاہیے جس کا خود پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے آج سے 20 برس قبل اسی مسلم لیگ ن کی حکومت کو حکم دیا تھا۔ اس مطالبے کی منظوری کی صورت میں پاکستان کو سودی تجارت کی نحوست سے نجات ملے گی اور اسلام کی منصفانہ معاشی تعلیمات کا احیا ہوسکے گا جس سے امیر اور غریب کے بڑھتے ہوئے فرق کو کم کیا جاسکے گا۔

اس طرح نفاذ شریعت کا ایک بڑا ثمرہ قوم کو میسر آسکے گا۔ اس سلسلے میں حکومت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی کو شریعہ مشاورتی بورڈ میں شامل کرکے خود شروعات کرچکی ہے۔ اب جو اقدام کیا جائے گا،اس پر بھی” طالبانائزیشن“ کا الزام نہیں لگ سکے گا۔
علاوہ ازیں طالبان کمیٹی کو حکومت سے ملک کے نظام تعلیم میں بنیادی اصلاحات اور تمام صوبوں میں ناظرہ قرآن اور عربی واسلامیات کی تعلیم لازمی قرار دینے کا مطالبہ کرنا چاہیے جس کی مدد سے ملک میں ایک صالح معاشرے کی تشکیل ممکن ہو سکے گی جوکہ نفاذ شریعت کا ایک بنیادی تقاضا ہے۔

ساتھ ہی کمیٹی کو حکومت سے ملک میں فحاشی وعریانی کی سرگرمیوں پر پابندی لگانے اور مثبت تعمیری وپیداواری سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے سپریم کورٹ آف پاکستان کی ہدایات کی روشنی میں راہنما اصول مرتب کرکے ان پر عمل کرنے کا مطالبہ بھی کرنا چاہیے۔
یہ وہ چند مطالبات ہیں جو صرف تحریک طالبان ہی نہیں بلکہ پاکستان کے ہر باشعور محب وطن اور پڑھے لکھے شہریوں کے دلوں کی آواز ہیں۔

اگر طالبان کمیٹی اور مطالبات کی منظوری کے لیے پرعزم ہو تو یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ پاکستان کے عوام کی غالب اکثریت ان مطالبات کے حق میں تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ ہوگی اور چونکہ یہ مطالبات حکومت کے لیے کسی بھی لحاظ سے ناقابل عمل نہیں ہیں بلکہ حکومت آئینی طور پر ان پر عمل کرنے کی پابند ہے، اس لیے حکومت کے پاس ان کو تسلیم نہ کرنے کا کوئی جواز نہیں ہوگا۔


طالبان کے وفد کے سربراہ ہمارے مخدوم محترم مولانا سمیع الحق صاحب کی ساری زندگی انہی مطالبات کی منظوری کی جدوجہد میں گزری ہے، اب اگر وہ ان مطالبات کی منظوری میں کامیاب ہوسکیں تو یہ ان کی سیاسی زندگی کا سب سے بڑا اور قابل فخر کارنامہ ہوگا اور یقینا اس کا کریڈٹ میاں نوازشریف اور مسلم لیگ ن کو بھی جائے گا۔ مسلم لیگ کو پاکستان کی بانی جماعت ہونے کے ناتے اس امر کا ادراک کرنا چاہیے کہ پاکستان میں شرعی قوانین کا نفاذ صرف تحریک طالبان کا مطالبہ نہیں بلکہ یہ اس کا اپنا وہ وعدہ بھی ہے جس کی تکمیل کا پاکستانی قوم 67 برسوں سے انتظار کررہی ہے۔

یہ بہترین موقع ہے کہ پاکستان مسلم لیگ اس وعدے کی تکمیل کرکے اللہ تعالیٰ کے سامنے اور پاکستانی قوم کے سامنے سرخرو ہونے کی کوشش کرے۔ اگر خدانخواستہ اس موقع پر بھی قوم کے ساتھ دھوکا کرنے کی کوشش کی گئی تو نہیں کہا جاسکتا ہے کہ قوم کب تک انگریز کے فرسودہ نظام کے جال میں پھنسی رہے گی اور اس کے رد عمل میں ملک میں کس طرح کے حالات پیدا ہوں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :