عہدِوفا

بدھ 5 فروری 2014

Abdul Rauf

عبدالرؤف

16سال کی عمر میں گھر چھوڑااور پھر موت تک واپس نہیں جاسکے خاندان کے اکثر افراد وفات پا گئے تو بھی شرکت کا اجازت نامہ نہ مل سکا۔ یہاں تک کہ دو بھائی شہید ہو گئے مگر ظالم کو رحم نہ آیا۔ اس دنیا کے عظیم رشتے ماں اور باپ بھی وفات پا گئے۔ ماں کی وفات پر دل پھٹنے کو آتا تھا مگر حالات کی بے چارگی عروج پر تھی۔ جس دن باپ کی وفات ہوئی تو وہ خود بستر مرگ پر تھے اور ان کو یہ اطلاع دی ہی نہیں گئی کہ آج شفقت اور دعاؤں کا آخری سہارا بھی رخصت ہو گیا۔

اپنوں کی جدائی اور گھر کی دوری کے یہ زخم اپنے وطن کی آزادی کے لیے برداشت کئے۔ وطن کی محبت نے انہیں نیشنلسٹ بنا دیا تھا۔ وصیت کی تھی کہ میرے فوت ہونے کے بعد مجھے کشمیرمیں دفن کر نا ایسا ہی کیا گیا۔ ان کے ایک طالب علم نے جو میر پور سے تعلق رکھتا تھا اُن کے دفن کا انتظام کیا۔

(جاری ہے)

میرے ان سے پہلی ملاقات پنجاب یونیورسٹی کے کشمیر سٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں ہوئی، جہاں وہ چیئرمین کی حیثیت سے کا م کررہے تھے۔

ان کے دفتر میں جانے کا اتفاق ہوا تو پہلی ہی نظر میں پریشان ہو گیا کہ ان سے بات کیسے کی جائے۔ چئیر کے پیچھے ایک نخیف شخصیت براجمان تھی جن کے بدن پر کپکپی طاری تھی (اعصاب کی ایک بیماری جسے رعشہ کہا جاتا ہے) وہ اس قدر زیادہ تھی کہ بات کرنا بھی مشکل تھا۔ جس وقت ہم ان کے پاس گئے تھے ان کی دوائی کا وقت تھا دوائی کھانے کے بعد وہ کچھ دیر ایک صوفے پر لیٹے رہے اور تقریباً 15منٹ کے بعد وہ آہستگی سے اٹھے اور آہستہ آہستہ چلتے ہوئے اپنی کرسی پر بیٹھ گئے اب وہ کافی بہتر محسوس کر رہے تھے۔

ہماری ان سے بات چیت ہوئی گفتگو کے دوران انہوں نے مزاح کابھر پور اِستعمال کیا ۔ وہ زندہ دلی کا ل مکمل مجموعہ تھے۔ دفتر میں ان کے ہاتھ کی بنائی ہوئی تصویریں بھی آویزاں تھیں۔ بعد میں ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا میں نے ان کے نیشنلسٹ ہونے پر اعتراض کیا توانہوں نے کہا کہ بچے تم میرے نیشنلزم کو نہیں سمجھ سکتے۔ ان کے ساتھ ماتحت عملے نے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب کو ہر چار گھنٹے بعد دوائی کی ضرورت پیش آتی ہے اور ٹھیک ہو نے پر تو ہم صحت مند لوگوں سے زیادہ متحرک نظر آتے ہیں۔

ہمہ وقت لوگوں سے رابطے میں رہتے ہیں۔ دفتر میں ڈانٹ ڈپٹ شاید ہی کبھی ہوئی ہو۔ انہی کی کوشش کے نتیجے میں کشمیر سے تعلق رکھنے والے راجہ نزاکت علی اور قصور سے تعلق رکھنے والی نادیہ مہر سری نگر سے پی ایچ ڈی کرنے والے پہلے پاکستانی کا اعزاز حاصل کر چکے ہیں۔ یہ دونوں ڈاکٹرصاحب کی ذاتی کوششوں کے نتیجے میں سارک کے پلیٹ فارم سے سری نگر گئے ۔

انہی ملاقاتوں کے دوران یہ رازبھی کھلا کہ ڈاکٹر محمد اشرف قریشی صاحب جنوبی ایشیا کے پہلے ہائی جیکر ہیں ۔ یہاں سے ہی وہ دکھی کہانی شروع ہوتی ہے۔ جو ان کی وفات تک مختلف نشانیوں کی صورت میں جاری رہی۔ وہ بے حد جرات اور حوصلہ مند شخصیت کے مالک تھے۔ اعصاب کی یہ بیماری ان کے جسم پر کئے گئے تشدد کا نتیجہ تھی۔ جو لوگ 1970 ء کی دہائی میں ہوش رکھتے تھے وہ سری نگر سے اغوا کیے گئے گنگا طیارہ کیس کے بارے میں با خوبی جانتے ہیں یہ طیارہ ہاشم قریشی اور ڈاکٹر اشرف قریشی نے اغوا کیا تھا۔

جو غالباً فلسطین کی لڑکی لیلیٰ علی سے متاثر تھے ۔ لاہور کی سڑکوں پر ان کا ہیرو کی طرح استقبال کیا گیا۔ ابھی عمر ہی کیا تھی 16سال کا لڑکپن پھر اچانک منظر سے غائب ہو گئے اور خفیہ ہتھکنڈوں کا شکار ہو گئے۔ ان پر شاہی قلعہ لاہورمیں بے پناہ تشدد ہوا اس بیماری کا تعلق بھی اس تنہائی اور سرد راتوں سے تھا۔ آخر کیا ہوا تھا یہ ایک لمبی کہانی ہے کہ ہیرو کو زیرو کرنے کی کوشش کیوں کی جاتی ہے۔

پنجاب یونیورسٹی کے کشمیر سٹڈیز ڈیپارٹمنٹ پر ان کی شخصیت پر ایک جاندار حقائق سے بھرپور مقالہ موجود ہے۔ مشہور کالم نگار ارشاد احمد حقانی مرحوم نے اپنے کالم میں گنگا طیارہ کیس کے حوالے سے اعتراضات کئے تو ڈاکٹر صاحب نے فون کر کے ان کے ساتھ چائے پینے کی اجازت مانگی تو ارشاد احمد حقانی خود چل کر ان کے آفس آگئے۔ ڈاکٹر صاحب نے ان کو حقائق سے آگاہ کیا اور جسٹس یعقوب لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ ان کے سامنے رکھا جس میں ان کو با عزت بری کیا گیا تھا۔

ارشاد صاحب نے اگلے دن اپنے کالم میں ان سے معذرت طلب کی اور وضاحتی بیان بھی جاری کیا۔ (یہ بات ڈاکٹر صاحب نے خود مجھے بتائی تھی)۔ دیکھیں وہ حالات اور واقعات تاریخ کا حصہ ہیں جو بھی ہیں۔ ہاشم قریشی ہالینڈ چلا گیا پھر وہاں سے سری نگر لیکن ڈاکٹر صاحب کو باقی ساری زندگی اپنے گھر جانے کا اجازت نامہ ہندوستان سے نہ مل سکا کیونکہ انہوں نے معافی مانگنے سے انکار کیا۔

ایک خوددار شخصیت کے مالک تھے کشمیر کا نام سنتے ہی جسم پر کپکپی طاری ہو جاتی کشمیر سے بے حد جذ باتی اور گہرا تعلق تھا ۔ محرومی کا احساس کہ کبھی گھر نہیں جاسکے باتوں ہی باتوں میں ہنس کر ٹال دیتے۔ یوم یکجہتی کشمیر کے دودن پہلے 2فروری 2011کو اپنے سینے کی داستان لیے خالق حقیقی سے جاملے ۔ کشمیر کی مٹی سے سرگوشی کے انداز میں کہا ہو گا کہ میں واپس آگیا ہوں۔ بڑی لمبی مسافت تھی خداان کے لیے آسانیاں پیدا کرے۔
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
ہم ہی سو گئے داستاں کہتے کہتے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :