طالبان طالبان اور عوامی مسائل

بدھ 5 فروری 2014

Hussain Jan

حُسین جان

بچپن میں اکثر گھر گھر کھیلا کرتے تھے، جس میں گڈا گڈی کی شادی ، ریت یا مٹی کا گھر بارات ،ولیمہ مہندی نیز تمام وہ رسمیں جو ایک شادی میں ادا کی جاتی ہیں اُن کو پورا کیا جاتا تھا۔ سب سے پہلے تو یہ فیصلہ کیا جاتا تھا کہ کھیل کھیلنا ہے کہ نہیں جب تمام بچوں کی طرف سے "OK"کی آواز آتی پھر دوسرے لوازمات کی طرف جٹ جاتے۔ کون لڑکی والا بنے گا کون لڑکے والے بنے گیں، بارات کیسے جائے گی، کون استقبال کرئے گا۔ کھانے میں کیا کیا ہوگا نکاح کے لیے مولوی صاحب کی بھی ضرورت پڑتی تھی، "وچولوں ("رشتے کروانے والے )کی بھی ڈیمانڈ ہوتی ہے۔ اس طرح تمام کام بہت ترتیب سے سر انجام پا جاتے مگر ہمیشہ کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی گڑبڑ ہوجاتی جس سے سارا کھیل خراب ہوجاتا اور ہم ایک دوسرے سے کبھی نہ بولنے کا فیصلہ کر لیتے لیکن کچھ وقت بعد پھر اکھٹے کھیلتے پائے جاتے۔

(جاری ہے)


اسی طرح آج ملک میں ہر طرف طالبان طالبان کی چیخ و پکار سنائی دے رہی ہے۔ ہر ایک کی اپنی بین ہے جس کو اپنے انداز سے بجائے جارہا ہے۔ کوئی مذاکرات کے حق میں ہے تو کوئی آپریشن پر زور دے رہا ہے۔ کسی کو غیر ملکی ہاتھ نظر آرہا ہے تو کسی کو اندرونی غداری کی بھنک سنائی دے رہی ہے۔ پاکستان تقریبا 10سال سے ایک ایسی جنگ میں جکڑا ہوا ہے جس سے نکلنا آسان نظر نہیں آرہا۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ اتنے ڈالر اس جنگ میں خرچ ہو چکے ہیں بیگنا ہ اور سیکورٹی فورسز کی شہادتیں الگ سے ہیں۔ ہمیں یہ بھی باور کروایا جاتا ہے کہ یہ سب ملک و قوم کے لیے کیا جا رہاہے۔ یعنی جس روپے پر عوام کا حق ہے اُسے ایک بے ہنگم جنگ میں جونکا جا رہا ہے۔ عوامی مسائل کی طرف کسی کا دھیان نہیں ۔ عوام کوطالبان نامی ٹرک کی بتی کے پچھے لگایا ہوا ہے۔ اس ملک کی ایک بدقسمتی رہی ہے کہ اسے قائد کے بعد سے آج تک کوئی لیڈر نہیں مل سکا جو ہماری راہنمائی کر سکے۔ دانشور و ادیب حضرات کی اپنی اپنی وفاداریاں ہیں لہذا وہ بھی عوام کو حقائق سے آگاہ کرنے میں ناکام ہیں۔ آج ہمارا میڈیا آزاد ہے لیکن افسوس اس آزاد میڈیا کی قیمت بھی بڑھ چکی ہے۔ ہر بندہ اپنا اپنا حصہ وصولنے کے چکر میں ہے۔
موجودہ حکومت کو سال ہونے والا ہے مگر آج تک یہ فیضلہ نہیں ہو پایا کہ ہم نے کرنا کیا ہے۔ ہماری ترجہات کیا ہیں۔ روز کمیٹیا ں بنتی ہیں روز ٹوٹتی ہیںآ ئے روز نئے نئے کمیشن قائم کر دیے جاتے ہیں۔ لیڈران اپنے اپنے بیان داغ رہے ہیں۔ کسی کوابھی تک یہ بھی نہیں پتا چلا کہ طالبان چاہتے کیا ہیں اگر شریعت کا نظاذ چاہتے ہیں تو کس قسم کی شریعت کا نظام لانا چاہتے ہیں کہ جس میں ہرطرف خون ہی خون ہو۔ اسلام ایک امن پسند مذہب ہے لیکن کچھ مفاد پرستوں نے اسکے تشخص کو بری طرح نقصان پہنچایا ہے۔ اسلام تو یہ تک کہتا ہے کہ راستے میں سے کسی کے لیے کوئی رکاوٹ دور کرنا بھی صدقہ جاریا ہے مگر یہ کون سا مذہب لانا چاہتے ہیں ،ہمار ی حکومت اپنا دو ٹوک موقف آج تک نہیں دے پائی۔ کیا عوام نے اسی لیے ان لوگوں کو مینڈیٹ دیا ہے کہ وہ پانچ سال طالبان طالبان کھیلتے رہے اور گزشتہ حکومت کی طرح ساری زمہ داری طالبان پر ڈال دیں جیسے ہمارے سابق وزیر آعظم صاحب کا کہنا ہے کہ ہم نے تو پانچ سال عدالتوں کے چکر کاٹنے میں گزار دیے عوام کی خدمت کیسے کرتے۔
دوسری طرف نظر دوڑائیں تو ملک میں انتشار کی سی کفیت ہے ہر طرف بھوک افلاس نے ڈیرئے ڈال رکھے ہیں مہنگائی بے روزگاری، تعلیم و صحت ، بڑھتی ہوئی خودکشیاں حکمرانوں کا منہ چڑا رہی ہیں۔ تمام لیڈران صاحبان نے اپنے اپنے فرزندوں کو عوامی بھلائی کے لیے چھوڑ رکھا ہے،کہیں ثقافتی میلوں کا انعقاد کیا جارہا ہے تو کہیں بسنت کی تیاریاں عروج پر ہے۔ ان فضول چیزوں پر جو پیسہ خرچ کرنا ہے اگر وہ عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جائے تو کسی کا بھلا ہو جائے گا۔ لیکن ایسا کوئی پلان حکومتوں کی لسٹ میں موجود ہی نہیں ہے۔ کچھ لوگوں کو قرضہ دے کر پوری قوم کے مسائل حل نہیں کیے جاسکتے ۔ پنجاب میں چھوٹے میاں صاحب کی حکومت کو 6سال ہونے والے ہیں ہمیں بتایا جائے کہ کتنے بڑئے ہسپتال قائم کیے گئے ہیں کتنی فیکٹریاں لگائی گئیں ہے۔ دانش سکولوں میں کتنے دانشور پیدا ہوئے ہیں۔ لاہور کی لگ بھگ آبادی ایک کروڑ کے قریب ہو چکی ہے لیکن اس میں ہسپتالوں کی تعداد ہاتھ کی انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔ جو لوگ باہر سے علاج کے لیے آتے ہیں وہ الگ ہیں۔ کسی دانشور کا قول ہے کہ ایک صحت مند معاشرہ ہے ترقی یافتہ معاشرہ بن سکتا ہے مگر ہمارے ہاں تو 90فیصد لوگوں کے پینے کا صاف پانی ہی میسر نہیں ۔ ہسپتالوں کی حالت خستہ ہے، سکولوں میں فرنیچر تک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ تمام ادارے اپنی آخری سانسیں گن رہے ہیں۔ لیکن آج تک کسی کرپٹ کو قرار واقعی سزا نہیں ملی۔ پر ہمیں عوامی مسائل سے کیا لینا دینا ہم نے تو طالبان سے کھیلنا ہے اُن سے مذاکرات کرنے ہیں یا آپریشن کرنا ہے۔ طالبان کو بھی اگر پاکستانی عوام سے لگاؤ ہوتایا وہ عوام کی بھلائی کے لیے کچھ کر رہے ہوتے تو بے گناہ لوگوں کا خون نا بہاتے۔ اُن کو اقتدار میں صرف حصہ چاہیے ورنہ پاکستانی عوام سے اُن کی کیا دشمنی ہے۔ پاکستانی عوام تو پہلے ہی دکھوں کی ماری ہے اُوپر سے طالبان ہر حکومت کے پانچ سال مذاکرات ،دہشت گردی یا آپریشن پر صرف کر دیتے ہیں۔ عوام کے ہاتھ میں کیا آتاہے کچھ بھی نہیں۔ ہمارے پیارے آقا ﷺ جن کو کفار بھی صادق و امین کہتے تھے نے کبھی کسی بے گناہ کا خون بہانے کی اجازت نہیں دی بلکہ یہاں تک کہا کہ جنگ میں بھی اگر کوئی ہتھیار پھینک دے تو اُسے بھی قتل نہ کرو۔ لیکن پتا نہیں ہماری حکومت اور طالبان کی کیا مرضی ہے کہ ملک میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر ہونے ہی نہیں دیتے۔ طالبان و حکومتوں کو اُس دن سے ڈرنا چاہیے جس دن عوام ان کے خلاف سڑکوں پر آگئے کیونکہ عوام کو مذاکرات یا آپریشن سے کوئی سروکار نہیں اُن کو اپنی بنیادی ضروریات چاہیے جب پیٹ بھرا ہو گا تو کسی اور طرف سوچنے کی مہلت ملے گی۔خالی پیٹ تو بڑے بڑئے ادیب بھی بے سری باتیں کرنا شروع کر دیتے ہیں لہذا حکومت کو چاہیے کہ جو بھی کرنا ہے جلد ازجلد کرئے تاکہ اپنی تمام توانیاں عوامی خدمت پر صرف کر سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :