ہم سب دہشت گرد ہیں؟

جمعہ 31 جنوری 2014

Nabi Baig Younas

نبی بیگ یونس

بھئی، آپ نے دفتر کا کارڈ گلے میں کیوں نہیں ڈالا ہے؟ میرے ایک کولیگ دوست فیصل رفیق نے مجھ سے پوچھا۔ کیوں جی، کیا پرابلم ہے، اب کون سی آفت آپڑی ہے؟ میں نے تنزیہ لہجے میں پوچھا۔ بھئی ایڈمن نے کارڈ گلے میں ڈالنا سب کیلئے لازمی قراردیا، اس بارے میں نوٹس بورڈ پر ہدایات بھی جاری کی گئی ہیں۔ دیکھو میں نے بھی اسی لئے گلے میں کارڈ لٹکا کر رکھا ہے، بھئی ، سیکورٹی ریسک ہے۔ اب دفتر میں مزید کیمرے بھی لگ رہے ہیں۔وہ مجھے حیرانی سے یہ باتیں کہتے رہے اور میں سنتا گیا۔میں سوچتا رہا ہاں ٹھیک ہی کہہ رہا ہے کیونکہ 19جنوری کو خیبر پختونخوا میں دھماکے میں26جاں بحق، 20جنوری کو آر اے بازار راولپنڈی میں 13جاں بحق، 21جنوری کو مستونگ میں25اور کراچی میں3 جاں بحق، 22جنوری کو چارسدہ میں7جاں بحق اور 23جنوری کو پشاور میں 6جاں بحق۔

(جاری ہے)

حالات گھمبیر ہوتے جارہے ہیں، ایک روز قبل ہی ایک خبر میری نظروں سے گزری تھی کہ سیکورٹی ریسک کی بنیاد پر جن لوگوں کے پاس اسلام آباد نیشنل پریس کلب کا کارڈ نہیں ہے انکا پریس کلب میں داخلہ بند ہے۔
جی ہاں، گلے میں سروس کارڈ ڈالنا لازمی ہے، سیکورٹی ریسک ہے، میڈیا بھی تو دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ میں ہے، لہذا سیکورٹی ضروریات کے پیش نظردفتر میں بھی کارڈ لگانا ناگزیر ہوگیا ہے۔ اتنا ہی نہیں، دفتر کے ارکان کی گاڑیوں کی بھی آتے ہوئے ڈیٹکٹرز سے اسکیننگ کی جاتی ہے۔ دفتر میں کوئی فون پر کسی ساتھی کا سیل نمبر یا کوئی تفصیلات پوچھے ہم نہیں بتاتے ہیں، ذہن میں سیکورٹی ریسک ہی آتا ہے، بھئی کیوں بتائیں کسی کو اپنے ساتھی کا فون نمبر یا پتہ، ہم تو اب کسی پر بھروسہ نہیں کرسکتے، کیا پتہ کس ارادے سے پوچھ رہا ہے ،کوئی دہشت گرد اپنا بن کر ہی ہماری تفصیلات حاصل کرسکتا ہے، لہذا ہم صرف اسی پر اتفاق کرتے ہیں:سوری سر! میرے پاس ان کا فون نمبر نہیں،، سر نہیں پتہ کتنے بجے آتے ہیں، سر ایڈریس بھی نہیں معلوم، سر پتہ ہوتا تو ضرور بتادیتا۔۔۔ لہذا دہشت گردی کے خوف نے ہمیں جھوٹ بولنے پر بھی مجبور کردیا۔ ملک میں دہشت گردی کی شدید لہر نے ہر شہری کو اس قدر خوف زدہ کیا ہے کہ کو ئی کسی پر بھروسہ کرنے کیلئے تیار نہیں۔ نمازعشاء کے بعد گھر کی گھنٹی بجتی ہے تو انسان ایک دم سکتے میں پڑ جاتا ہے، کون ہوسکتا ہے، اتنی دیر سے کس نے گھنٹی بجائی؟ اس وقت کس کو ہمارے گھر آنے کی ضرورت پڑی۔ فون پر کسی سے نام پوچھا جائے تو وہ اپنا نام بتانے سے گریز کرتا ہے، آپ کسی سرکاری یا نجی دفتر میں جائیں تو بھلا شناختی کارڈ دکھائیں، اپنے دفتر کا کارڈ گلے میں لگا دیں لیکن ا سکیننگ کے مراحل سے ضرور گزرناپڑتا ہے۔
کیسے کسی پر بھروسہ کیا جائے، دہشت گردکی کوئی پہچان تو نہیں، وہ بھی ہمارے جیسے ہیں، ہماری طرح کے کپڑے پہنتے ہیں، ہماری زبان بولتے ہیں، بلکہ وہ تو چہرے سے ہم سے زیادہ معصوم دکھائی دیتے ہیں، چند روز قبل جس دہشت گرد کو بدن پر لگے بارودی مواد سمیت گرفتار کیا گیا اس کی عمر محض سولہ سترہ سال ہے، داڑھی بھی نہیں آئی ہے، بڑا معصوم سا دکھائی دیتا ہے، سر پر سفید رنگ کی ٹوپی بھی ہے۔ اس کو دیکھ کر تو اندازہ ہوتا ہے کہ اب کسی پر بھروسہ ناممکن ہے۔ اب ہم خود ایک دوسرے پر بھروسہ نہیں کرسکتے تو بیرونی دنیا ہم پر کیسے بھروسہ کرے۔ ہاں، شاید ہم اب کسی لحاظ سے قابل بھروسہ نہیں رہے، اسی لئے بیرونی دنیا بھی ہم سب کو دہشت گرد سمجھتی ہے۔
ہمارے ملک میں 95فیصد لوگ مسلمان ہیں، ایک اللہ، ایک رسولﷺ اور ایک قرآن کو ماننے والے ہیں۔ مرنے والا بھی مسلمان مارنے والا بھی مسلمان۔ خودکش حملہ آور بھی مسلمان حملے کے نتیجے میں جاں بحق ہونے والے بھی مسلمان، خودکش حملہ آور بھی شہید اور اس کے نتیجے میں جاں بحق ہونے والے بھی شہید۔ یہ کیسی منطق ہے، کیسی دلیل ہے، کیسا فلسفہ ہے؟ میں نے بھی قرآن کو ترجمہ کے ساتھ پڑا ہے اور اب بھی پڑتا ہوں۔ قرآن انسانیت کے تحفظ کا درس دیتا ہے نہ کہ خاتمے کا۔ قرآن کریم کے سورہ النساء کی آیت نمبر۹۳ میں اللہ تعالیٰ واضح الفاظ میں ارشاد فرماتا ہے کہ "اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے جہاں وہ مدتوں رہے گا اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لئے بڑا عذاب تیار رکھا ہے"۔ سورہ المائدہ کی آیت ۳۲میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ "جس نے کوئی جان قتل کی بغیر جان کے بدلے یا زمین پر فساد کے، تو گویا اس نے سب انسانوں کو قتل کیا"۔ سورہ بنی اسرائیل آیت ۳۳میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے "اور کوئی جان جس کی حرمت اللہ نے رکھی ہے ناحق نہ مارو"۔رسول اللہ ﷺ کا بھی ارشاد ہے"ایک انسان کو قتل کرنا گویا پوری انسانیت کا قتل ہے"۔ یہ بالکل واضح ارشادات ہیں جو ہر انسان کیلئے قابل فہم ہیں۔ لیکن جو لوگ معصوم بچوں، بزرگوں اور خواتین کو قتل کرتے ہیں وہ یہ کیوں نہیں سمجھتے اور معصوموں کو قتل کرنے کے باوجود وہ خود کو مسلمان سمجھنا سمجھ سے بالاتر ہے۔
جیسے ہمارا ایک ملک ہے، ایک خدا ہے، ایک رسول ﷺ اور ایک قرآن ہے، اسی طرح ہم ایک ہو کر جینا اور مرنا سیکھنا چاہئے، اللہ کرے ہم سب اپنے دین اور انسانیت کو سمجھیں،ورنہ آج کل تو ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ ہم سب دہشت گرد ہیں اور سب ایک دوسرے کے ہاتھوں مارے جائیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :