بلدیاتی انتخابات میں تاخیراور اُمیدوار

بدھ 29 جنوری 2014

Manzoor Qadir Kalru

منظور قادر کالرو

عام طور پر رُتیں اپنے وقت پر ہی آتی جاتی ہیں لیکن اس دفعہ الیکشن کی رُت لمبی ہوگئی ہے۔عوام اِس لمبی ہوتی ہوئی رُت کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ جن چہروں پر لوگ مسکراہٹ دیکھنے کو ترس گئے تھے وہ جگہ جگہ اپنی مسکراہٹیں نچھاورکرتے پھر رہے ہیں اور اُن لوگوں پر بھی نچھاور کرتے پھر رہے ہیں جن کے لئے الیکشن سے پہلے مسکرانا یہ لوگ انہیں سر چڑھانے کے مترادف سمجھتے تھے۔

یہ دو دو ٹکے کے لوگ بڑے لوگوں کی خوش اخلاقیوں کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ وہ لوگ جو گاڑیوں کی دُھول اڑاتے گزر جاتے تھے، گاڑیاں روک روک کر راہگیروں کے بال بچوں کی خیر خیریت پوچھنے لگتے ہیں۔محبت میں مغلوب ہو کر اسرار کرنے لگتے ہیں کہ جہاں جانا ہے میں چھوڑ آتا ہوں ۔یہ گاڑی بھی آپ کی ہے اور ہم بھی آپ کے ہیں۔

(جاری ہے)

جو لوگ صبح کی سیر کو نکلتے ہیں اُمیدوار انہیں پیدل چلتے دیکھ کر گاڑی میں بٹھا لیتے ہیں اور اُن کے نہ نہ کرنے کے باوجود گھر چھوڑ جاتے ہیں۔

عوام کے یہ خادم اپنے اپنے حلقوں میں فاتحہ خانیوں کے لئے نکلے ہوئے ہیں۔سابقہ تین تین چار چار ماہ کے مرے ہوئے مخدوم بزرگوں کے لئے ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں۔ اپنے اُمیدوار کو دیکھ کراِن کے سپورٹر بھی رونے لگتے ہیں۔ وارثوں کو لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔وارث انہیں دلاسہ دے رہے ہوتے ہیں جو اللہ کی رضا تھی وہ ہو گیا، اب آپ اس قدر دل چھوٹا نہ کریں اوروہ زاروقطار رو رہے ہوتے ہیں۔

۔یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ عوام کے خادموں کے جذبات کی شدت کو دیکھتے ہوئے بعض گاؤں کے مخدوموں نے سپیکر پر اعلان کروانا شروع کر دئیے ہیں کہ جن جن قبیلوں کے پچھلے دو تین ماہ میں بزرگ اللہ کو پیارے ہوئے ہیں وہ گھروں کے باہر دریاں بچھا لیں چوہدری صاحب ،میاں صاحب ،خان صاحب،رائے صاحب ،راناصاحب ، مہرصاحب یا ملک صاحب دُکھ درد بانٹنے کے لئے تشریف لا رہے ہیں۔

جن بزرگوں کو کھانستے کھانستے رات بیت جاتی تھی اور گھر والے پانی تک نہ پوچھتے تھے وہ بھی امیدواروں کی تیمارداریوں کے مزے لوٹ رہے ہیں۔جو لوگ جو کچھ عرصہ پہلے دِتو، گاموں، تاجو تھے ، وہ اب اللہ دتہ، غلام محمد اور تاج دین ہیں۔وقت وقت کی بات ہے، وہ لوگ جو پاؤں کی جوتی تھے اب سر کا تاج بن گئے ہیں۔جب الیکشن کی آمد آمد تھی تو اُمیدواروں کے جذبات عروج پر تھے۔

وہ اپنے آپ کو خادمِ عوام کہتے پھرتے تھے۔ عوام کے یہ خادم امیدوار اپنی اپنی جیبوں میں نوکریاں ،دوائیں اور جہیز لے کر نکلتے تھے ۔ جو جیب کے نزدیک ہاتھ کرتا ہے اس کا ہاتھ جھٹک دیتے ہیں کہ نہ عزیزم نہ، پہلے ووٹ پھرخروٹ۔گورنمنٹ نے بلدیاتی انتخابات کو التوا میں ڈال کرامیدواروں کو امتحان میں ڈال دیا ہے اب ووٹر کہتے پھرتے ہیں پہلے خروٹ پھر ووٹ۔

جو امیدوار دودھ دہی بیچا کرتے تھے وہ بھی اپنے حلقے کے عوام سے نوکریوں کا وعدہ کر بیٹھے تھے کہ ممبر منتخب ہونے کے بعد حلقے کے سب نوجوانوں کو روزگار دیں گے۔اب دودھ دہی والے ممبر کے پاس ووٹر صبح ہی صبح دودھ دہی اُدھار لینے پہنچ جاتے ہیں کہ ہمارے بچے بھی تو آپ بچے ہی ہیں۔اُمیدوار یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ مانا کہ تمہارے بچے بھی مجھے اپنے بچوں کی طرح عزیز ہیں لیکن کاروبار میں اُدھار محبت کی قینچی ہے۔

سائیکلوں کو پنکچر لگانے والے جنرل کونسلروں کو اُن کے ووٹر پنکچر لگوانے کے بعد اس لئے پیسے نہیں دیتے کہ آپ کے اور میرے پیسوں میں بھلا کیا تقسیم ہے۔ آپ کی جیب میں چلے گئے یا میری جیب میں ہی رہے۔ لہذا اِدھر ہی رہنے دیں۔اقتدار کی محبوبہ کو اپنی دلہن بنانے کی لگن میں اُمیدواروں نے اپنے دستر خوان وسیع کر لئے تھے۔غریب غرباء بچوں سمیت شام ڈھلے ان امیدواروں کے دسترخوان پر پہنچ جاتے کہ ہم بھی آپ کے اور یہ بچے بھی آپ کے۔

ابتدا میں تو چارو ناچار امیدوار کہہ دیتے تھے ، ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔ جوں جوں الیکشن ملتوے ہوتے جاتے ہیں اُمیدوار دبے دبے الفاظ میں ان لوگوں کو کہنے لگے کہ یہ بچے ہمارے نہیں آپ کے ہیں۔اب یہ بچے نہیں مانتے اور آتشیں لقمے منہ میں ڈالتے ہوئے کہہ رہے ہوتے ہیں انکل ہم آپ کے ہیں۔ایک سردار بہت گنجو س تھا۔آئے دن ایک مراسی اسے مانگنے آ جاتا۔مولا خوش رکھے، کجھ ہماری طرف بھی نظرِ کرم ہو ۔

سردار ہر بار اُسے یہ کہہ کر ٹال دیتا کہ جب ہم موج میں آئیں گے تو تیرے وارے نیارے کر دیں گے۔مراثی نے سوچا کیوں نہ کہیں آس پاس رہ کر سردار صاحب کی موج کا انتظار کیا جائے۔ وہ چارپائی کے نیچے چھپ گیا۔رات کو سردار جاگا اور اس نے انگڑائی لے کر کہا اوئے کتھے ہیں مراثیا اسیں موج وچ ہاں۔ مراثی چارپائی کے نیچے سے نکلا اور دعا دی ’ مولا خوش رکھے‘۔سردار نے برہم ہو کر کہا فٹے منہ تیرا ،توں نے تو میری موج ہی خراب کر دی ہے۔بلدیاتی انتخاب کی تاریخ نے سرداروں کی موج ہی خراب کر دی ہے۔جو لوگ خوش اخلاقی کو بچپنا سمجھتے تھے وہ یہ سوچ کر خوش اخلاقی کی مشق کرتے پھر رہے تھے کہ دو چار دنوں کی ہی تو بات ہے لیکن اب یہ خوش اخلاقی اُن کے گلے پڑ گئی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :