وزیراعظم یوتھ لون سکیم ،ایک سراب

پیر 27 جنوری 2014

Qasim Ali

قاسم علی

کسی بھی ملک کی ترقی و خوشحالی کو جانچنے کیلئے تعلیم وصحت کے ساتھ ساتھ جس چیز کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے وہ معیشت ہے کیوں کہ انسانی تاریخ کا ماضی گواہ ہے کہ کسی بھی قوم نے آج تک ان شعبوں کو نظراندا زکئے بغیر ترقی کی منازل طے نہیں کیں یہی وجہ ہے کہ ہر ملک میں برسرِ اقتدار آنیوالی حکومت سب سے پہلے اسی جانب ہی توجہ دیتی ہے لیکن ہماراملک پاکستان جہاں اور کئی مسائل سے دوچار ہے وہیں کمزورمعاشی صورتحال ایک ایسا گھمبیر مسئلہ ہے جس کو اگر دیگر کئی مسائل کی ماں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کیوں کہ غربت ،بیروزگاری،بے راہ روی،سٹریٹ کرا ئمز،بھتہ خوری ،بدامنی اور ایسے ہی کئی جرائم ایسے ہیں جوبدحال معیشت کی ہی پیداوار ہوتے ہیں اور باوجود اس افسوسناک حقیقت کے کہ ان مسائل نے نہ صرف پاکستان کو اندر سے کھوکھلا کرکے رکھ دیا ہے بلکہ پاکستان بیرونی دنیا میں بھی بدنام ہوتاجارہاہے کسی بھی حکومت نے اس جانب کوئی خاص توجہ نہیں دی موجودہ حکومت کوہی لے لیں کہ اس نے انتخابات سے قبل تو بڑے بڑ ے دعوے کئے ،بڑے شہروں میں سو سو بنک بنانے کے اعلانات کئے اور ہرنوجوان کو روزگار کیلئے اس کی دہلیز تک قرضہ پہنچانے کا وعدہ کیا لیکن جب اقتدار میں آکر اپنے ان وعدوں کو پورا کرنے کا وقت تھا اس نے ''وزیراعظم یوتھ لون سکیم''کے نام سے ایسی سکیم متعارف کروا دی ہے جس پر اس کے آغاز میں ہی اعتراضات کی بارش شروع ہوگئی ہے جن میں سب سے بڑ اعتراض میاں نوازشریف کی بیٹی مریم نوازشریف کو اس پانچ سو ارب روپے کے میگا پروجیکٹ کا ہیڈ بنانا ہے ۔

(جاری ہے)

ماہرین معاشیات کا یہ کہنا بجا ہے کہ اتنا بڑا منصوبہ کیلئے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ کسی ایسے شخص کو اس کا سربراہ مقررکیا جاتا جس پر نہ تو کسی سیاسی جماعت کیساتھ منسلک ہونے کی وجہ سے جانبداری کی چھاپ لگتی اور دوسرا وہ کوئی معاشیات کے سبجیکٹ میں ماہر تصورکیاجاتا اور اگر یہ بھی نہیں تو کم ازکم یہ تو حکومت یہ ہی کرسکتی تھی کہ اس عہدے پر اپنے ہی جماعت کے کسی عام رکن کو ہی مقررکردیتی تاکہ حکومت کے مخالفین کو کم از کم یہ کہنے کا موقع تو نہ ملتا کہ مسلم لیگ نواز کی حکومت میں کسی بھی بڑے عہدے تک پہنچنے کیلئے مذکورہ امیدوار کا شریف فیملی سے ہونایا کم از اس کے نام کیساتھ شریف کا لگا ہونا ضروری ہے۔

اس سکیم کی بڑی خرابی ضمانتی کی فراہمی ہے جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کئی
ایسے سرمایہ کاروں کے سامنے آنے کا خدشہ ہے جو ضمانتی بننے کے نام پہ اس سرمائے کا بڑا حصہ بڑ ی خوبصورتی سے اپنی جیبوں میں بھرلیں گے اور وہ غریب جس نے قرض لیا ہوگااس کی ساری عمر اس قرض کو اتارتے گزرجائے گی ۔اب اگرچہ میاں نوازشریف صاحب کی خصوصی ہدائت کے مطابق ڈیڑھ گنا سے زیادہ جائیداد رکھنے والا قرض خواہ خود اپنی ضمانت دے سکتا ہے لیکن اس سکیم میں موجود آٹھ فیصد سود اور SMEDAکا منظور شدہ بزنس پلان بھی ایسی چیزیں ہیں جس نے نوجوانوں کے خوابوں کو بکھیردیا ہے کیوں کہ ایک تو قرض لینے والوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو ان بزنس پلانوں کے گورکھ دھندوں سے واقف ہی نہیں اس لئے ان کی درخواستیں تو پہلے مرحلہ میں ہی مسترد ہوجائیں گی اور جن کو قرضہ مل جانے کی کچھ امید ہے ان کے سود پر شدید تحفظات ہیں ان کا کہنا کہ حکومت کو یہ سکیم بلاسود قرضوں سے شروع کرنا چاہئے تھی بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ایک اسلامی مملکت کوسود جیسی لعنت سے قطعی پاک ہونا چاہئے لیکن افسوس ہمارے حکمران اس بدترین برائی سے قوم کو نکالنے کی بجائے خود اس میں مبتلا ہونے کی علی الاعلان دعوت دے رہے ہیں حالاں ہمارا مذہب سود کو ماں سے زنا اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے جنگ سے کے مترادف قرار دیتا ہے اس کے علاوہ ماہرین کا یہ کہنا بھی بالکل بجا ہے کہ اگر اخوت جیسا پرائیویٹ ادارہ بلاسود قرض فراہم کرسکتا ہے تو حکومت ایسا کیوں نہیں کرسکتی بلکہ میرے خیال میں حکومت اگر واقعی اس سکیم کو کامیاب کرنا اور عوام کو اس سے مستفید کرنا چاہتی ہے تو اسے اس سکیم کو بلاسود بنا کر اس کواخوت کے سربراہ ڈاکٹر امجد ثاقب جیسی شخصیت کی سربراہی میں چلانا چاہئے ورنہ اس سکیم پر بھی لیپ ٹاپ ،سستی روٹی اور ماضی میں ناکام ہونے والی کئی سکیموں کی طرح سوالات اٹھتے رہیں گے ۔

گزشتہ دنوں اس سکیم کے بارے میں میرے کچھ پڑھنے والوں نے مجھے فون اور ایس ایم ایس کئے جس میں اس بات کا اظہارکیا گیا کہ حکومت نے اگر سود اور ضمانتی کی شرائط ختم نہ کیں تو یہ سکیم ایک فلاحی منصوبے کی بجائے ایک ڈھونگ ہی رہ جائے گی کیوں کہ اس کا فائدہ عوام کو کم اور سرمایہ کاروں اور بنکوں کو زیادہ ہوگا۔عوام کا یہ کہنا بھی بجا تھا کہ اگر حکومت واقعی عوام کو غربت اور بیروزگاری کے اندھیروں سے نکالنا چاہتی ہے تو وہ اپنا بے پناہ سرمایہ اس عوام اور ملک کیلئے وقف کیوں نہیں کرتے جس کیساتھ جینے مرنے کی وہ الیکشن کے دوران قسمیں کھاتے ہیں اور اگر یہ بھی نہیں کرسکتے تو سویٹزرلینڈ کے بنکوں میں پڑا ہواپاکستانی قوم کا ہی لوٹا ہوا سرمایہ جس کی مالیت ایک اندازے کے مطابق 97ارب ڈالرہے کو واپس لاکر کیوں نہیں اسی عوام کے قدموں میں نچھاور کیا جاتا حالاں کہ چندلوگوں کی لوٹ مارکی اس کمائی سے پوری پاکستانی قوم خوشحالی کی راہ پرگامزن ہوسکتی ہے۔

مگر شائد ایسا کبھی نہ ہوسکے کیوں کہ اللہ کا بھی ایک قانون ہے کہ وہ اس قوم کی حالت کبھی نہیں بدلتا جو خود کو بدلنے کا فیصلہ پہلے آپ نہیں کرتی اور یہ فیصلہ ابھی تک ہماری قوم نے نہیں کیاتبھی تو ہر حکمران بھی عوام سے ہی قربانی مانگتا ہے اور ہم بلاں چوں چراں اس قربانی کیلئے تیار بھی ہوجاتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :