مجبور و محکوم معاشرہ

اتوار 26 جنوری 2014

Israr Ahmad Raja

اسرار احمد راجہ

حد یث شر یف ہے کہ قیا مت کی نشا نیوں میں ایک نشا نی یہ بھی ہو گئی کہ معا شرے کے گھٹیا تر ین اور انتہا ئی نا پسند یدہ لو گ اقتد ار میں آ جا ئینگے۔ یہ حد یث پا ک کا تر جمہ نہیں بلکہ تشریح ہے جو اسی طرح کا مفہو م بیان کر تی ہے ۔قیا مت ایک حقیقت بھی ہے اور تمثیل بھی ہے ۔ حقیقی قیامت کا علم صرف خا لق کا ئنا ت کو ہے جسکا بیا ن قرآن پا ک میں با ر بار آتا ہے اور انسا نوں کو اس دن کی ہو لنا کیو ں اور خو فناکیو ں سے مطلع کیا جا تا ہے ۔

تا کہ وہ اچھے اعمال کریں اور قیا مت کے دن عذا ب الہی سے محفو ظ رہیں ۔ یہ قیا مت ایک حقیقت ہے اورہم سب نے ایک دن اسکا مزہ اپنے اعمال کی نسبت سے چھکنا ہے ۔ یہ دن جز ا اورسزا کا ہو گا اور ہر بشر اپنا اعما ل نامہ ہا تھ میں لیے میدان حشر میں موجود ہو گا ۔

(جاری ہے)

اعلیٰ وادنیٰ سب ایک ہی مقا م پر ہو نگے جہا ں کسی کا حسب ونسب،فرقہ ،مسلک ،طبقہ وطر یقہ ،علم و مر تبہ ،دولت،غربت وامارت نہیں دیکھی جا ئے گئی ۔

ہر شخص ابتلاء کی کیفیت میں ہو گا اور حکم ربانی کا منتظر ہوگا ۔ بقول شا عر:ِ۔
نہ اس دن با پ بیٹے کا نہ بیٹا باپ کا ہو گا ۔ محمدﷺتخت پر ہو نگے عدالت میں خدا ہو گا ۔
جب خدا کی عدا لت ہو گئی تو فیصلے بھی خدا ئی احکاما ت کے مطا بق ہونگے اور یہ وہی احکا مات ہیں جن کا ذکر خدا نے بار بار قرآن پاک میں کیا اور اپنے فیصلوں سے بھی مخلوق کو آگا ہ کیا ۔

یہ بیا ن ہے اس قیا مت کا جس کے قیا م کاکسی کو پتہ نہیں مگر ایک قیا مت تمثیلی ہے جو ہر روز کسی نہ کسی صورت بر پا ہو تی ہے ۔
کر پشن، بد یا نتی ، دوسروں کے حقوق پر ڈا کہ زنی ، حکو متی اور حکو متی شخصیا ت کی لو ٹ ما ر ، عدلیہ کی بے حسی اور کمزوری ،انتظا میہ کی درندگی ،سیا ست اور حکو مت کے نا م پر چو ر با زا ری اور عیا ری جیسی قیا متیں ہر روز مظلو م، محکوم ،بے ہمت اور بے سہا ر اعوا م پر ٹو ٹتی ہیں جس سے معا شرہ بے حس وبے آبرہ اور مملکت کمزور اور محروم ہو تی جا رہی ہے ۔

ہر روز نا زل ہو نے وا لی قیا متیں خدا کی طرف سے نہیں بلکہ ہما ری نیتوں اور اعما ل کی وجہ سے ہیں ۔ہما رے ان اعمال میں عمل نام نہا د جمہوری نظا م کا قیا م بھی ہے جسکے کے ذریعے معا شر ے کے چھٹے ہو ئے بد معا ش ،غنڈے ، نو دولیتے ،مال مویشی اور گھا س پھوس چوری کرنے وا لے، کٹے وچھے چوری کرنے وا لے ،عدالتوں اور تھانوں میں بیٹھنے والے ٹا ون ،برادری ازم کا نا سو ر پھیلانے والے انسا ن نما شیشں ناگ ،منشیات فروش ،جنگلات سے سرکاری لکڑی چوری لرنیوالے ٹھیکیدار اور دیگر معاشرتی اور اخلاقی برائیوں کے حا مل لوگ کسی نہ کسی صو رت الیکشن ڈرامے کے اختتام پر اسمبلیوں تک پہنچ جاتے ہیں اورپھر اپنے کسی گورو کو صدر یا وزیراعظم بنا کرنہ صرف مظلوم عوام پر قیامت ڈھا تے ہیں بلکہ انھیں نفسیا تی مریض بنا کر نہ صرف مظلوم عوام پر قیامت ڈھاتے ہیں بلکہ انھیں نفسیاتی مریض بنا کر اپنے مقاصد کیلئے استعما ل کر تے ہیں ۔

وہ اپنی مرضی اور سہو لت کیلئے قانون سازی کر تے ہیں اور عدا لتوں کو اپنے مفا د کیلئے استعمال کر تے ہیں ۔ اپنی اپنی بر ادریو ں کو یر غما ل بنا لیتے ہیں اور بر ادری تحفظ کے نا م پر انھیں دیگربرا دری سے لڑا تے ہیں تا کہ معا شرہ ابتری کا شکا ر ہو کر انکا تہی دست ہو جا ئے ۔ معا شرے کے بد ترین اور بد اعما ل لوگ ووٹ اورووٹر ہی نہیں خریدتے بلکہ عام انسا نوں کا دین و ایمان بھی خریدلیتے ہیں ۔

وہ انہیں جھوٹ،فریب اور مکا ری پر لگا کر بظاہر اپنی اپنی برا دریوں اور سیا سی جماعتوں کی خد مت کر تے ہیں او ر عا م لو گوں کا جینا حرا م کر دیتے ہیں ۔قو می دو لت اور ملکی خزانہ ان کا ذاتی خزانہ اور خیراتی ادارہ بن جا تا ہے جس سے ملکی معیشت تباہ ہو جا تی ہے جبکہ ان کی اندرون ملک اور بیر ون ملک جائیدادیں وسعت پزیر ہو جا تی ہیں ۔وہ جرائم پیشہ لوگ جنہیں جیلوں میں ہو نا چا ہیے اعلیٰ حکومتی ایوا نوں میں بیٹھ کر اہم شخصیا ت اور معززین معا شرہ کہلا تے ہیں۔

عدالتیں اور قانون ان کے اشاروں پر کا م کر تی اور چلتی ہیں جبکہ ریاستی میشینری انکے احترام میں عوام پر ہر طرح کا ظلم وستم کرنے پر ہر وقت تیا ر رہتی ہے ۔فلسفہ ،حیات اورنفسیات کے حکماء اس بات پر متفق ہیں جرا ئم پیشہ عنا صر انسا نی، اخلاقی اور تمدنی اقتدار کے مخا لف اور معا شرتی فلا حی اطوار وروایات کے با غی ہو تے ہیں ۔ایسے لو گ اگر کسی وجہ سے معا شرے اور ریاست میں اعلٰی مقا م پر قا بض ہو جا ئیں تو معا شرے اور ریاست زوال کا شکا ر ہو جا تے ہے ۔

قا نون شکنی ، بد نظمی ، بد عہدی اور برا ئی جو ان اشخا ص کی سر شست میں ہو تی ہے ۔ معاشرے میں بھگا ڑ اور ریا ست کے زوا ل کا با عث بنتی ہے ۔ بد اعمال، بد کردا ر ، حوس و حر ص کے امرا ض میں مبتلا اشخا ص کا مقتدر اعلیٰ بن جا نا قو م کی بد نصینی اوررسوا ئی کا با عث بنتی ہے ۔ایسے لو گو ں کے ہا تھ جب اقتدار آ جا ئے تو ایک فلا حی مدنی معا شرہ درندگی کا شکا ر ہو کر غلا می کے دور میں چلا جاتا ہے جس میں عزت ،غیرت اورحر مت انسا نیت قصہ ما ضی بن جا تا ہے ۔


جرا ئم پیشہ عنا صر جب اشر ا فیہ کا روپ دھا ر لیں اور معا شرہ انھیں معزز اور معتبر ما ننے پر مجبو ر ہو جا ئے تو ایسا معا شرہ رو حا نی اور جذبا تی لحا ظ سے مر دہ اور بے حس معا شرہ کہلا تا ہے جو اصل معا شر تی اقدار اور روایات سے ھٹ کر ایک مصنوعی اور مجبورزندگی کا دا ئیرہ ہو تا ہے ۔ایسے معا شرے اور ریاست کے عوا م جبر کو جمہو ریت غلامی کو حفا ظت او ر غنڈہ عنا صر کی تا بعداری کو قا نو ن و آئین کی تا بعداری کا نام دیکر ایک مصنوعی اور محکوم زندگی جیتنے پر مجبو ر ہو جا تے ہیں ۔

سا لہا سا ل کی اس زندگی کے خو گر عوا م استقدر بے حس ہو جا تے ہیں کہ وہ معا شرے کے بد تر ین اور گھٹیا لو گوں کو نجا ت دھندہ اور قا ئد تسلیم کرلیتے ہیں ۔ابن خلدون اور ابن رشد نے بھی ایسے مجبور اور محکوم معاشروں کا ذکر کیا ہے جن کا اختتام انتہائی بھیانک اور عبرت ناک ہوتاہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :