ڈگریوں کی بندر بانٹ۔۔۔ایک بار پھر

جمعرات 23 جنوری 2014

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

قارئین میرے کالم کا عنوان پڑھ کے شاید کچھ مخمصے کا شکار ہو جائیں۔ لیکن ان کی آسانی کے لیے عرض کرتا چلوں کہ میرا ایک کالم اسی عنوان سے کچھ عرصہ پہلے شائع ہو چکا ہے ۔ اور مجھے قوی امید ہے کہ محدودے چند افراد کو وہ اب یاد بھی نہیں ہو گا۔ اس کی دو وجوہات ہیں ایک یہ کہ میں کوئی عالم فاضل لکھاری نہیں کہ میرے لفظ لوگوں کے ذہنوں میں نقش ہو جائیں۔ دوسرا یہ موضوع ایسا ہے کہ ایک عام قاری کے لیے اس میں کوئی مرچ مصالحہ نہیں ہے اور وطن عزیز میں چوری سے لے کر قتل تک کے واقعے کو جب تک مرچ مصالحے نہ لگائے جائیں تب تک لوگوں کی توجہ حاسل نہیں کرتے۔بہر حال واپس آتے ہیں اس نقطے کی جانب جو موضوع بحث ہے۔
پاکستان میں پچھلے کچھ عرصے میں اعزازی ڈگریاں دینے کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔

(جاری ہے)

خدمات کے اعتراف میں اعلیٰ تعلیمی ادارے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ افراد کو اعزازی ڈگریوں سے نوازتے ہیں۔ اعزازی ڈگری دینے کا مطلب ہوتا ہے کہ اس شخصیت کا کام واقعی اس قابل ہے کہ کوئی مخصوص تعلیمی قابلیت نہ رکھنے کے باوجود اس کو ڈگری دی جائے۔ قارئین کو بتاتا چلوں کہ ڈاکٹریٹ بیشتر ممالک میں اعلیٰ ترین تعلیمی قابلیت ہے۔ اور اس اعلیٰ ترین قابلیت تک پاکستان جیسے دیگر ممالک میں آبادی کا کم و بیش 5 سے 9فیصد افراد ہی پہنچ پاتے ہیں( یہ تعداد کچھ کم یا زیادہ بھی ہوسکتی ہے لیکن زیادہ ممالک میں اتنے فیصدی لوگ ہی ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر پاتے ہیں۔ )۔اب اتنی اعلیٰ روایتی تعلیمی ڈگری اگر کسی شخص کو اعزازی طور پر دی جاتی ہے تو اس بات کا خیال بھی رکھا جاتا ہے کہ اس شخص کی اس مخصوص تعلیمی ادارے کے لیے خدمات بہت زیادہ نمایاں ہوں۔ یا انسانی فلاح وبہبود کے لیے اس کی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہ ہوں۔ اس کے علاوہ انسانیت کی خدمت، انقلاب کے بانیوں، اور انسانی حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والی شخصیات، اور کھلاڑیوں وغیرہ کو بھی مختلف ادوار میں مختلف ممالک میں اعزازی ڈگریوں سے نوازا جاتا رہا ہے۔ ہٹلر کی مثال آپ کے سامنے ہے ۔ جب دنیا میں ہٹلر ایک مضبوط حکمران کے طور پر جانا جاتا تھا تو بہت سے تعلیمی اداروں نے اسے اعزاز ی ڈگریوں سے نوازا تھا۔ ہٹلر کی خود کشی کے بعد بھی ایک لمبے عرصے تک اس کے نام کے ساتھ ان اعزازی ڈگریوں کا لاحقہ موجود رہا آج کہیں آ کر اس کے نام سے ان اعزازی ڈگریوں کو ختم کیا جا رہا ہے۔ اور ماضی قریب میں1933میں ہٹلر کو دی گئی اعزازی ڈگری اس سے واپس لے لی گئی ۔ ساتھ ہی اس دور کے سابقہ وائس چانسلر سے بھی ڈگری واپس لی گئی۔لیکن ہٹلر بہرحال ایک ایسا کردار تھا جو ایک لمبے عرصے تک عالمی منظر نامے پر اثر انداز ہوا۔دنیائے کرکٹ پر حکمرانی کرنے والے، حال ہی میں ریٹائرمنٹ لینے والے سچن ٹنڈولکر کو بھی اعزازی ڈگری سے نوازا گیا۔ ذرا اعزازی ڈگری کی تاریخ پر پھر سے نظر ڈالتے ہیں( یہ میں اپنے پچھلے کالم میں تحریر کر چکا ہوں)۔
بینجمن فرینکلن امریکہ کے بانیوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہ 1706ء میں پیدا ہوا اور 1790میں وفات پا گیا۔یہ شخص ایک ممتاز لکھاری، اعلی پائے کا سیاستدان،ایک قابل سائنسدان، عظیم موسیقار اور پتا نہیں کیا کیا تھا۔ زندگی کے بہت سے پہلوؤں میں ایک نہایت کامیاب شخص تھا۔ یہ فرانس کے لئے امریکہ کی طرف سے پہلا سفیر بھی تھا۔پنسلوانیا کرونیکل جیسے ممتاز اخبار کا ایک بڑا حصے دار تھا ۔یونیورسٹی آف پنسلوانیا (امریکہ) قائم کرنے میں اس کا بہت بڑا کردار تھا۔ادبی تنظیم برائے امریکہ کا پہلا صدر بھی منتخب ہوا۔1785سے 1788تک یہ شخص پنسلوانیا کا گورنر رہا۔امریکہ کے لئے اس کی خدمات کے صلے میں آج امریکہ میں کرنسی پر اس کی تصویر نظر آتی ہے۔امریکہ میں جنگی جہاز اس کے نام سے منصوب ہیں۔ اس کی موت کو دو صدیوں سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود امریکہ میں بہت سے تعلیمی ادارے اور قصبے بینجمن فرینکلن کے نام پر ہیں۔
بے شک ہمیں اس امریکی کی زندگی سے کوئی مطلب نہیں ۔لیکن اس امریکی کی84سالہ زندگی کے کچھ گوشے ایسے ہیں جن سے اب بطور پاکستانی میرے لئے دلچسپی پیدا ہو گئی ہے۔ فروری 1759ء میں بینجمن فرینکلن کو یونیورسٹی آف سینٹ اینڈریوز(سکاٹ لینڈ کی پہلی یونیورسٹی ) نے ڈاکٹریٹ کی اعزازی سند برائے قانون دی۔ تین سال بعد یعنی1762ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی نے بینجمن فرینکلن کو سائنس کے شعبے میں خدمات پر ڈاکٹریٹ کی اعزازی سند عطا کی۔ اس کے بعد سے بینجمن فرینکلن نے اپنے نام کے ساتھ باقاعدہ "ڈاکٹر"کا لاحقہ استعمال کرنا شروع کیا۔ اور یہ وہ پہلا شخص تھا جس نے اپنے نام کے ساتھ اعزازی ڈگری کی بناء پر ڈاکٹر لکھنا شروع کیا تھا حالانکہ اعزازی ڈگری کی تاریخ1470ء تک جاتی ہے جب آکسفورڈ یونیورسٹی نے ہی لائیونل ووڈورڈ کو سب سے پہلی اعزازی ڈگری تھی۔
لیکن پاکستان میں پچھلے کچھ عرصے سے اعزازی ڈگریوں میں بھی براہ راست سیاست ملوث ہو گئی ہے۔ ملک میں ایسے بہت سے افراد ہیں جن کو اعزازی ڈگری دی جائے تو تمام پاکستانیوں کا سر فخر سے بلند ہو جائے گا۔ لیکن ایسی شخصیات کو ڈگریوں سے نوازا جا رہا ہے جس نے ان ڈگریوں کی حیثیت کو متنازعہ بنا دیا ہے۔ محترم رحمن ملک اس ملک کے وزیر داخلہ کے عہدے تک پہنچے ۔ جامعہ کراچی نے انہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازا۔ بے شک رحمن ملک FIAمیں ایک عام عہدے سے ملک کے وزیر داخلہ تک پہنچے تھے۔ لیکن اس وقت بھی میں نے لکھا تھا کہ ان کی ملک کے لیے خدمات ہرگز اتنی خاص نہیں ہیں جس کے لیے انہیں اعزازی ڈگری سے نوازا جاتا۔ اور افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ انہیں اعزازی ڈگری ملک میں امن قائم کرنے کے لیے دی گئی۔ حالانکہ اس ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ ان کی وزارت کے دور میں ملک کے حالات کیا تھا۔ان کی قابلیت صرف اتنی تھی کہ ان کو سابقہ حکومت میں کلیدی مقام حاصل تھا۔ بس۔
اب موجودہ وزیر اعظم کو گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور نے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازا ہے ۔میرا میاں صاحب سے کوئی ذاتی اختلاف نہیں وہ میرے ملک کے وزیر اعظم ہیں۔لیکن مجھے صرف میاں صاحب کی کوئی ایک ایسی قابلیت گنوا دیں جس کی بنیاد پر انہیں یہ ڈگری دی گئی ہو۔ اگر واقعی انہیں ڈگری کسی قابلیت پر دی گئی ہے تو کیا ان کی یہ قابلیت یونیورسٹی والوں کو ان کے اقتدار میں آنے کے بعد ہی پتا چلی ہے؟ پہلے انہیں اس قابلیت کا علم نہیں تھا؟کیا اس ملک کی یونیورسٹیرز کے وائس چانسلرز کو عبد الستار ایدھی نظر نہیں آتا؟ رمضان چھیپا کیوں ان کی نظروں سے اوجھل ہے؟ انصار برنی جیسے لوگ اعزازی ڈگری کے حقدار نہیں؟ اعتزاز حسن کی قربانی کیا اتنی کم ہے کہ اسے کسی اعزازی ڈگری سے نہ نوازا جائے؟ (بے شک بعد از مرگ ہی)۔ چند دن پہلے ہی ملک کے ایک مشہور صحافی نے ایک خبر بریک کی کہ میاں صاحب کی شوگر مل کا کیس پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں پہنچ گیا ہے۔ پتا تو ہمیں تھا ہی کہ نرم خو شاہ جی اس پر کچھ ایکشن نہیں لیں گے۔ لیکن ایک کیس 98سے جاری تو تھا ہی۔مجھے نہیں پتا کہ منی لانڈرنگ کا کیس ختم ہو گیا یا ابھی جاری ہے۔ میں یہ بھی نہیں جانتا کہ حدیبیہ پیپر ملز کا قضیہ کہاں تک پہنچا۔میں تو صرف اتنا جانتا ہوں کہ کیا اعزازی ڈگری کے لیے اس ملک کا وزیر اعظم ہونا کافی ہے؟ اگر ایسا ہے تو کتابوں میں سر کھپانے والوں کے لیے ایک نسخہء کیمیا ء ہے کہ پڑھنے کو چھوڑیں۔ قرضے لیں، معاف کروائیں، ملازمین کو برطرف کریں، کرپشن کریں، کسی نہ کسی طرح ملک کے اعلی عہدے تک پہنچیں اور ڈگری آپ کے پاس خود آ جائے گی۔
کتنے ہی پروفیسرز، ڈاکٹرز ، کھلاڑی، غرضیکہ ہر شعبہ ء زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد ایسے ہیں جنہوں نے اپنی زندگیاں اس دیس کے لیے وقف کر دیں۔ لیکن آج گمنامی کے اندھیروں میں ہیں۔ کیا ان کے لیے بھی تعلیمی اداروں کے پاس کوئی اعزازی سند ہے؟اس ملک میں تعلیمی معیار تو پہلے ہی تنزلی کی طرف جا رہا ہے۔ اوپر سے اس کو سیاست کی نظر کیا جا رہا ہے۔ یعنی تباہی کی رہی سہی کسر بھی پوری کی جارہی ہے۔
ڈگریوں کی بندر بانٹ جس انداز سے کی جار ہی ہے اس سے تو وہ طبقہ جس نے اپنی محنت کے بل بوتے پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی سر اٹھانے کے قابل نہیں رہے گا۔ کسی بھی تعلیمی ادارے کو اعزازی ڈگری دینے سے پہلے کم ازکم اس بات کو تو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ صرف ایک سند ہی نہیں بلکہ اس ادارے کی عزت و وقار کا سوال ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :