فیصلہ میں دیر کی وجہ؟

بدھ 22 جنوری 2014

Ashfaq Rehmani

اشفاق رحمانی

بنوں کینٹ پر حملے کے بعد وزیراعظم نوازشریف نے سوئٹزرلینڈ کا تین روزہ دورہ ملتوی کردیا۔ نوازشریف کا یہ اچھا فیصلہ ہے‘ ان حالات میں جب دہشت گردی کے پے درپے المناک واقعات ہو رہے ہیں۔ وزیراعظم کے دورے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا۔ دورے کی تنسیخ کا تبھی فائدہ ہے کہ دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے جلدازجلد حتمی فیصلہ کرلیا جائے۔ وزیر داخلہ چودھری نثارعلی خان نے کہا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے ہیں یا جنگ کا آج فیصلہ ہو جائیگا۔ چودھری نثارعلی نے یہ بھی کہا کہ پشاور میں تبلیغی مرکز پر حملہ کرنیوالے کا نام لیا تو مسئلہ بن جائیگا۔ اس مرکز میں حملے سے 8 افراد جاں بحق اور 40 زخمی ہوئے تھے۔ آخر وزیر داخلہ کس مصلحت کے تحت ذمہ داروں کا نام نہیں بتا رہے؟ انہیں نہ صرف بے نقاب کریں بلکہ گھسیٹ کر کٹہرے میں بھی لائیں۔

(جاری ہے)

پولیس اور جج عموماًدہشت گردوں سے خائف رہتے ہیں‘ کیا حکمران بھی خوف کا شکار ہیں؟ اگر ایسا ہے تو پھر دہشت گردی کیخلاف جنگ جیتنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ایک خبر کے مطابق وزیر اعظم میاں محمد نوازشریف نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے طالبان سے مذاکرات پہلی ترجیح ہے، ضرورت پڑی تو فوجی کارروائی سے گریز نہیں کیا جائیگا، حکومت دہشت گردوں کیخلاف فیصلہ کن جنگ لڑ رہی ہے اور اس میں فوج کا کردار جاندار ہے۔ایک غیر ملکی جریدے کو دئیے گئے انٹرویو میں نواز شریف نے کہا کہ دہشت گردی کے معاملے پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا کیونکہ اس نے ملک کی بنیادیں کھوکھلی کر دی ہیں۔ ملک میں دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کیلئے پہلے مذاکرات کو ترجیح حاصل رہے گی جس کے بعد فوجی کارروائی کیلئے گرین سگنل دے دیا جائیگا اور طاقت کے استعمال سے گریز نہیں کیا جائیگا۔ اپنے بیان میں وزیراعظم نے کہا ہے کہ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں قوم سکیورٹی فورسز اور عوام کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی، پوری قوم دہشت گردی کیخلاف متحد ہے، دہشت گردی کے حملے حکومت کی امن کوششوں کو سبوتاڑ نہیں کر سکتے، حکومت عوام کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے عملی اقدامات کریگی، معصوم شہریوں اور فورسز کی قربانیاں ضرور رنگ لائیں گی۔حقائق کی روشنی میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مذاکرات کیلئے کون مخلص ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے اقتدار میں آنے کے بعد طالبان کو مذاکرات کی غیرمشروط پیشکش کی اور اس کا بار بار اعادہ بھی کیا۔ شدت پسندوں کی طرف سے ہمیشہ ایک ہی جواب آیا کہ وہ پاکستان کے آئین کو مانتے ہیں‘ نہ اس آئین کے تحت مذاکرات کرینگے‘ البتہ ایک آدھ مرتبہ مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی تو ڈرون حملے بند کرانے اور قیدی رہا کرنے جیسے مطالبات سامنے رکھ دیئے گئے۔ ڈرون حملے رکوانے میں حکومت بے بس اور مذاکرات کی کامیابی کا تعین ہونے تک قیدی رہا کرنا ممکن نہیں۔ اس دوران حکیم اللہ محسود کی ڈرون حملے میں ہلاکت ہوئی اور نئی شدت پسند قیادت نے مذاکرات کا باب سرے سے بند کر دیا حالانکہ اس سے چند دن قبل میجر جنرل ثناء اللہ نیازی اور ساتھیوں کو بارودی سرنگ دھماکے میں اڑا دیا گیا تو بھی حکومت نے مذاکرات کو ہی اپنی ترجیح اول قرار دیا تھا۔ آل پارٹیز کانفرنس میں فوجی قیادت نے بھی مذاکرات کی حمایت کی تھی۔ سابق آرمی چیف جنرل کیانی اور موجودہ جنرل راحیل شریف اپنے بیانات میں مذاکرات کی متعدد بار حمایت کر چکے ہیں۔ اس سے زیادہ حکومت کیا اخلاص ظاہر کرے؟ چند ماہ قبل نواز لیگ کو قوم نے مینڈیٹ دیا‘ چنانچہ حکومت کے بااختیار ہونے میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا۔ اب شدت پسندوں سے سوال کیا جا سکتا ہے کہ کیا وہ مذاکرات کیلئے سنجیدہ اور پاکستان کے آئین کے تحت مذاکرات پر آمادہ ہیں؟ سنجیدگی کا اندازہ مذاکرات کی پیشکش کے 24 گھنٹے گزرنے سے قبل راولپنڈی کینٹ پر حملے سے لگایا جا سکتا ہے جس میں چھ سکیورٹی اہلکاروں سمیت 11 افراد جاں بحق 24 زخمی ہو گئے۔ جی ایچ کیو کے قریب حملہ سوموار کی صبح پونے آٹھ بجے ہوا۔ خودکش حملہ آور نے آراے بازار میں خود کو دھماکے سے اڑالیا‘ ہدف سکیورٹی اہل کار تھے جبکہ عام شہری بھی اسکی زد میں آئے۔ ایسے حالات کیا مذاکرات کیلئے سازگار ہیں‘ یا دوٹوک فیصلہ کرکے کڑے اپریشن کے متقاضی ہیں؟میاں نوازشریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ دہشت گردی کیخلاف پوری قوم متحد ہے۔ مولانا سمیع الحق نے بھی کہا کہ مذاکرات کے مخالف پاکستان دشمن ہیں۔ کچھ مذہبی جماعتیں مذاکرات کی حامی‘ کچھ اپریشن پر زور دے رہی ہیں‘ بلاول بھٹو کے شدت پسندوں کیخلاف تیزوتند بیانات ریکارڈ پر ہیں‘ الطاف حسین فوری اپریشن کی بات کرتے ہیں۔ ایسے میں وزیراعظم اور آرمی چیف کی طرف سے دہشت گردی کیخلاف قومی اتحاد کے بیانات پر یقین کیسے کیا جا سکتا ہے؟ ایسی سرد جنگیں قوم میں اتحاد پیدا کئے بغیر جیتنا ممکن نہیں ہوتا۔قوم اور سیاسی جماعتیں ان کو مینڈیٹ دے چکی ہیں۔ اب اسکے مطابق فوری فیصلہ کریں کہ مذاکرات کی میز سجانی ہے یا اپریشن اور اسکے بعد ایک لمحہ ضائع کئے بغیر عمل کر گزریں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :