مذہبی جماعتوں میں تربیت کا بڑھتا ہوا فقدان

منگل 21 جنوری 2014

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

ایک زمانہ تھا جب معاشرے کے خوشحال اور عزت دار لوگ اپنی اولاد کو اخلاقی تر بیت اور زندگی گذارنے کے طور طریقے سکھانے کے لئے مدارس اور مذہبی جماعتوں کے زعما ء کے سپرد کرتے جہاں ان لوگوں کو نہ صرف تربیت فراہم کی جاتی بلکہ ایک انسان ہو نے کے ساتھ اچھا مسلمان بنا نے میں بھی کوئی کسر چھوڑی نہیں جاتی تھی جس کے نتیجے میں طویل فہرست ہے ان لوگوں کی جنہوں نے معاشرے کو ایک مثالی معاشرہ بنا نے میں اہم کردار ادا ء کیا ۔ تاریخ گواہ ہے کہ مذہبی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے نہ صرف اسلام بلکہ پاکستان کی آبیاری میں بھی اپنا بھر پور حصہ ڈالا اور ایک زمانے پر اپنا اثر چھوڑا۔ ایسے ایسے نام ہیں کہ جن کے روز مرہ کے معمولات کو دیکھتے ہوئے لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہو جاتے تھے۔ ایسی ہی ایک مثال سید عطا ء اللہ شاہ بخاری کی ہے جب اپنے ایک مرید کے ہاں کھانے پر تشرلف لے گئے جہاں پاس ہی ایک بھنگی صفائی کر رہا تھا۔

(جاری ہے)

کھانا شروع ہوا تو آپ  نے اس بھنگی کو آواز دی،لیکن اس نے کوئی توجہ نہ کی۔ آپ نے ایک دفعہ پھر آواز دی تووہ حاضر ہوا اور عرض کی جناب حکم؟ شاہ صاحب نے روٹی کا ایک لقمہ توڑا اور اس کوکھلایا ،پھر اس کے کھائے ہوئے لقمے سے بچاہوا آدھا لقمہ اپنے منہ میں ڈال لیا۔ یہ دیکھنا تھا کہ پاس بیٹھا بھنگی اُٹھا اور دوڑ لگادی۔ کچھ دیر بعد وہ اپنی بیوی ،بچوں سمیت دوبارہ حاضر ہوا اور شاہ صاحب کو عرض کی : ”حضور! ہمیں کلمہ پڑھائیں“۔اسلام کی تعلیمات کو صیح طور پر سمجھنے اور انہیں اپنی زندگیوں کا حصہ بنا نے والے ان لوگوں کا کمال یہ تھا کہ اسلام کے بڑے بڑے دشمن ان کے معاملات اور اخلاقیات کو دیکھتے ہوئے اسلام میں داخل ہو جاتے تھے۔قارئین! مجھے بہت افسوس کے ساتھ یہ لکھنا پڑ رہا ہے کہ اسلام کے نام پر بننے والی مذہبی جماعتوں کے افراد اسلام کی لازوال و خوبصورت تعلیمات اور اپنے اسلاف کے کردار سے دور ہوتے جارہے ہیں ۔ پچھلے کچھ دنوں میں مجھے ایسے چند واقعات کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے کہ بعض مذہبی حلقوں میں کس طرح اپنے مفادات کی خاطر عسکری گروہ اپنے ساتھیوں کی پشت پناہی کرتے ہوئے ان کے ناجائز کاموں میں ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔ بالخصوص یہاں میں اس بیوہ کی درد ناک داستان کا ذکر کر نا چاہتا ہوں کہ جس کا شوہر گردے ناکارہ ہونے کی وجہ سے ایک لاش کی مانند زندگی کے دن گذار رہا تھا ، اس کرب کے مرحلے میں رہی سہی کسر اس کے بھائیوں نے پوری کر دی جب ایک مذہبی جماعت سے تعلق رکھنے والے اس کے بھائیوں نے اپنے مسلح ساتھیوں کے ہمراہ اس کے رہائشی حصے کو خالی کرانے کے لئے طوفان بد تمیزی و بد معاشی کھڑا کر دیا۔بیوی اور اکلوتی بچی کی چیخ و پکار پر اہل محلہ کے عمل دخل پر معاملہ کچھ دن کے لئے دب گیا لیکن اس المناک سانحہ نے اس بیمار شخص کے ذہن پر ایسا اثر کیا کہ خوف اور دہشت کے اندھیروں نے جسم کے ہر حصے میں اپنا پڑاؤ ڈال لیا اور اسی کیفیت میں شدید غم میں مبتلا ہو کے ایک دن دار فانی کو کوچ کر گیا۔ ابھی اس بیوہ کی عدت کے دن بھی پورے نہ ہوئے تھے کہ ایک دفعہ پھر دوسری طرف سے وہی ڈرامہ رچایا گیا جس کی وجہ سے وہ خود بلکہ جواں سالہ بیٹی اور اس کا بوڑھا باپ بھی شدید ذہنی اذیت کا شکار ہیں۔یقینا یہ بات اسلام کے نام پر بننے والی مذہبی جماعتوں کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے کہ جہاں ان لوگوں کو اپنے کارکنان کو اسلام کی ترویج اور اشاعت کے لئے تربیت فراہم کر نی چاہئے تھی یہاں مظلوم اور بے کس و لاچار لوگوں کو ڈرائے اور دھمکائے جانے کی فیکٹریاں قائم ہو گئی ہیں ۔ظلم تو یہ ہے کہ تربیت کے شدید فقدان کے باعث مسجدوں کے محرابوں سے علم، اخلاق اور محبت کی بجائے نفرت،فرقہ واریت اور تعصب میں لپٹے الفاظ سنائی دیتے ہیں۔ایک گروہ دوسرے کو کافر اور دوسرا تیسرے پر مشرک کے الزامات کی بارش کرتے نہیں تھکتا،زہر میں لپٹی زبان سے ایسے الفاظ نکلتے ہیں جو لوگوں کے دلوں میں نشتر کی مانند پیوست ہو کے ان میں نفرت کو ابھارتے ہیں جسکی وجہ سے عوام بالخصوص نوجوان مسجدوں سے راہ فرار اختیا ر کر کے مارکیٹ میں تیزی سے بڑھتے ہوئے علم اور عمل دونوں سے خالی اسلامی سکالر کہلوانے والے انسان نما” بندروں“ کے ہاتھوں ضائع ہو رہے ہیں جو دین کو اس کی اصل صورت کے بر عکس اپنی ناقص عقل اور فہم کے مطابق اسے پیش کرتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں کو اپنی جماعتوں کی ” ریٹنگ“ بڑھانے کی بجائے کارکنان کی اخلاقی تربیت پرتوجہ مرکوز کرنی چاہئے اور احتساب کے عمل کو فعال اور مظبوط کر کے جماعتوں میں ”عسکری ونگ“ بنا نے اوراس کی آڑ میں لوگوں پر ظلم رواء رکھنے والے افراد کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے کارکنان کو منہج اخلاق نبوی ﷺ کے عین مطابق تربیت فراہم کر کے ان کے کردار اور معاملات میں حقیقی بدیلی لائے جائے اور بالخصوص” اسلام کے حقو ق العباد“ کی فضیلت و اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ہر طبقہ زندگی کے لوگوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کی لازمی تعلیمات کی تبلیغ کی جائے۔جس کیے نتیجے میں امید کی جاسکتی ہے کہ اخلاقی تربیت کا نظام بحال کر کے مذہبی جماعتوں کے پلیٹ فارم سے ایسے لوگوں کی کھیپ تیار ہو سکے گی جو اسلام کے امن،محبت اور بھائی چارے والے پیغام کو معاشرے میں عام کر سکیں پھر جس کی وجہ سے نہ صرف اپنے بلکہ غیر بھی اسلام کے ابدی اور دائمی پیغام کو اپنی زندگیوں میں لا کے انعام یافتہ انسانوں کی فہرست میں شامل ہو کے اپنے رب کے اکرامات اور عنایات کے مستحق ٹہریں ۔ اللہ کرے کہ ایسا ہو جائے۔ آمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :